’عوام کی شرکت شاید قیادت کی توقع سے زیادہ رہی‘


            <figure>
  <img alt="کراچی" src="https://c.files.bbci.co.uk/C7AC/production/_114961115_hi063895626.jpg" height="549" width="976" />
  <footer>Reuters</footer>

</figure>پاکستان کی پارلیمنٹ میں خواتین کی موجودگی میں اضافہ، سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا اضافہ اور تعلیمی اداروں میں بھی طالبات میں اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن سیاسی میدان میں ان کی موجودگی میں کمی ہی نظر آرہی ہے۔ حکومت مخالف اپوزیشن کے گیارہ جماعتی اتحاد پیپلز ڈیموکریٹک مؤومنٹ کے حالیہ جلسوں میں اس رجحان کی عکاسی ہوتی ہے۔

گجرانوالہ میں پی ڈی ایم اے کے پہلے جلسے میں صحافیوں کے مطابق صرف چند ہی خواتین کارکن نظر آئیں۔ کراچی میں لیاقت باغ میں دوسرے جلسے میں خواتین شرکا موجود تو تھیں لیکن مردوں کے مقابلے میں ان کی شرکت اگر آٹے میں نمک برابر قرار دی جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ان شرکا خواتین میں بھی نوے فیصد کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا جبکہ سٹیج پر برا جماں قیادت میں واحد ایک ہی خاتون رہنما مریم نواز موجود تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

ڈھول کی تھاپ اور سیاسی ترانوں کی گونج میں حزبِ اختلاف کا حکومت مخالف جلسہ

’حملہ جنرل باجوہ پر نہیں آرمی پر ہے، اپوزیشن کو مختلف قسم کا عمران دیکھنے کو ملے گا‘

نواز شریف کے جنرل قمر باجوہ پر ن لیگ حکومت کو ’رخصت‘ کرانے، عمران خان حکومت کے لیے ’جوڑ توڑ‘ کرنے کے الزامات

جناح باغ حالیہ سالوں میں سیاست کے نئے اکھاڑے کے طور پر ابھرا ہے۔ یہاں تحریک انصاف نے جلسے کیے، جمعیت علما اسلام نے 2012 میں ایک بڑا اجتماع کیا، مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم سے راہیں الگ کرنے کے بعد یہاں جلسہ منعقد کر کے اپنی عوامی مقبولیت کا اظہار کیا، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی بلاول بھٹو کے لیے اسی مقام کا انتخابات کیا تھا۔ ماضی میں نشتر پارک اور ککری گراونڈ جلسہ گاہ کے لیے موزوں سمجھے جاتے تھے۔

جلسے کے اجازت نامے میں منتظمین کو کووڈ سے بچاؤ کے لیے سماجی فاصلے اور دیگر احتیاط برتنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ابتدائی طور پر جلسہ گاہ میں موجود واحد کیمپ سے ماسک فراہم کیے گئے لیکن شرکا کی اکثریت کسی خوف خطرے سے بے نیاز ہوکر کندھا کندھے سے ملاکر موجود رہی۔

پینے کے پانی کی فراہمی اور ٹوائلیٹ منتظمین کے لیے اہمیت کے حامل نہیں تھے لیکن ہزاروں لوگ کے لیے پریشانی کی وجہ ضرور تھے۔ سکھر، گھوٹکی، جیکب آباد سمیت کئی دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگ حاجت کے لیے پریشان نظر آئے جبکہ کئی خواتین صحافیوں کو درخواست کرتی رہیں کہ پینے کا پانی انہیں دیا جائے جو منتظمین کی جانب سے صرف قیادت اور صحافیوں کے لیے وقف تھا۔

کراچی

Reuters
</figure><p>پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام کے کارکنوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی، جو کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر شہروں سے بھی آئے تھے۔ اگر قومیتوں کی بات کی جائے تو پشتون جمعیت علما اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی، پشتون تحفظ موومنٹ کی صورت میں موجود تھے۔

گجرانوالہ کے جلسے کے تجربے کے تحت اس جلسے میں مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو اور مریم نواز ساتھ سٹیج پر آئے۔ سٹیج کا انتظام پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تھا لیکن بعد میں جمعیت علما اسلام بھی اس میں شریک ہوگئی اور صوبائی رہنما راشد سومرو بھی نعرے لگاکر اپنے کارکنوں کو گرماتے رہے۔ سٹیج سے پہلے صرف پی پی کے سیاسی نغمے چل رہے تھے لیکن بعد میں اس میں دیگر سیاسی جماعتوں کے نغمے بھی شامل ہوگئے اور خاص طور پر جب انہیں تقریر کے لیے بلایا جارہا تھا۔

کارساز دھماکے میں ہلاک ہونے والے کارکنوں کی برسی کے اس جلسے کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے راشد ربانی کے نام منسوب کیا جن کا حال ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ شہر میں مختلف مقامات پر آویزاں بینروں پر میڈیا پر پابندیوں کے خلاف جلسہ عام تحریر تھا، محمود خان اچکزئی، اختر مینگل ، ڈاکٹر مالک نے اپنی تقریر میں 12 مئی واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جبکہ جزائر پر وفاق کا دعویٰ بھی قبول کرنے سے انکار کیا۔

جلسہ گاہ میں موجود کرسیاں پی ڈی ایم اے کی مرکزی قیادت بلاول بھٹو، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کی آمد سے پہلے ہی بھرچکی تھیں۔ بڑی تعداد میں لوگ دیواروں سے ٹیک لگائے، اپنے ساتھ موجود رومال یا چادر بچھاکر بیٹھے گئے، جلسہ گاہ سے باہر نمائش چورنگی، شاہراہ قائدین پر بھی شرکا موجود رہے، جو تقاریر تو سن سکتے تھے لیکن قیادت کو دیکھنے کے لیے اسکرین صرف سٹیج پر لگی ہوئی تھی۔ بقول ایک صحافی کے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی شرکت قیادت کی توقع سے زیادہ ہے اس کا ثبوت انتظامات ہیں۔

کراچی میں جمعیت علما پاکستان کا بڑا اثر رسوخ رہا ہے جس کے سربراہ شاہ احمد نورانی، پی این اے، ایم آر ڈی جیسی تحریک کو بنیادی قائدین میں شامل تھے۔ متحدہ مجلس عمل کے قیام میں بھی وہ آگے آگے رہے لیکن ان کے انتقال کے بعد یہ تنظیم اندرونی اختلاف اور غیر فعال ہوتی چلی گئی۔ گیارہ جماعتوں کے اتحاد میں شاہ احمد نورانی کے بیٹے اویس نورانی بھی موجود تھے، انہوں نے تقریر بھی کی لیکن ان کے ہمدرد یا کارکن نہ ہونے کے برابر تھے۔

سیکیورٹی کا انتظام پولیس کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے رضاکاروں کے پاس تھا۔ واک تھرو گیٹس سے گزرنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور اے این پی کے رضاکار بھی شامل تھے جو شرکا کی جسمانی تلاشی لے رہے تھے، رش بڑھ جانے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے دیوار پھلانگ کر اندر جانے کی بھی کوشش کی، پولیس نے پہلی پھلکی لاٹھی چلا کر انہیں بھاگنے پر مجبور کیا۔

یہ بھی پڑھیے

جنوری سے بہت پہلے کام ختم ہوجائے گا: مریم نواز

نواز شریف کے علاوہ دیگر رہنماؤں کے نام ایف آئی آر سے حذف

بانی پاکستان کی ہدایات پر عمل کیا جاتا تو ’نہ سقوطِ ڈھاکہ ہوتا، نہ 12 اکتوبر جیسی بغاوت‘

کراچی

Reuters
</figure><p>میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یہ تجسس رہا ہے کہ میاں نواز شریف جلسہ عام سے خطاب کریں گے یا نہیں، صوبائی وزیر سعید غنی نے ٹویٹ کیا کہ میاں نواز شریف بھی خطاب کریں گے جبکہ صوبائی وزیر ناصر شاہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ سسٹم لگا ہوا لیکن فیصلہ قائدین کریں گے وہ خطاب کریں گے یا نہیں۔ اس جلسے سے پہلے مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو اور مریم نواز میں مشاورت بھی ہوئی۔

مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہداللہ خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گجرانوالہ کے جلسے سے خطاب کے وقت بھی میاں نواز شریف کے گلے میں خراش تھی اگر ان کی طبعیت ٹھیک ہوگی تو وہ خطاب کریں وہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔

یاد رہے کہ گجرانوالہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی پر الزامات عائد کیے تھے، جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض حلقوں میں ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری سے ایک نجی ہسپتال میں ملاقات بھی کی تھی۔

کراچی

EPA
</figure><p>میاں نواز شریف نے خطاب نہیں کیا لیکن مریم نواز کے ساتھ محمود خان اچکزئی، اختر مینگل اور محسن داوڑ نے ان کی تقریر کا حوالے دیکر اس بیانیے کو تقویت بخشی۔

کراچی میں جلسے کی لائیو نشریات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا، جس کے لیے ایک پورا یونٹ موجود تھا جو فیس بک، ٹوئیٹر اور یوٹیوب کے ذریعے مکمل تقاریر نشر کر رہا تھا، پشتون تحفظ موومنٹ، محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل کی تقاریر کو بعض چینلز نے روکا اور بعض نے کاٹ کر نشر کیا۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کراچی میں پہلی بار کسی جلسے کو خطاب کیا، اس شہر سے ان کا واسطہ اس وقت پڑا تھا جب وہ اپنے اسیر والد میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے آئی تھیں، اس کے بعد ان کی والدہ بیگم کلثوم نواز سیاسی میدان میں نکلیں تھیں اور اب وہ خود سیاسی سفر کا آغاز کرچکی ہیں۔

اس سے پہلے اتوار کی صبح مریم نواز کے ایئرپورٹ پر استقبال کے لیے کوئی غیر معمولی اجتماع نظر نہیں آیا، اسے منفرد بنانے کی کوشش ضرور کی گئی جیسے لیاری سے ایک درجن سے زائد کارکن اونٹوں پر سوار ہوکر پہنچے، شہر میں خوش آمدید کے بینر لگائے گئے تھے، ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے لگائی گئی تصاویر بھی شامل تھیں جن میں مریم نواز میاں نواز شریف، شھباز شریف کی تصاویر شامل تھیں۔

ٹویٹر پر صبح سے ہی پی ڈی ایم کراچی جلسہ، پی ڈی ایم اے جلسہ کراچی، مریم نواز ان کراچی ٹرینڈ جاری تھا جس میں سیاسی جماعتوں کے کارکن اور رہنما اپنی ریلیوں اور جلسے میں روانگی سے قبل تصاویر اور ویڈیو شیئر کر رہے تھے اس سقبل یہ رجحان تھا کہ قیادت کی گذر گاہ پر مقامی قیادت اپنے تصاویر والے بینر اور پوسٹر لگاتی تھی لیکن اب ٹوئیٹر اور فیس بک پر پوسٹ شیئر کرکے ٹیگ کیا جارہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp