مولوی گائیڈننگ سسٹم


میں پشاور سے رات کے وقت ایک شادی میں شرکت کے لئے اسلام آباد جا رہا تھا۔ شادی ہال کا پتا نکالا، گوگل میپس میں لگایا اور جی پی ایس آن کیا۔ رستے میں دوستوں سے پرانی باتیں کر کر کے رستہ کم کر رہے تھے۔ اسلام آباد ٹول پلازا کراس کر کے میں نے کچھ پوچھا۔ کسی نے ریڈیو پر نغمہ لگایا اور ہم اس وقت چونکے جب فون سے آواز آئی کہ ”اب آپ کو متبادل رستہ فراہم کیا جا رہا ہے“۔ یعنی ہم اپنا اسلام آباد کا ایگزٹ کراس کرچکے تھے۔ دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسا کہ اگلا ایگزٹ پورے پینتالیس کلومیٹر دور چکری پر تھا۔ خیر اپنے اعصاب ٹھنڈے کیے۔ دوستوں سے درخواست کی کہ ذرا جی پی ایس کو غور سے سنیں اور فون کا والیوم بڑھا دیا۔

اب آپ ایک لمحے کو تصور کریں کہ گوگل میپس میں گلوبل پوزیشننگ سسٹم کی بجائے مولوی گائیڈننگ سسٹم لگا ہوا ہے۔ میں نے جونہی رہنمائی سے تھوڑی سی روگردانی کی اور اوپر سے فتویٰ دے دیا۔ ”جا تو بھی کافر۔ اور ہاں تمہارا نکاح بھی ٹوٹ گیا۔ نہیں بتاتا آگے رستہ۔“ اور کٹ سے میرا فون ہی ڈیڈ ہو گیا۔ اب مسئلے کی تو وضاحت ہو گئی۔ یعنی ایک مسلمان اسلام چھوڑ کر کافر ہو گیا۔ مرتد ہو گیا۔ اب اس کا قتل لازم ہے۔ کون عدالت کے بکھیڑے پالے۔ بس ایک گولی۔ وکیل ایک دوسرے سے بڑھ کر عدالتوں میں دفاع کے لئے تیار۔ مقتول کا جنازہ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔ بیوی پہلے ہی سے مطلقہ۔ بچے یتیم اور والدین ایک دوسرے سے منہ چھپا رہے ہیں۔

میری ایک کولیگ فرانس سے انگلینڈ آئیں اور میرے ساتھ پلاسٹک سرجری میں کام شروع کیا۔ ان کے دو بچے تھے۔ ایک دن خوش گوار حیرت ہوئی کہ وہ شادی سے پہلے مسلمان ہو چکی ہیں۔ کیسے مسلمان ہوئیں، وہ پھر کبھی۔ ایک دن بچوں کو مسجد سے لے کر آئیں تو بہت اداس تھیں۔ کہنے لگیں مولوی صاحب میرے بچوں کو بتا رہے تھے کہ ان کی ماں مسلمان نہیں ہیں۔ اس لئے کہ وہ اسپتال سے سیدھی سرجیکل سکرب میں گئی تھیں۔ میں نے مشورہ دیا یہ پاکستانیوں کی مسجد ہے۔ یہاں سے نکلوا کر عربوں کی مسجد میں داخل کرائیں۔

کافر، زندیق، رافضی، لاہوری وغیرہ کے القابات انہی مولویوں کے ایجاد کردہ ہیں۔ فتوے کے حوالے میں کثرت سے ”در مختار“ کا حوالہ دیں گے، قرآن سے کوئی حوالہ نہیں۔ اور در مختار کا مطالعہ کریں تو اپنا سر پیٹنے کو جی چاہے گا۔ امامت کے معیار میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ مسجد میں ان کا سر بڑا اور جنسی عضو چھوٹا ہو۔

ہوا یہ کہ قرآن کی تفسیر بنی۔ پھر اس تفسیر سے فقہ بنی اور فقہ سے من مانے اور فرضی مسائل نکلنے لگے جیسے ”مردے سے جنسی فعل کے بعد غسل واجب ہوتا ہے کہ نہیں“۔ اب آپ مدرسے کے طالب علم کو پڑھا رہے ہیں کہ نا بالغ لڑکے سے مباشرت کے بعد غسل کیسے کریں گے اور نا بالغ پر غسل واجب ہے کہ نہیں۔ تو یہی طالب علم پہلے مفعول بنے گا اور پھر فاعل نہیں تو اور کیا۔

اے میرے بڑے بڑے نام رکھنے والے علما! آپ کو اپنے ہی در مختار کا واسطہ (قرآن نے تو آپ کو کفر کے فتوے کا اختیار ہی نہیں دیا)، آپ نے تو اسلام سے اتنے لوگ نکالے ہیں، جتنے داخل بھی نہیں کیے۔ اب بس بھی کریں۔ کچھ علم کی بات بھی کریں۔ گوگل میپس سے سبق سیکھیں۔ رہنمائی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).