طویلے کی بلا، بندر کے سر


دور جہالت میں لوگوں میں توہم پرستی عام تھی، تو لوگوں کا خیال تھا کہ جب بھی کوئی بلا آتی ہے، تو طویلے میں موجود بھیڑ، بکریاں، گائے، گھوڑے وغیرہ پر گرتی ہے، جس کی وجہ سے وہ مر جاتے ہیں۔ انہوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ طویلے میں بندر کو باندھ دیتے تا کہ قیمتی جانور بچ جائیں اور بندر کی قربانی ہو جائے۔ کیوں کہ بلا کو کسی بھی جانور کی قربانی چاہیے ہوتی ہے، اس طرح وہ قیمتی جانور کو بچانے کے لیے بندر کی قربانی دے دیتے۔

پھر اس میں بھی تبدیلی آئی اور بندر کی بلا، طویلے کے سر ہو گئی۔ یعنی الٹ معنی دونوں کا ایک ہے کہ قصور کسی کا اور سزاوار کوئی اور ٹھہرا، یا کرے کوئی اور بھرے کوئی اور۔ امیر کو بچانے کے لیے کسی غریب کی قربانی وغیرہ۔ تبدیلی تو شروع ہی سے کسی چیز کے الٹ ہونے کا نام ہے، اور اس وقت ملک میں ہر چیز الٹ ہی ہو رہی ہے تو آج لوگ تبدیلی لانے والوں سے اتنے نالاں کیوں ہیں؟

ہمارے آج کے حکمرانوں نے بھی ہر مصیبت کا حل یہ نکالا ہے کہ جو بھی اچھا ہو رہا ہے، وہ ہماری وجہ سے ہو رہا ہے اور جو بھی برا ہو رہا ہے، اس کی پوری ذمہ دار اپوزیشن یا پہلے والے حکمران تھے۔ ملک میں مہنگائی ہو رہی ہے، تو پچھلے حکمران اور موجودہ اپوزیشن اس کی ذمہ دار ہے، اور اگر پچھلے حکمرانوں کے لگائے پروجیکٹ کوئی منافع دے رہے ہیں، تو وہ ہماری قابلیت ہے۔ جیسے قائد اعظم سولر پاور پروجیکٹ وغیرہ۔ اور چیخ چیخ کر بتایا جاتا ہے کہ دیکھو یہ موٹر وے، اورنج لائن پچھلی حکومت نے بنائی، تو آج اتنا ملک کو خسارہ دے رہی ہے، مگر اس کو پوری طرح چلا کر، سروس اسٹیشن بنا کر، اسے منافع بخش نہیں بنانا کہ نام تو پچھلی حکومت کا ہو گا۔ اس لیے رہنے دو۔

پہلے ہم نے جلوس اور دھرنے دیے تو وہ ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے تھے۔ اور اب جو اپوزیشن دو سال کی خاموشی کے بعد جلسے کرنے لگی ہے، تو ملک کی ہوتی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ یہ ترقی کون سی ہے اس کا علم بھی صرف حکمرانوں ہی کو ہے۔ عوام اس سے لا علم ہیں۔

حکمرانوں کی اہلیت کا معیار تو یہ ہے کہ ملک میں گندم کی پیداوار ہوئی تو وزیروں نے کابینہ میٹنگ میں کہا کہ ضرورت سے زیادہ ہو گئی ہے، بر آمد کر دینی چاہیے، جب بر آمد کر دی، تو بعد میں پتا چلا کہ گندم تو اپنے لیے بھی نہیں بچی اور مہنگی بھی ہو گئی تو کوئی بات نہیں، دوبارہ سے مہنگے داموں خرید کر در آمد کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔ یہی احوال چینی کا بھی ہوا اور بتانے والے بھی حکومتی وزیر یعنی کوئی شرمندگی نہیں مگر دعوے بلند و بانگ کہ جیسے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں۔

کرونا وبا آئی تو ادویہ کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئیں اور مشیر صحت موصوف صاف دامن بچا کر نکل جانے میں کامیاب ہوئے اور ایک بار پھر ہم نے دوائی مہنگی کر دی، تا کہ عوام کو مل تو سکے۔ مہنگی ہی سہی۔ گیس کی کمپنی کو نقصان ہو رہا ہے تو اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بوجھ عوام پہ ڈال دو۔ بجلی کمپنی کو نقصان ہو رہا ہے تو بوجھ عوام پہ ڈال دو۔ پیٹرول عالمی سطح پر مہنگا ہوا تو عوام کے لیے بھی مہنگا اور عالمی سطح پر سستا ہوا اور کوئی لینے و والا نہیں تو سرکاری خزانہ خالی ہونے کا بہانہ بنا کر لیوی بڑھا دو، مگر سستا نہیں کرنا، بوجھ عوام پہ ہی ڈالنا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے جو وعدے عوام سے کیے تھے، اگر ان کا صرف دس فی صد ہی نبھا دیتے، تو آج اپوزیشن کو سڑکوں پہ آنے کی جرات ہی نہ ہوتی اور عوام حکومت کے ساتھ ہوتے، مگر انہوں نے جو وعدے کیے تھے، حکومت میں آ کر ان کے الٹ عمل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج سرکاری ملازم، تاجر، وکیل، ڈاکٹر سب سڑکوں پہ ہیں۔ مزدور دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے، جب کہ حکومتی ارکان سب اچھا ہے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ میڈیا پوری ایمان داری سے حکومتی ترجمانی کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔

اپوزیشن دو سال عوام کا بیڑا غرق ہونے کا انتظار کرتی رہی، اور اپنی جان چھڑانے کی کوشش میں مگن رہی مگر جب کچھ نہ بن پڑا، تو عوام کی پس ماندگی اور بڑھتی مہنگائی کی دہائی دیتے میدان میں اتر پڑے۔ عوام اس وقت کسی بھی مسیحا کے انتظار میں ہیں، اس لیے کوئی کالا چور بھی ان کے حق کی لڑائی لڑے گا تو عوام اس کا بھی ساتھ دینے پہ رضا مند ہو جائیں گے۔ بڑے بڑے مگر مچھوں نے کرپشن کی اور ملک کا دیوالیہ نکال دیا، وہ پیسے ملک سے باہر لے جا کر غائب کرتے تھے اور یہ پیسہ ملک میں واپس لاتے ہیں، مگر نہ جانے کیسے وہ پھر بھی غائب ہو جاتا ہے اور پتا بھی نہیں چلتا۔

ابھی تو تبدیلی شروع ہی ہوئی ہے اور عوام کی چیخیں نکل گئیں ہیں۔ در اصل یہ عوام بھی کرپشن کی عادی ہو چکے تھے، اس لیے چیخ رہے ہیں۔ ایک غریب آدمی بھی رونے لگ جاتا ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی، بھلا اس کی کیا اوقات کہ حکمرانوں پہ نکتہ چینی کرے۔ دیکھتے نہیں کہ سال میں ایک دفعہ وزیر اعظم بھی کھانا پناہ گاہ یا لنگر خانے سے کھاتے ہیں اور تنخواہ میں گزارہ تو ملک کے وزیر اعظم کا بھی نہیں ہوتا مگر وہ تو نہیں چیختے اور نا ہی روتے ہیں۔ وہ تو اتنی عمر ہونے کے با وجود بھی ڈٹ کے تمام مافیا کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس لڑائی میں مافیا بھی ان کے ساتھ ہے یقین نہیں، تو چینی پہ بنی کمیشن رپورٹ ملاحظہ فرما لیں۔

چاہے اس میں نقصان عوام کا ہو مگر حاکم کی اطاعت کا حکم ہے اور یہ تو عوام ہی کی منتخب حکومت ہے۔ اس لیے محبت کا رشتہ قائم رکھنا چاہیے۔ یہ عمل دونوں طرف سے ہونا چاہیے پھر ہی مضبوط ہو گا، مگر ہمارے ملک میں تو یہ رشتہ ہمیشہ ہی نفع کی بنیاد پہ بنا اور نقصان ہونے کی صورت میں ٹوٹ گیا۔ حدیث میں ہے کہ:

” تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں، جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں۔ تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمہارے لیے دعا کریں اور تمہارے بد ترین حکمران وہ ہیں، جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔“
(صحیح مسلم: حدیث نمبر 1855 انٹرنیشنل)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).