امریکی موسیقار روڈ رگس خود کشی کے بعد کیسے زندہ ہو گئے؟


جنوبی افریقہ کے سیاہ فام اور سفید فام مرد و زن اپنے محبوب موسیقار روڈ رگس کے انقلابی گانے سن رہے تھے کہ ایک نوجوان نے آ کر خبر دی کہ روڈ رگس فوت ہو گئے ہیں۔
لیکن کیسے؟ کسی پرستار نے پوچھا
دوسرے نوجوان نے کہا کہ انہوں نے خود کشی کر لی ہے۔ سٹیج پر اپنی کنپٹی پر بندوق رکھ کر اپنے آپ کو گولی مار لی ہے۔
پھر کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح دور دراز کے علاقوں تک پھیل گئی اور سارے افریقہ میں سوگ منایا جانے لگا۔

روڈ رگس اگر چہ امریکی موسیقار تھے لیکن ان کے انقلابی گانوں نے جنوبی افریقہ کے ان نوجوانوں اور بزرگوں کا دل موہ لیا تھا، جو اپارتھیڈ کے خلاف محاذ آرا تھے۔

روڈ رگس کے چاہنے والوں نے ان کی یاد میں انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بنا کر ایک تحریک شروع کی اور روڈ رگس کے نغموں اور نظریوں کو مختلف افریقی ممالک میں دور دور تک پھیلایا۔ یہ سب کچھ افریقہ میں کئی سالوں تک ہوتا رہا۔

1997ء میں ایک دن روڈ رگس کی بیٹی ایوا انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کر رہی تھیں تو ان کی نظر ایک ویب سائٹ پر پڑی جس میں ان کے والد کی خود کشی سے موت کی خبر چھپ چکی تھی۔

روڈ رگس کی بیٹی نے روڈ رگس کے پرستاروں کو بتایا کہ وہ خبر ایک افواہ تھی اور اس کے والد نا صرف زندہ ہیں بلکہ امریکا میں اپنے خاندان کے ساتھ عسرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

روڈ رگس کے افریقی پرستاروں کو پتا چلا کہ روڈ رگس 1942ء میں امریکا کے شہر ڈٹرائٹ مشیگن میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد میکسیکو سے ہجرت کر کے امریکا آئے تھے۔ وہ اپنے غریب خاندان کے چھٹے بچے تھے، اس لیے ان کا نام SIXTO RODRIGIOUS رکھا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے اپنے نام سے SIXTO نکال دیا۔ 1960ء کی دہائی میں انہوں نے ستائیس انقلابی گانے لکھے تھے۔ 1970 کی دہائی میں ان کے دو البم منظر عام پر آئے۔

روڈ رگس جب کسی کلب کے سٹیج پر جاتے تو آنکھوں پر سیاہ چشمہ پہنتے اور حاضرین اور سامعین کی طرف پیٹھ کر کے گاتے۔ اپنے غیر روایتی گانوں اور غیر روایتی طرز زندگی کی وجہ سے وہ اپنے مداحوں کے قریب رہ کر بھی دور رہے۔ دونوں البم امریکا میں مقبول نہ ہوئے اور انہوں نے مایوس ہو کر موسیقی سے علیحدگی اختیار کر لی۔
دل چسپی کی بات یہ ہے کہ موسیقار نے تخلیقی خود کشی کر لی، لیکن موسیقی زندہ رہی۔

ایک امریکی لڑکی جب اپنے بوائے فرینڈ سے ملنے جنوبی افریقہ گئی تو اس نے روڈ رگس کی موسیقی کو جنوبی افریقہ کے دوستوں سے متعارف کروایا اور ان کے نغمے مقبول عام ہوتے گئے۔ چوں کہ وہ نغمے انقلابی تھے، اس لیے وہ نغمے اپارتھیڈ کے خلاف مزاحمت کا حصہ بن گئے۔

جب روڈ رگس کے چاہنے والوں کو پتا چلا کہ وہ زندہ ہیں، تو انہوں نے ان کے 1998ء کے ٹور کا انتظام اور اہتمام کیا جس میں ہزاروں لوگ ان کے فن سے محظوظ بھی ہوئے اور مخمور بھی۔

2012ء میں سویڈن کے فلم ڈائرکٹر مالک بن جلول نے ان پر ایک فلم بنائی جس کا نام SEARCHING FOR SUGAR MAN رکھا گیا۔ 2012ء میں اس فلم کو سن ڈانس فیسٹیول میں سراہا گیا اور 2013ء میں اس ڈاکیومینٹری کو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

جب اس فلم کو کئی ایوارڈ مل چکے تو امریکیوں کو خیال آیا کہ ان کا موسیقار ساری دنیا میں خوش نام ہے اور اپنے ملک میں گم نام۔ روڈ رگس کو یوں لگا جیسے وہ کئی برس نہیں کئی دہائیاں پہلے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئے۔ اس کے بعد روڈ رگس کو امریکی ٹی وی شوز LATE SHOW WITH DAVID LETTERMAN اور TONIGHT SHOW WITH JAY LENO میں مدعو کیا گیا اور وہ اپنے بڑھاپے میں اپنے شہر کے موسیقی کے چاہنے والوں سے متعارف ہوئے۔ دھیرے دھیرے روڈ رگس کی سی ڈی COLD FACT اب امریکا میں بھی مقبول ہوتی جا رہی ہے۔

روڈ رگرس کے گانے غریبوں، مزدوروں اور محنت کش لوگوں کی اذیتوں، آزمائشوں اور خوابوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ موسیقی کے بعض ناقدوں کا خیال ہے کہ روڈ رگس کی موسیقی میں باب ڈلن، بروس سپرنگ سٹین اور کیٹ سٹیونز کی موسیقی کی گونج سنائی دیتی ہے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کا انقلابی لیڈر سٹیو بیکو روڈ رگس کی موسیقی کا پرستار تھا۔ روڈ رگس کے ٹور پر ایک اور ڈاکیومینٹری بنائی گئی اور اس کا نام رکھا گیا DEAD MEN DON ’T TOUR۔ روڈ رگس کے جنوبی افریقہ میں اتنے چاہنے والے ہیں کہ انہوں نے روڈ رگس کو کئی بار جنوبی افریقہ بلایا۔ 2015ء میں روڈ رگس کی زندگی کے بارے میں ایک کتاب لکھی گئی، جس کا نام ہے، SUGAR MAN: THE LIFE, DEATH AND RESURRECTION OF SIXTO RODRIGEOUS

روڈ رگس کی زندگی اور شہرت ہمیں بتاتی ہے کہ وہ فن پارے جو شہ پارے ہوتے ہیں، ان کی فن کار سے علیحدہ اپنی جداگانہ شناخت اور زندگی ہوتی ہے۔ روڈ رگس کے نغمے خود بخود ایک دل سے دوسرے دل، ایک دماغ سے دوسرے دماغ اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک سفر کرتے رہے اور مقبولیت کی منزلیں طے کرتے رہے۔

روڈ رگس نے غربت میں بھی اپنے خواب نہیں بیچے، انہوں نے اپنے آدرشوں کے لیے کوئی سودا نہیں کیا۔ وہ بین الاقوامی شہرت کے بعد بھی اسی شکستہ حال گھر میں رہتے ہیں، جہاں وہ چالیس سال پہلے رہتے تھے۔ ان کی طرز زندگی میں آج بھی ایک درویش فن کار کی قناعت اور بے نیازی موجود ہے۔

ان کے گانوں کے چند بول یوں ہیں:
YOU CAN KEEP YOUR SYMBOLS OF SUCCESS
AND I WILL PURSUE MY OWN HAPPINESS
YOU CAN KEEP YOUR CLOCKS AND ROUTINES
AND I WILL GO AND MEND ALL MY SHATTERED DREAMS
MAYBE TODAY …I WILL SLIP AWAY
………………………………

………………………………..
Can ’t Get Away
Sixto Rodriguez
Born in the troubled city
In Rock and Roll, USA
In the shadow of the tallest building
I vowed I would break away
Listened to the Sunday actors
But all they would ever say
That you can ’t get away from it
No you can ’t get away
No you can ’t get away from it
No you can ’t get away
Schooled on the city sidewalks
Coldness at every turn
Knew I had to find the exits
I never, ever would return
Scoffed at the prophet ’s omens
That said I would live to learn
That you can ’t get away from it
No you can ’t get away
No you can ’t get away from it
No you can ’t get away
………………………………………

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail