فیڈرل پبلک سروس کمیشن مزید شہروں میں ٹیسٹ سینٹر قائم کرے


لاک ڈاؤن کے بعد تعلیمی سلسلے بحال ہوئے، تو فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے بھی اپنے امتحانات کا اعلان کر دیا، جس پر سرکاری نوکریوں کے انتظار میں بیٹھے امیدواروں نے سکھ کا سانس لیا۔ انہی میں حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے نبیل نے بھی اپنی بیگم اور اس کی دوست کے ہم راہ، گریڈ سترہ کی اسامی کے ایک ٹیسٹ کے لیے حیدر آباد سے کراچی کا رخ کیا۔ پورے ملک سے امیدواروں کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ٹیسٹ دینے کا بندوبست صرف دس شہروں میں ہی کیا جاتا ہے۔ ان میں اسلام آباد، گلگت، اسکردو، بلوچستان میں کوئٹہ، خیبر پختون خوا میں پشاور اور ڈی آئی خان، پنجاب میں لاہور اور ملتان، سندھ میں سکھر اور کراچی۔

مقرر وقت صبح دس بجے سے پہلے پہنچنے کے لیے انہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ سے نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ کیوں کہ خواتین کا ساتھ پھر مسافر وین کے بھرنے میں وقت کے ضیاع اور آتے جاتے ٹرانسپورٹروں کے منہ مانگے کرائے کی بلیک میلنگ کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ جب کہ گاڑیاں جو چار مسافر لے کر اسٹاپ سے کراچی سہراب گوٹھ تک جاتی ہیں، ان کا کرایہ چھے سو سے سات سو فی سواری ہوتا ہے۔

ہائی وے کے سفر کے بعد کراچی ٹول پلازہ سے شہر میں داخل ہو کر بھی مطلوبہ سینٹر تک کا راستہ تقریباً ایک گھنٹے سے زائد کا ہی ہوتا ہے، جس میں اتنے بڑے شہر کے ٹریفک کی بدولت مزید وقت لگ جاتا ہے۔ اس میں اگر آپ لوکل بسیں استعمال کرتے ہیں، تو اور دیر ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ رکشہ یا ٹیکسی کرنے کے صورت میں خاصا کرایہ بن جاتا ہے۔

ریل وے سے بھی تین گھنٹے کے سفر میں ٹرین کے وقت پر آنے اور دوران سفر سگنل ملنے یا نہ ملنے کے سبب دیر ہو جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ ایف پی ایس سی کے مطلوبہ سینٹر جس کالج یا اسکول میں لگتے ہیں، وہاں کا بالکل درست پتا، مقامی افراد کو بھی معلوم نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ آپ کو مطلوبہ علاقے میں پہنچ کر بھی خاصا خوار ہونا پڑتا ہے، جس میں وقت اور پیسہ دونوں لگ جاتے ہیں۔

اسی سبب بہت سے امیدوار مجبوراً اپنی جیب پر بوجھ ڈال کر پانچ سے چھے ہزار روپے میں رینٹ اے کار کرواتے ہیں، تا کہ وقت سے پہلے پہنچ سکیں۔ نبیل نے بھی یہی کیا، وہ صبح چھے بجے گھر سے روانہ ہوئے، لیکن بیچ میں ہائی وے پر ان کی گاڑی خراب ہو گئی۔ بہت دیر بے آسرا آتی جاتی گاڑیوں کو مدد کے اشارے کرنے کہ بعد، ایک خدا ترس بندے نے انہیں کراچی کینٹ تک لفٹ دی، جہاں سے ایک دوست نے ان کی مدد کی۔

یوں شدید ٹریفک جام میں دوسروں کی مدد کے سہارے نبیل دونوں خواتین کو ان کے سینٹروں پر چھوڑتا ہوا اپنے ٹیسٹ سینٹر پہنچا، تو دس بج کر بارہ منٹ ہو رہے تھے۔ اسے بارہ منٹ کی تاخیر سے آنے پر امتحان دینے کی اجازت نہیں دی گئی اور رات کو تین بجے نہ نکلنے کا قصور بھی سنا دیا۔
”یہ ممکن نہ تھا، میری بیگم کی شادی شدہ دوست بھی اپنے چھوٹے بچوں کو کسی کے سپرد کر کے آئی ہے۔ میں پیپر بھی وقت پر واپس کروں گا۔“ نبیل نے اسٹاف کی منتیں کیں انہیں ساری صورت احوال بتائی، لیکن وہ بے حسی کی تصویر بنے رہے اور یوں نبیل کے پچھلے سات ماہ کی محنت مٹی میں مل گئی۔

لیکن یہ نبیل ہی نہیں، ہر اس امیدوار کا مسئلہ ہے، جسے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ٹیسٹ دینے دور دراز شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ لڑکے تو جیسے تیسے پہنچ جاتے ہیں لیکن بہت سی خواتین امیدوار محفوظ سفر کے ذرائع نہ ہونے کی بنا پر ٹیسٹ ہی نہیں دے پاتیں۔ ما سوائے جن کے اپنے، دھکے کھا کر انہیں نا صرف دوسرے شہر لے جاتے ہیں، بلکہ دو ڈھائی گھنٹے باہر سڑک پر انتظار میں بھی خوار ہوتے رہتے ہیں۔

بہت سے سینٹروں میں پینے کے ٹھنڈے پانی اور کلاس میں گھڑی کا انتظام بھی نہیں ہوتا، لیکن امیدواروں سے پچاس پچاس روپے کے عوض موبائل جمع کر لیے جاتے ہیں۔ امیدواروں کی کثیر تعداد کے سبب ایک ہی اسامی کے ٹیسٹ کو دوبار لیا جاتا ہے، جس پر دونوں پرچوں کے نصاب کے فرق میں بھی ایف پی ایس سی کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ٹیسٹ کی فیس جو گریڈ 17 کی پوسٹ کے لیے 300 اور گریڈ 18 کے لیے 750 روپے، صوبائی گورنمنٹ سے بہت کم ہو کر بھی دوسرے شہروں سے آنے والے بے روزگار امیدواروں کے لیے بہت مہنگی ثابت ہوتی ہے۔ اس کی نسبت صوبائی حکومتیں فیس زیادہ لیتی ہیں، تو اپنے سینٹروں کی تعداد بھی اس طرح رکھتی ہیں کہ امیدواروں کو دور دراز سفر کے اخراجات اور وقت دونوں میں بچت ہو جاتی ہے۔

جب فیڈرل گورنمنٹ کے ادارے ملک کے ہر شہر میں موجود ہیں، تو فیڈرل کمیشن کے امتحانات کو صرف دس شہروں تک محدود رکھنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس مسئلے پر عوام کی جانب سے کئی درخواستیں بھی دی جا چکی ہیں۔ حکومت کو بھی بے روزگار امیدواروں کے اس مطالبے پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کئی اور شہروں میں لینے کی پالیسی پر فوراً عمل در آمد شروع کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).