ویران آغوش اور مامتا کا کرب


( 9 تا 15 اکتوبر: دنیا بھر میں اپنے کم سن بچے کی موت کا صدمہ جھیلنے والی ماؤں کے دکھ سے آگہی کا ہفتہ منایا جاتا ہے۔)

تقریباً دو سال قبل میری بھتیجی، منیژے وقاص، اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے تجربے سے گزری، اسی طرح جس طرح دنیا کی تمام مائیں گزرتی ہیں۔ زمانہ حمل کی مشکلات اور پیدائش کا دکھ جو ہر ماں کا حصہ ہے۔ لیکن افسوس کے وہ بچہ دنیا میں چند سانسیں ہی مستعار لایا تھا۔ ماں نے اولاد کے اس دکھ کو اپنے اندر ہی اندر پنپنے دیا اور کسی اظہار کے بجائے بس ایک چپ سادھ لی۔ تمام سوشل میڈیا سے کٹ کے اور بیٹے کی یاد میں بس کے۔ 9 تا 15 اکتوبر بچے کو کھو دینے سے آگہی کے ہفتے میں پہلی بار اس نے فیس بک پہ اپنے دکھ کا اظہار، اپنی ایک پر اثر پوسٹ سے کیا۔ ذیل میں اس پوسٹ کا ترجمہ ہے، جو میں اس کی اجازت سے شائع کر رہی ہوں۔

”یہ کچھ لمبی پوسٹ ہے۔ اگر پڑھ سکیں تو پلیز پڑھیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ جب میں اپنی کہانی بیان کر رہی ہوں۔ آج بچے کو کھو دینے کے ہفتے کی شروعات ہے (جو نو سے پندرہ اکتوبر تک جاری ہے)۔ یہ موضوع میرے دل کے بہت قریب ہے۔ کیوں کہ دو سال سے کچھ عرصے قبل، ہم نے اپنی سب سے قیمتی متاع اپنے بیٹے کو کھو دیا تھا۔

جب والدین کو ان کے گھر ایک بچے کی آمد کی نوید ملتی ہے، تو پھر ان کا ہر لمحہ قیمتی ہو جاتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ آپ اپنی تمام پریشانیوں کو برداشت کرتے ہیں۔ جسم کے ہونے والے اسکینز جس سے پتا چلے کہ بچہ خیریت سے ہے۔ طبیعت کی خرابی، متلی، پریشانی، سوجے ہوئے پیر، بے خواب راتیں اور بہت کچھ۔ کیوں کہ آپ کو پتا ہوتا ہے کہ ان سب کا انجام خوبصورت انعام کی صورت ہے۔ پھر کچھ مزید قیمتی لمحات۔ ہر ہر اسکین کی خبر آپ اپنے خاندان کو بتاتے ہیں۔

اس کی حرکت، بے بی شاور، اس کی شاپنگ، نام کا انتخاب غرض ہر بات ہر عمل ایک قدم ہوتا ہے، جو آپ کو آنے والی خوشیوں سے کچھ اور نزدیک لے جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن ہر والدین کے لیے یہ خوشی سچ ثابت نہیں ہوتی۔ ہمارے بیٹے کی کی سال گرہ کا دن وہی تھا، جب اس کے دل نے دھڑکنا چھوڑا تھا۔ پہلی بار اس کے نرم رخسار پہ ہاتھ پھیرنا میرا آخری لمس بھی تھا۔ اس کے حسین سر پہ میر پہلا پیار، میرا آخری بوسہ بھی تھا۔ میرا پہلا ”ہیلو“ میرا آخری خدا حافظ بھی تھا۔ میرے شوہر کا اس کے ننھے سے جسم کو نہلانے، اس کا آخری بار غسل بھی تھا کہ جب اس نے اپنے بیٹے کو سپرد خاک کیا اور نا ہی کوئی نائٹ ٹائم اسٹوری تھی، جو اسے سنائی گئی۔

بچے کو کھونے کا درد کبھی نہیں جاتا۔ در اصل یہ تو بڑھتا ہی رہتا ہے۔ اور آپ زندگی میں آگے بڑھتے ہیں تو یہ بھی آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اور آپ سوچتے ہی رہتے ہیں کہ ”اگر ایسا ہوتا تو شاید۔ یا یہ کہ ایسا کرنا چاہیے تھا۔“ یہ درد آپ کے وجود کا حصہ بن کر ساتھ رہتا ہے۔ کبھی بھی آپ سے جدا نہیں ہوتا۔

اپنے بیٹے کو کھونے کے دکھ نے ہم کو توڑ دیا ہے۔ مگر اس کی جدائی نے ہمیں ہی نہیں، اپنی نانی، نانا، دادی، دادا، خالہ، ماموں، پھپھو، چاچا غرض سبھی کو توڑ دیا ہے۔ ہم خوش نصیب تھے کہ ہمارے پاس اپنے لوگ تھے، جنہوں نے ہمارے دکھ کو بانٹ لیا ہمیں سنبھال لیا۔ ہر انسان اتنا خوش نصیب نہیں ہوتا۔

آج میں بوجھل دل کے ساتھ اپنی کہانی سنا رہی ہوں۔ ہم دردی حاصل کرنے کے لیے نہیں، مگر اس المیے سے آگہی کے لیے کہ جس کا کبھی ذکر نہیں ہوتا۔ ان تمام والدین کے درد سے آگہی کے لیے جنہوں نے اپنے دل کا ایک حصہ کہیں کھو دیا ہے۔

اگر آپ کے پاس کچھ لمحات ہیں، تو ویب سائٹس پہ جائیں، اس سے متعلق پڑھیں اور ویڈیو سنیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کو ان ماؤں اور باپوں تک پہنچنے میں مدد دے، جن کا جھولا خالی ہے۔ ان بچوں کے لیے آگہی بڑھائیے، جن کے ناموں کی بمشکل ہی ادائیگی ہو پائی۔ ویسے میں اپنے بیٹے کا نام بہت فخریہ بتاتی ہوں کہ وہ راہول بن وقاص ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).