اشتیاق احمد کی تکفیریت نے انہیں غیر مقبول کر دیا


لیجیے، بات ایک بار پھر غلط سمت میں مڑ گئی۔ ان باتوں میں بس یہی بات بری ہے کہ بات بے بات ادھر سے ادھر نکل جاتی ہیں۔ آپ تو ان سے واقف ہی ہیں۔ ہاں تو میں نے دوستوں کا مشورہ رد کر دیا اور اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔ یہاں تک کے ناولوں کے آخر میں مسئلہ ختم نبوت شائع ہونے لگا۔ پھر انجمن دعوتِ فکر و عمل کے اسباق شائع ہونے لگے۔

ناولوں کے پلاٹوں میں بھی اسلام دشمن عناصر کے بارے میں زیادہ مواد آنے لگ گیا۔ تعداد اشاعت کم ہوتے ہوتے کافی حد تک کم ہو گئی، لیکن پھر ایک جگہ رک گئی۔ اس کا گرنا بند نہ ہوتا اور یہ نہ رکتی۔ تب بھی میرا یہی فیصلہ تھا کہ اس کام سے باز نہیں آؤں گا، کیونکہ دین کی تبلیغ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔

دین کے ایک عالم سے ایک بار ملاقات ہوئی۔ کسی نے تعارف کے طور پر یہ کہہ دیا کہ یہ ناول نگار ہیں اور ناولوں میں مرزائیت کے خلاف لکھتے ہیں۔ انہوں نے دعا دی اور پھر یہ ہدایت بھی دی کہ شرک اور بدعت کی طرف بھی توجہ دوں کیونکہ یہ طوفان اسلام کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہے۔ ان کی بات بالکل درست تھی۔ بعد میں میں ان سے بیعت بھی ہوا۔

مطلب یہ کہ ایسے کئی عالموں کا دست شفقت میرے سر پر گامزن ہو گیا۔ ان کی صحبت سے بہت سی مفید باتیں حاصل کرتا رہتا ہوں۔ اور یہ سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔

بے شمار خطوط اس قسم کے موصول ہوتے رہتے ہیں، آپ کے فلاں ناول نے تو ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ ہم تو اب تک گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ اور یوں لفظ ناول جو پہلے گالی سے زیادہ بدنام تھا، اب برا نہیں رہا۔ کم از کم میرے قارئین اور ان کے گھر والوں کی حد تک تو ضرور ایسا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بڑے بڑے آفیسرز جن میں سول اور فوجی دونوں طرح کے آفیسرز شامل ہیں، کے بچے یہ ناول پوری اجازت سے پڑھتے ہیں۔ بلکہ اکثر بچوں کا کہنا ہے کہ ہمارے والد اگر ناول نہیں بھی پڑھتے تو آپ کی دو باتیں تو ضرور پڑھتے ہیں۔ اکثر کا کہنا ہے کہ ہمارے والدین ناول بھی پڑھتے ہیں۔

اس سے ظاہر ہے، میرا اس لائن پر آنا حد درجے مفید رہا۔ میری دنیا کے لیے نہیں، میرے قارئین کی دنیا کے لیے بھی اور آخرت کے لیے بھی۔ اور میری صرف آخری کے لیے مفید رہا۔ لیکن میں یہ خیال کر کے خود کو مطمئن کر لیا کرتا ہوں کہ ایسی منافع بخش تجارت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی کیا کرتے تھے۔

جیسا کہ ایک بار قحط کے زمانے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب غلہ فروخت کرنا چاہا تو ان کے پاس غلے کے بیوپاری آنے لگے اور بڑھ چڑھ کر دام لگانے لگے، لیکن وہ ہر ایک سے یہی کہتے رہے کہ میں اس سے بھی زیادہ نرخ پر فروخت کروں گا۔ جب ہر ایک سے انہوں نے یہی کہا تو بیوپاریوں نے تنگ آ کر پوچھا آخر آپ کتنے منافع پر غلہ فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ فرمایا دس گنا منافع پر۔ یہ سن کر بیوپاری خاموش ہو گئے کیونکہ اتنے ریٹ پر وہ نہیں خرید سکتے تھے۔ لیکن وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بات کو سمجھ نہیں سکے تھے۔ وہ تو اس وقت سمجھے جب انہوں نے تمام غلہ غریبوں میں مفت تقسیم کر دیا۔ گویا انہوں نے آخرت کی تجارت کی تھی۔

سو میں نے خیال کر لیا ہے کہ آخرت کی تجارت اس دنیا کی تجارت سے دس گنا بہتر ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں، ہیں جی؟

اشتیاق احمد
یکم مارچ 1991


نسیم حجازی ایک طعنہ نہیں بلکہ ایک تمغہ ہیں

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments