کیا ڈاکٹر مولانا عادل شہید حکومت کے لئے اہم نہ تھے؟


بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ نامعلوم افراد معلوم ہو جائیں اور پھر اگر یہ افراد کراچی میں نامعلوم ہو جائیں تو پھر ان کا سراغ لگانا ناممکن ہی سا ہوجاتا ہے۔ کراچی کی سرزمین کئی بے گناہوں کی خون سے رنگی ہوئی۔ عام شہری، سیاسی شخصیات جید علما سب ہی کا خون اس سرزمین پر کسی نہ کسی دور میں بہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید ایک ہی بندوق ہے جس کی گولی کبھی اسلم شیخوپوری کا سینا چاک کردیتی ہے، کبھی مفتی تقی عثمانی کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتی ہے اور کبھی مولانا ڈاکٹر عادل خان کی شہادت کا باعث بنتی ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی ایک ہی گروہ ہے جو کبھی سلیم قادری کو شہید کردیتا ہے اور کبھی علامہ عباس قادری کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کا مقام بلند کردیتا ہے لیکن افسوس کہ یہ گولی اور گولی چلانے والا نامعلوم ہی رہتا ہے۔

یہ گولی تو شاید ہمیشہ نامعلوم ہی رہے گی لیکن اس کے مقاصد سب کو معلوم ہیں۔ جب بھی کراچی کے حالات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں کے بعد استحکام پیدا ہوتا ہے تو یہ نامعلوم گولی کراچی کا امن خراب کرنے، ملک میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے کے لئے چل جاتی ہے لیکن افسوس کہ نہ تو ماضی کے کرپٹ اور نہ اب کے صادق اور امین اس گولی کو چلنے سے روک سکے۔

گزشتہ دنوں کراچی میں مولانا ڈاکٹر عادل کو ایسی ہی کسی بے رحم گولی نے اپنا نشانہ بنا دیا۔ کراچی میں شہید کیے گئے مولانا عادل خان کون تھے؟ کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں شہید کیے گئے مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان ایک نامور بزرگ عالم دین تھے جن کی عمر 63 سال تھی، مرحوم عالم اسلام کے معروف علمی شخصیت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کے بڑے صاحبزادے تھے۔ 1973 میں دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ سے ہی سند فراغت حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے 1976 میں بی اے کیا، 1978 میں ایم اے عربی اور 1992 میں اسلامک کلچر میں پی ایچ ڈی کی، 1980 ء ( اردو انگلش اور عربی ) میں چھپنے والے رسالے الفاروق کے تاحال ایڈیٹر رہے۔

آپ کچھ عرصہ امریکا میں بھی مقیم رہے، جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹر قائم کیا اس اسلامی سینٹر کا قیام جہاں دینی معاملات میں مسلمانوں کا معاون ثابت ہوا وہیں یہ بات ملک پاکستان کے لئے بھی باعث فخر ہے۔

مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان نے ملائیشیا کولالمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010 ء سے 2018 تک کلیۃ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔

دو ہزار اٹھارہ میں اآپ کو ملائیشیا ہایئر ایجوکیشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازاگیا، یہ ایوارڈ آپ کو ملائیشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔ وفاق المدارس العربیہ کے مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر مولانا عادل خان ان علما میں سے ایک تھے جنہوں نے مسٹر اور مولوی کے درمیان موجود فاصلے کو ختم کر کے ملک کو دین پر چلتے ہوئے ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لئے خاصی کوشش کی۔

مولانا ڈاکٹر عادل خان کو اردو انگلش اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا، وہ بہترین معلم، خطیب اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات فقہی مسائل آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخ پاکستان اور اردو و عربی ادب جیسے موضوعات پر عبور رکھتے تھے۔

یہ مولانا ڈاکٹر عادل کی دینی خدمات تھیں چلیں انہیں ایک طرف رکھ کر بات کرلیجیے۔ مولانا ڈاکٹر عادل خان وہ شخصیت تھے جنہوں نے ملک کو اس وقت انتشار سے بچایا جب ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ایک بار پھر کوئی قوت ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کی آگ لگانے کو کوشش میں ہے اور اس کا حکمت عملی کامیاب ہوتی جا رہی ہے۔ مولانا ڈاکٹر عاد ل خان نے اس وقت تمام مسالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جب ملک بھر میں مسلمان گروہ بندیوں کا شکار تھے۔ جب بھی کہیں بھی کوئی اختلاف ہوا تو یہ ڈاکٹر عادل ہی تھے جنہوں نے نوجوانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا اور اپنا پیغام حکومت تک پہنچانے کا پر امن راستہ اختیار کیا اور دوسروں کو بھی اس پر گامزن کیا۔

ایسی شخصیت جو نہ تو کیوں نکالا کے نعرے لگاتی تھی، نہ ہی میں ان کو رلاؤں گا کا بیان کرتی تھی اور نہ ہی اسمبلی میں یا کسی بھی مقدس پلیٹ فارم پر غیر ذمہ درانہ تقریر کرتی تھی، ایسی شخصیت جو امریکا جیسے ملک میں اسلامک سینٹر کی بانی ہو، ایسی شخصیت جسے ملائشیا کے صدر نے علمی خدمات پر ایوارڈ دیا ہو یقینی طور پر ان لوگوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے جو کسی چور دروازے سے آگے آتے ہیں، جو کرپشن اور دھاندلی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، جو اپنے اقتدار کے لئے عوام کو لڑواتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ایک رکن صوبائی اسمبلی جسے اس کے محلے سے باہر کوئی جانتا بھی نہیں اسے تو فل پروف سیکیورٹی دی جاتی ہے لیکن اس قدر نامور، قابل قدر، ملک کے لئے باعث فخر اور علمی شخصیت کو حکومت کی جانب سے ایک بھی محافظ نہیں دیا جاتا ہے؟

کراچی ہی نہیں ملک بھر کے علما کو دیکھ لیجیے چاہے ان کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو آخر انہیں سیکیورٹی کیوں نہیں دی جاتی؟ کیا تمام سیکیورٹی ملک کے سیاستدانوں اور ان کے بچوں کے لئے ہی ہے؟ ریاست کے ایک ایک شہری کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے پہلے والوں کو تو رہنے ہی دیجئے کیوں کہ بقول میں کپتان کے وہ تھے ہی کرپٹ لیکن صادق اور امین حکومت کیوں اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے؟ کیا حکومت اب کسی اور سانحہ کا انتظار کررہی ہے یا پھر ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملک کی نام نہاد اہم شخصیات کے بجائے حقیقی اہم شخصیات کو سیکیورٹی دی جائے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).