نو نان سینس بلقیس ایدھی اور نان سیرئیس بیوروکریٹ


ایدھی صاحب سے اپنی پیشہ ورانہ ملاقاتوں کا سلسلہ (15، اپریل 1985 کی اس رات جب صبح سویرے بہاری ڈرائیور راشد حسین نے روٹ این ون کی منی بس چلاتے ہوئے سرسید کالج کے سامنے وہاں کی طالبہ بشری زیدی، اس کی بہن نجمہ زیدی اور ان کی پاپوش نگر کی پڑوسن کو کچل دیا تھا) کے بعد بھی جاری رہا۔ ان کا اپنا گھر (ایدھی ویلفئیر ہوم) جو گلبرگ سہراب گوٹھ کے نزدیک تھا وہ لیاقت آباد سب ڈویژن میں واقع تھا۔ دوران مصروفیت کبھی اچھی چائے پینی اور مزے مزے کی گفتگو سننی ہوتی تو میں اور ڈی ایس پی عبدالستار شیخ وہیں چلے جاتے تھے

ایک ملاقات اس لیے یاد ہے کہ اس دن سر شام ہی سے لیاقت آباد میں۔ ہم پورا دن علاقے میں رہے تھے۔ گھر گئے۔ شادی کی سالگرہ تھی۔ بیوی کو کھانے پر لے گئے۔ ہر ایسی سالگرہ پر وہ ہمیں جتاتی تھی کہ یہ ہم دونوں کا نجی دکھ ہے۔ اسے Celebrate  بھی صرف ہم دونوں کو کرنا چاہیے۔ شام کو ذرا ہنگامے تھمے تو پولیس موبائل میں علاقہ گشت پر مامور سب انسپکٹر شکیل زیدی نے دو پیگ جلدی چڑھا لیے۔ دس نمبر کی امام بارگاہ کے نزدیک کسی بٹیر (وہ بدمعاش ایجنٹ جو پولیس کے لیے بھتہ جمع کرتا ہے) کی دعوت پر یہ پولیس پارٹی کیفے دولت سے خریدے ہوئے تکے موبائل میں بیٹھ کر اڑا رہے تھے کہ چار نمبر لیاقت آباد جہاں غلام فرید صابری برادران اور ایم کیو ایم کے رہنما شاہد لطیف، عابد شریف اور عامر خان کے گھر تھے اس گلی سے لڑکے آئے، موبائل پر چھیڑ چھاڑ کی خاطر پتھراؤ کیا تو جیالا پولیس والا بدک گیا آؤ دیکھا نہ تاؤ خود کلاشنکوف سے فائرنگ کی اور تین لڑکے لٹا دیے۔

لیاقت آباد والے ہمیشہ سے اپنے رہنما الطاف حسین کے پسندیدہ شعر کے متوالے پیروکار تھے۔

وفا کرو گے، وفا کریں گے، جفا کرو گے، جفا کریں گے

ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے

جواباً وہ فائرنگ شروع ہوئی کہ سب انسپکٹر شکیل زیدی اور اس کی نفری وہ سوزوکی موبائل جسے تھانے والے علاقے کی تنگ اور پر پیچ گلیوں سے گرفتار شدگان کو ٹھونس ٹھانس لانے کی وجہ سے کتا گاڑی کہتے تھے وہ اور اسلحہ چھوڑ کر اپنی گیلی پتلونیں سنبھالتے ہوئے روڈ کراس کر کے تھانے میں گھس کر چھپ گئے۔

ڈی سی فیصل سعود صاحب کو علم تھا کہ ہم کچھ دیر پہلے ہی علاقے سے گئے ہیں لہذا ہمیں ڈیوٹی کے لیے دوبارہ نہ بلایا جائے مگر شاہد عزیز جو اس وقت کمشنر تھے انہیں یقین تھا کہ ہماری موجودگی کا ہنگاموں کی روک تھام پر خاطر خواہ اثر پڑے گا۔

حکم کی تعمیل تو کریں مگر کیسے؟ وائرلیس پر مسلسل خراب حالات اور فائرنگ کی اطلاع تھی۔ ہم نے لمبا چکر کاٹا اور راشد منہاس روڈ سے ہوتے ہوئے سہراب گوٹھ پر ایدھی صاحب کے اپنا گھر پہنچے۔ اتفاقاً ایدھی صاحب وہاں موجود تھے۔ ہم نے کہا کہ ایک ایمبولینس میں ہمیں کفن اوڑھا کر لٹا دو اور تھانے بھیج دو۔ ہم نے یہ ڈرامہ اس وقت رجسٹر کر لیا تھا جب 20 نومبر 1979ء کو خانہ کعبہ پر قبضہ کا منصوبہ بنا تھا۔ مفسدین اور اسلحہ جنازوں کی صورت میں حرم پاک میں لایا گیا تھا۔

ایدھی صاحب ہماری تجویز پر متفکر ہوئے مگر کراچی کے علاقے کھارادر کے میمن ہونے کے ناتے بہت Street Smart تھے۔ کہنے لگے ایمبولنس میں چلاتا ہوں، دو عورتوں کو ساتھ بٹھا لیتے ہیں۔ آپ کفن اوڑھ کر لیٹ جاؤ۔ روکیں گے تو میں بولوں گا کہ پی آئی بی میں میت چھوڑنے جا رہا ہوں۔ فاروق بھائی تو ملک سے باہر ہیں، نہیں تو وہ بھی موجود ہوتے۔ ایدھی صاحب کی ترکیب کارگر ہوئی۔ انہیں اور خواتین کو سر نیہوڑائے بیٹھا دیکھ کر لڑکوں نے ایمبولینس روکی ضرور، قریب بھی آئے مگر جب ایدھی صاحب نے کہا پھاروق (فاروق) بھائی کے سسرالیوں کی میت ہے تو وہ احتراماً کئی قدم پیچھے ہٹ گئے اور بندوق برداروں کو بھی چھپنے کا اشارہ کر دیا۔ تھانے پہنچ کر ہم نے آپریشن سنبھالنے سے پہلے ایدھی صاحب سے میمنی بولی میں پوچھا۔

 ”آئیں فاروق ستار بھا جو نالو کولائی گنیا؟ (آپ نے فاروق ستار کا نام کیوں لیا)

تو آنکھ مار کر کہنے آئین مجے منھ سی ستار سنیا۔ آوؤں تو کھالی (خالی) پھاروق ( فاروق) چووم۔ گناں بھی ہوت تو پھاروق بھا خوش تھیا ہوت کہ ہکڑو تو اوچھو تھیو۔ (آپ نے میرے منھ سے ستار سنا تھا کیا۔ میں نے تو خالی فاروق کہا تھا۔ اگر میں لے بھی لیتا فاروق بھائی خوش ہوتے کہ ایک سسرالی عزیز تو کم ہوا۔)

اس کے بعد جو سب سے قابل ذکر ملاقات ہوئی۔ قصہ طویل ہے۔ اور ان لوگوں کے لیے جو نصیب اور قدر کو نہیں مانتے ایک سبق آموز قصہ ہے۔ اس میں ایدھی صاحب تو مہمان اداکار ہیں ان کی بیگم اور ان کا ادارہ اہم کردار۔

خاتون دوست کا نام نازلی مان لیں۔ ماں گوری تھی۔ باپ دل پھینک۔ بنی نہیں۔ وہ چلی گئی۔ نازلی شکل صورت میں واجبی مگر دماغ اور رویوں میں بہت اعلیٰ۔ تعلیم مکمل کر کے لندن چلی گئی۔ کام ایسا تھا کہ کہیں ٹک کر ہی نہ بیٹھتی تھی۔ دوران مسافت ایک یورپی مرد ملا اور اس پر ریجھ گیا۔ پاکستانیوں سے نالاں تھی اور ہم شادی شدہ تھے۔

وہ ان پاکستانی خواتین میں سے تھی جن کی اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستان کے سب اچھے مرد یا تو GAY ہیں، یا پھانسی کے منتظر ہیں یا میانی صاحب اور میوہ شاہ کے قبرستانوں میں قیامت کے برپا ہونے کے منتظر۔ مرد کا نام تو کچھ اور تھا مگر ہم اسے رچرڈ شیر دل کہیں گے۔ لندن کی ریجنٹ مسجد میں مسلمان بھی ہوا۔ نکاح بھی پڑھا نام بھی بدلا۔ رچرڈ سے سلمان بن گیا، تین ممالک کی شہریت تھی۔ خانوادہ کچھ یہودی اور کچھ کیتھولک عیسائی۔ ہم اسے رچرڈ شیر دل ہی پکارتے رہے۔ شیر دل اس لیے کہ نازلی مزاجاً ایسی عورت تھی کہ اس کے نام کا تعویز اگر ہاتھی کے گلے میں ڈال دیں تو وہ بھی اس کی نازک مزاجی کا لحاظ کرتے کرتے گھل کر خرگوش بن جائے۔ دونوں یہاں پاکستان آئے تو کئی خواتین نے سوچا کہ مجبور مشرقی عورت ہونے کے ناتے میں انہوں نے کن فضول مردوں کی بیوی بننے پر ہاں کر دی۔ ان میں اکثریت ان کی تھی۔ جن کی شادی اپنے کزنوں سے ہوئی تھی۔ مرد ہو تو رچرڈ سا وجیہ، بیوی کو پیر و مرشد مان کر ہر بات پر توجہ دینے والا۔ ہم نے بمشکل سمجھایا کہ

ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساں

کچھ پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے

سو خود کو مزار مناکحت کا گل تقدیس سمجھ کر میاں کو خاموشی سے بھگتو اور جنت میں بہتری کی امید رکھو۔ مان گئیں۔ یہاں آئے تو رچرڈ شیر دل کو پاکستان اچھا لگا۔ سوات اور نتھیا گلی وغیرہ۔ کراچی دیکھ کر اس کی طبیعت اوب گئی۔ کام کے سلسلے میں وہ مختلف منازل پر دوبئی سے روانہ ہوئے تو ائر پورٹ پر فیصلہ کیا کہ پاکستان سے ایک بچہ گود لینا چاہیے۔ 2005 کا زلزلہ تازہ تازہ تھا۔ دونوں کا فیصلہ تھا کہ بچی ہو، ماں باپ دونوں طرف سے یتیم ہو تاکہ بلوغت پر جائیداد کے نویلے حصہ دار سینہ ٹھوک کر نہ کھڑے ہوجائیں۔ جلد کی اور آنکھوں کی رنگت رچرڈ شیردل جیسی ہو یا کم از کم نازلی جیسی۔ نازلی کی رنگت گوال منڈی لاہور کی دھندلی شام اور آنکھیں ٹھنڈی ایکسپریسو کافی کی طرح لگتی تھیں۔ نازلی کا فون فرانس سے آیا تو ہم نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے بچی کیوں گود لینی ہے۔ ابھی تو شادی کو بمشکل دس سال ہوئے ہیں۔ روہانسی ہو کر کہنے لگی

حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں۔

فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ بچی پاکستان سے لے کر بطور بیٹی پالنے کی ضد اصل میں رچرڈ شیردل کی ہے۔ میں تو اداکارہ انجلینا جولی کی طرح ملاوی، صومالیہ اور نائیجر کی بیٹی بھی گود لینے خوش ہوں۔ رچرڈ کہنے لگا کہ انجلینا جولی نے شوہر بھی تین اور عاشق بھی کئی پالے ہیں، تم نے اس کی کچھ اور مثالوں کو بھی نہیں اپنایا تو اسے بھی جانے دو۔

اگلے دن ہم نے گاڑی نکالی، اپنے ایک جگاڑو ماتحت اور خوش اطوار سیکرٹری کو ساتھ لیا اور ایدھی صاحب کی مرکز بلقیس ایدھی ہوم۔ میٹھا در پہنچ گئے۔ ایدھی صاحب موجود نہ تھے۔ مسز بلقیس ایدھی بہت نو نان سینس قسم کی خاتون ہیں۔ ایدھی صاحب سمیت اچھے اچھوں کو خاطر میں نہیں لاتی تھیں۔ بتانے لگیں بچوں کو گود لینے والی لائن میں ہمارا نمبر دس سال بعد آئے گا۔ ہم نے بچی کے جسمانی کوائف کے حوالے سے تفصیلات درج کرائیں تو چڑ کر کہنے لگیں کہ ”بچہ گود لینے آئے ہو کہ مہندی کی رسم کی ڈیکوریشن اور کیٹرنگ کرانے“ ۔

ہم نے میمنی بولی، میاں سے پرانی واسطے داری کے قصے چھیڑے تو بتدریج نرم پڑتی گئیں۔ ہم نے مزید رجھانے کے لیے اپنی نانی دادی کی بات چھیڑی تو کہنے لگیں کہ ”پاکستان بنا تو میں تو بہت چھوٹی تھی۔ ہم نے کہا ملکہ نورجہاں اور تاج محل والی ممتاج (ممتاز ) کا نام سنا ہے۔ تب تو آپ پیدا بھی نہیں ہوئیں تھیں۔ ان کو کیسے پہچانتی ہیں۔ ہنس پڑیں کہ چھوکرے میرے سے بھی مجاق کرتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے وی سی آر پر مگل آجم دیکھی تھی۔ ہم نے جتانا مناسب نہ سمجھا کہ نورجہاں اور تاج محل اس کے بعد کی واردتیں ہیں۔

اس دوران ہماری سیکرٹری عنبرین بھی ان کی وہاں موجود کسی ذمہ دار خاتون سے اپنی بھابھی کی پھوپھی کی بیٹی کے میاں کے حوالے سے نہ صرف تعلق نکال چکی تھی بلکہ سیل فون نمبروں کا بھی چپکے چپکے تبادلہ ہو چکا تھا۔ چلتے وقت مسز ایدھی نے کہا ”وعدہ نہیں کرتی۔ میاں سے پوچھوں گی۔ وہ بادشاہ آدمی ہے بولے گا تو اسپیسل (اسپیشل) کیس بنے گا۔ ہم کرتے نہیں۔ مگر کیا ہے کہ نو گھر تو موئی ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے نا۔“

تین دن بعد اس کے سیل فون پر ادارے کی جانب سے فون آیا کہ ان کے پاس گود لینے کے لیے فوری طور پر ایک بچی موجود ہے وہ آن کر لے جائے۔ اس نے نازلی کو فوراً ای۔ میل کی مگر نازلی نے کا جواب آیا کہ وہ کسی طور پر پندرہ دن سے پہلے پاکستان نہیں آسکتی، وہ خود اس وقت مراکش میں ہے اور رچرڈ شیردل کہیں ویت نام میں بیٹھا ہے۔ ہم نے خود بچی لینے میں اس لیے عجلت نہیں دکھائی کہ ایسے مواقع پر جو فارم وغیرہ بھرے جاتے ہیں ان کی وجہ سے بچی کی آئندہ قومیت پاسپورٹ دیگر دستاویزات اور ملکیت میں حصہ داری کے مسئلے کھڑے ہو جاتے۔

بات آئی گئی ہو گئی۔ نازلی اور رچرڈ ایک ماہ بعد پاکستان آن پہنچے۔ خاکسار انہیں لے کر اس ادارے کے دفتر جب اگلی صبح پہنچا۔ مسز ایدھی نے انہیں خوب ڈانٹا اور وہ فارم دکھایا جس پر خاکسار کے نام کے آگے سرخ روشنائی سے انگریزی میں لکھا تھا ”نان سیریئس“ یعنی درخواست گزار غیر سنجیدہ ہے۔ چند دن بعد ہم نے ایک ملاقات میں ایدھی صاحب کو شکوہ کیا کہ ہمارے نام کے آگے آپ کی بیگم نے لال انک سے رجسٹر میں نان سیریئس لکھا ہے تو کہنے لگے کہ بلقیس نے تو میرے نام کے آگے بھی نکاح نامے میں نان سیریئس لکھا ہے۔ آپ بولو اس گھیلی (پاگل) کا میں کیا کروں۔ آپ کا کام ہوگا۔ ہر بات دل پر لینے کی نہیں ہوتی۔ ”

ادارے میں اس وقت کافی لوگ اسی مقصد کے تحت آئے ہوئے تھے۔ اکثریت بیرون ملک مقیم پاکستانی نژاد جوڑوں کی تھی۔ وہاں انہیں بتایا گیا کہ ادارے کو روزانہ نو سے دس نوزائیدہ بچوں کی لاشیں مختلف مقامات سے ملتی ہیں اور اتنے ہی نو مولود بچے انہیں شہر میں جو ان کے مختلف مقامات پر سینٹر ہیں وہاں پر باہر رکھے ہوئے جھولوں میں زندہ حالت میں ملتے ہیں۔ خاکسار چونکہ ان بچوں کی لاشیں چھوٹے سفید کفن میں لپٹی پہلے بھی ان کے سہراب گوٹھ والے ایدھی ہوم میں دیکھ چکا تھا لہذا اسے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی مگر وہاں موجود لوگوں کے لئے یہ ایک جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا انکشاف تھا۔

جب سب لوگ چلے گئے تو مسز ایدھی نے انہیں کہا کہ وہ ایک چودہ سال کی بہت خوبصورت لڑکی سے ملوانے اندر لے جائیں گی، یہ بچی سات ماہ کی حاملہ ہے۔ وہ اس سے کوئی سوال نہ پوچھیں، جب اس کے ولادت ہو جائے گی تو وہ اس کا بچہ نازلی اور رچرڈ کو دے دیں گی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے خاکسار کے ہاتھ میں ایک فائل سے نکال کرایک خط دیا کہ وہ انہیں پڑھ کر سنائے۔ خط میں لکھا تھا۔ ”میڈم صاحبہ۔ ہم غیرت مند لوگ ہیں۔ بچی کو میرا ارادہ قتل کرنے کا تھا۔ مگر اس کی ماں نے بہت واسطے دیے، یہ ہماری ایک ہی اولاد ہے، حالات کچھ ایسے ہیں کہ ہم دوسرا بچہ پیدا نہیں کر سکتے۔ میری بیوی اور اس کی ماں نے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے اسے قتل کیا تو وہ خودکشی کر لے گی اس طرح میری گردن پر تین لوگوں کا خون ہو گا، میں اس آدمی کو بھی قتل کرنا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا، مگر نہ تو بچی اس کا نام بتاتی ہے نہ ماں، میں کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ بچی کی جان اور میری عزت اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔“

ہم نے خط پڑھ کر جب سنایا تو سبھی رو رہے تھے حتی کہ رچرڈ شیر دل بھی۔ اس لئے کہ نازلی اس خط کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ کرتی جا رہی تھی۔

نازلی نے پوچھا اس نے آپ کو بتایا کہ ”یہ کس کی حرکت تھی؟“ ۔ تو مسز ایدھی نے جواب دیا کہ وہ اس کی ماں کا قریبی رشتہ دار ہے۔ وہ لوگ ایک شادی میں گاؤں گئے تھے جہاں یہ سب کچھ ہو گیا، بیٹی نے ماں کو بھی بہت بعد میں پتہ چلنے دیا۔ اب آپ لوگ اس کو دیکھ لیں۔ یہاں اور بھی بچے ہیں مگر ایک تو ان میں لڑکے ہیں اور زیادہ تر ذہنی طور پر معذور ہیں۔ آپ کو تو لڑکی چاہیے نا اور وہ بھی صحت مند۔

ماہرہ نے کہا کہ ایک تو میرے میاں کو بیٹی کا شوق ہے اور دوسرے وہ خود بھی اتنی مصروف ہوتی ہے کہ ایک ذہنی طور پر معذور بچے کو پالنا شاید اس کے لئے ممکن نہ ہو۔

مسز ایدھی انہیں اندر لے گئیں، یہاں بچے کھیل رہے تھے۔ معصوم اور اپنے والدین کے پیار سے محروم دنیا کی زیادتیوں سے بے خبر، ایک استانی نے گھیرا بنا کر کچھ بچوں کو کھیل کھیل میں تعلیم دینے کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔ انہیں یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ بچے کافی آرام سے تھے اور قدرے خوش بھی۔ شاید یہ سب اتنے چھوٹے اور معصوم تھے کہ انہیں ماں کے وجود کا اور اپنی موجودہ حالت کا شعور ہی نہ تھا۔ ان بچوں کے کمرے سے لے کروہ انہیں ایک ایسے ہال میں لے گئی جہاں کچھ لڑکیاں اور عورتیں سلائی اور دیگر امور میں مصروف تھیں۔ انہی میں وہ لڑکی رافعہ بھی تھی نازلی کو لگا کہ وہ ہندوستانی اداکارہ پریٹی زینٹا کا سراپا دیکھ رہی ہے، جامنی رنگ کے ایک ڈھیلے فراک اور گہری سبز رنگ کی شلوار پر بڑا سا چنری کا دوپٹہ اوڑھے وہ کوئی کپڑے پر گوٹا ٹانک رہی تھی۔ وہ ایک نظر اس پر ڈال کر کچھ بات کیے بغیر آگے بڑھ گئے۔

نازلی اور اس کا میاں کچھ اداس تھے۔ بچی کی موجودگی اور شاید یہ سوچ کر کہ وہ اس کے آنگن میں کھلنے والا پھول اس کو بتائے بغیر توڑ کر کہیں ایسے ملک میں لے جائیں گے جس کا اس بے چاری نے نام بھی نہ سنا ہو، اس کا بچہ ایک ایسے گھر میں پلے گا جس کا ہر دروازہ، ہر کھڑکی ماں کے لئے بند ہو گی۔

خاکسار سوچنے لگا کہ کیا وہ خواتین جو کسی زیادتی کا شکار ہو کر بچوں کو جنم دیتی ہیں، انہیں بھی اس بچے سے اتنا ہی پیار ہوتا ہے، اسے بوسنیا کی وہ مسلم خواتین بھی یاد آئیں جنہیں وہاں کے عیسائی سپاہیوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حاملہ کیا جسے وہاں نسلی تطہیر Ethnic Cleansing کا نام دیا۔ کیا ان عورتوں کو جن کے بچے ایک نفرت کے تحت ان کے وجود کا زبردستی حصہ بنا دیے گئے انہیں بھی ان کی مائیں اسی طرح چاہیں گی جس طرح وہ اپنے سماجی طور پر مروجہ اور محبت کے واسطوں سے پیدا ہونے والے بچوں کو چاہتی ہیں۔ میرے ذہن میں اس بچی کو دیکھ کر سوالات کا ایک سونامی پھٹ گیا۔ ان بیچارے بچوں کا جانے کیا بنا ہوگا اور ان کی ماؤں کا کیا ہوا ہو گا؟ آپ اگر اس حوالے سے مزید جاننا چاہتے ہیں تو ہمارا اگلا مضمون “مائی نیم از مبارکہ” پڑھیے گا۔

٭٭٭      ٭٭٭

(اقبال دیوان کی تحریر کی تعریف کیا کی جائے کہ یہ تعریف سے ماورا ہے۔ ایسے ہی خیال آیا کہ ریپ سے متعلقہ معاملات پر بات کرتے کرتے دیوان صاحب بوسنیا جا پہنچے، یہاں اپنے ملک اور قرب و جوار میں بھی ریاستی سطح پر اس کریہ فعل کی مثالیں مل سکتی تھیں۔ ریپ اور منظم قومی جرائم میں ادارہ جاتی رشتہ ہے جو کسی ریاستی، مذہبی یا لسانی شناخت سے بالاتر ہے۔ اس ناانصافی کو مذہب، زبان، نسل یا قومیت کی قبا اوڑھانا مناسب نہیں۔) 

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 95 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan