کراچی آبادی میں ایک سو اکیس ملکوں سے بڑا ہے


میں ایک ایسے زبردست نوجوان کو جانتا ہوں، جو اپنے والدین کا پہلا بچہ تھا۔ اس کی عمر سولہ برس تھی اور وہ چھے بہن بھائی ہو چکے تھے۔ وہ ماں کی صحت کے بارے میں فکر مند رہتا تھا۔ ایک دن اس نے عملی قدم اٹھایا۔ اپنی ماں کو اسپتال لے گیا اور اس کی ٹیوبلائیگیشن کروا دی۔

اپنے شہروں کو دیکھیں۔ ہمارا پیارا کراچی دنیا کے ایک سو اکیس ممالک سے بڑا ہے۔ یورپ کے درجنوں ملک آبادی کے لحاظ سے کراچی سے چھوٹے ہیں۔ اور یہ صرف اس لیے کہ ہم نے لوگوں کو فیملی پلاننگ کی تربیت دی اور نہ ہی فیملی پلاننگ کی سہولت ان تک پہنچائی۔ اب کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جتنے پیسے درکار ہیں، وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ اس لیے ہم کراچی کے مسائل شاید ہی کبھی حل کر پائیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ کراچی اور پاکستان کی آبادی بھی اسی طرح بڑھتی رہے اور ہم اپنی عوام کی زندگیاں رہنے کے قابل بنا پائیں گے، تو یہ جھوٹ ہے۔ یا پھر احمقوں کی جنت میں رہنا ہے۔

کراچی کا موازنہ بیلجیئم سے کریں۔ بیلجیئم ایک امیر یورپی ملک ہے۔ یہ یورپین یونین کا دار الحکومت بھی ہے۔ بیلجیئم کی کل آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ ہے اور کراچی کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ہے۔ اگر کراچی کی آبادی اگر اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو کراچی کی آبادی 32 سال میں دگنا ہو جائے گی۔ جب کہ بیلجیئم کی آبادی اسی طرح بڑھتی رہی تو اس کی آبادی 140 سال میں دگنی ہو گی۔ اب آپ دیکھو کہ وہاں کی زندگی ایک بھاری اکثریت کے لیے کتنی پر سکون ہو گی اور کراچی میں ایک بھاری اکثریت کا کیا احوال ہے۔

مزدوری کرانے کے لیے بچے پیدا کرنا:
یہ تو بالکل ایسا ہی نہیں کہ جیسے یہاں بچے اور رکشے کرائے پر ملتے ہیں۔ بچہ جب کسی دوسرے کے گھر میں کام کرتا ہے یا کرتی ہے اور اس گھر والے ماہانہ کچھ رقم اس کے والدین کو بھیجتے ہیں تو یہ بچے کے لیے نوکری نہیں ہے بلکہ بچہ ایسے ہی کرائے پر لیا گیا ہے۔ جیسے کسی نے رکشہ کرائے پر لیا ہو۔ رکشہ کرائے پر لینے کا مطلب یہ کہ آپ رکشہ استعمال کرتے ہیں اور ماہانہ کچھ پیسے رکشے کے مالک کو دیتے ہیں۔ اسی طرح آپ بچے کو بھی اپنے کام کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کے والدین کو کچھ رقم ماہانہ کرائے کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ چائلڈ لیبر بچوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

بڑھاپے کا سہارا بیٹے پیدا کرنا:
بچوں کو اپنے والدین کی خدمت کرنا چاہیے لیکن اس نیک کام کے لیے صرف بیٹے ہی کیوں، بیٹیوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ بھی اپ کا ویسا ہی سہارا بن سکیں۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بیٹیاں زیادہ بہتر طریقے سے یہ فرض انجام دیتی ہیں۔ ویسے بھی اپنے بڑھاپے کے سہارے کے لیے بچے پیدا کرنا، خود غرضی ہے لیکن پاکستان میں جب تک ایسا نظام نہیں آتا کہ تمام لوگوں کو بڑھاپے کی ایک معقول پیشن ملے تو تب تک لوگ اس فکر سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ ایک اچھا بڑھاپا وہ ہے، جب بندہ کسی پر بھی بوجھ نہ ہو، اولاد پر بھی نہیں۔ یہ ہم پاکستانی شہریوں کا بھی حق ہے۔

ہم کیا کر سکتے ہیں:
یہ یاد رکھیں کہ بچے پیدا کرنا کوئی کارنامہ نہیں۔ بچے پیدا کرنے سے بچنا کوئی نا مردی، کم زوری یا بزدلی نہیں ہے۔ چڑیاں، بطخیں، مینڈک، گیدڑ، چوہے سبھی ڈھیروں بچے پیدا کرتے ہیں۔ بچے پیدا کرنے سے بچنا، ایک مشکل کام ہے اور اسے باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے۔

بچے پیدا کرنے سے بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی جنسی خواہش کو انجوائے نہ کریں۔ جنسی خواہش قدرتی ہے اور اس کو انجوائے کرنا ہر مرد، عورت اور ٹرانس جینڈر کا بنیادی حق ہے۔ لیکن ایسا بندوبست سیکھنا اور کرنا لازمی ہے کہ آپ ہر مرتبہ جنسی خواہش کو انجوائے کرتے ہوئے اپنے اوپر ایک مزید بچے کا بوجھ نہ لاد لیں۔

فیملی پلاننگ کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی کے پاس اتنی فرصت ہو کہ وہ دونوں سکون سے بیٹھ کر سوچیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ڈسکس کریں۔ اپنے مستقبل کے ذاتی، معاشی اور سماجی حالات کا تجزیہ کریں۔ اپنے ارادوں اور خواہشات کو دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ وہ ایک اور بچے کو افورڈ کرتے ہیں یا نہیں۔ اور اگر ایک اور بچہ پیدا کرنا ہے تو پھر اس کی تیاری کریں۔ اس عمل کے ایک ایک سٹیپ کو انجوائے کریں۔ ڈاکٹر کے ساتھ خاتون اور اس کی بچہ دانی میں پلنے والے بچے کی باتیں کریں، دوستوں سے باتیں کریں۔

ماں بننے والی خاتون کا خاص خیال رکھیں۔ گھر میں اچھی اچھی تصاویر لگائیں، ماں پر آنے والی جسمانی تکلیف کے لمحات کو کم کرنے کا بندوبست کریں۔ ہر ایمرجنسی کو کوور کرنے کا پورا بندوبست کریں۔ ایسا لگے کہ پوری دنیا حاملہ ماں کے گرد گھوم رہی ہے۔ حاملہ ماں کو ایک وی آئی پی ٹریٹمنٹ مل رہا ہے۔ اتنا خطرناک لیکن اہم کام ہے۔

یہ کیا بات ہوئی کہ پتا ہی نہیں اور حاملہ ہو گئی یا حاملہ کر دیا۔ اس سے زیادہ سوچ بچار تو آلو ٹماٹر خریدنے سے پہلے کی جاتی ہے۔
کچھ لوگ فیملی پلاننگ کے مخالف ہیں اور وہ مذہب کو ڈھال بناتے ہیں۔ تو میں عرض کرتا چلوں کہ بڑے بڑے مذہبی اداروں کے فتوے موجود ہیں۔ آپس کی بات ہے بہت سے لوگ جو اپنے آپ کو بہت مذہبی ظاہر کرتے ہیں اور فیملی پلاننگ کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اگر ہم ان کے بچوں کی تعداد کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے خود فیملی پلاننگ کا استعمال کیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ جنرل ضیا الحق، اوریا مقبول جان اور قاضی حسین احمد صاحب۔ گوگل کریں کہ ان کے کتنے کتنے بچے تھے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik