پر امن انتقال اقتدار کا دستور اور مسلمان


جناب جاوید احمد غامدی کا شاید یہ امتیازی وصف ہے کہ وہ صدیوں سے بنی بنائی دانش میں، گر چہ وہ صحیح ہو، کچھ اس طرح در اندازی کرتے ہیں کہ بعض مرتبہ اچھے اچھوں کو اس کا کچھ احساس تک ہی نہیں ہو پاتا اور وہ غامدی صاحب کے دل نواز بیانیے کے دام میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی ایک ویڈیو میں یہ کہا کہ اسلام نے گر چہ ”امرہم شوریٰ بینہم“ کا اصول دیا، مگر کوئی ایسا دستور نہیں دیا، جس کے ذریعے پر امن طور پر انتقال اقتدار ممکن ہو سکے۔ اور جب ایسا کوئی دستور کسی قوم کے پاس نہ ہو، تو پھر انتقال اقتدار کے مواقع پر تلوار فیصلہ کرتی ہے۔ اب چوں کہ مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی دستور نہیں تھا، تو لازما ایسا ہوا کہ امیر معاویہؓ کی تلوار اور طاقت نے اپنا کام کیا۔ یزید کی ولی عہدی کو غامدی صاحب نے اسی اصول سے جواز دینے کی کوشش کی ہے۔ پھر آخر میں کہتے ہیں کہ پر امن انتقال اقتدار کا دستور مغرب نے دیا، یعنی جمہوریت اور ووٹنگ کا سسٹم۔

ان کی ویڈیو سے منتخب کی گئیں چند سطریں دیکھیے:
”یا تو دستوری روایت قائم کر دی جاتی یا پھر یہ دیکھا جاتا کہ دنیا میں کیا چل رہا ہے۔ انہوں نے (امیر معاویہؓ نے) دنیا میں دیکھا کہ تمام بڑی سلطنتیں موروثی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ اس وقت دنیا میں موروثی نظام قائم تھا۔ موروثی اقتدار در اصل پر امن انتقال اقتدار کا صدیوں کا تجربہ شدہ راستہ ہے۔

سیدنا امیر معاویہؓ ایسا کوئی طریقہ ایجاد نہیں کر سکے کہ لوگوں کی رائے کی بنیاد پر دستوری روایت قائم کر دی جائے۔ آپ فرمائیں گے کہ یہ بڑی نا کامی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ نا کامی ہے، اس کو بھی تاریخ کی روشنی میں دیکھیں۔ دستوری روایت، مسلمان اپنی بارہ صدیوں کی پوری تاریخ میں قائم نہیں کر سکے تو اس کے لئے تنہا امیر معاویہ ؓکو کیسے دوش دیا جا سکتا ہے۔ یہ روایت مغرب نے قائم کی، مغرب سے ساری دنیا میں پہنچی۔”

غامدی صاحب کا استدلال ہے کہ لوگوں کی رائے کی بنیاد پر کوئی دستوری روایت پہلے سے قائم نہ ہونے کی وجہ سے تلوار نے فیصلہ کیا اور ”انہوں نے (امیر معاویہؓ نے) تلوار کے ذریعے اپنی حکومت قائم کر لی۔“

ان کا ایسا ہی کچھ استدلال یزید کی جانشینی کے لیے بھی ہے۔ پر امن انتقال اقتدار کا صدیوں کا تجربہ شدہ طریقہ جو موروثی اقتدار کا طریقہ تھا، امیر معاویہؓ نے اسی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جاں نشیں نام زد کر دیا۔

اگر آپ پوری تسلی اور اطمینان کے ساتھ یہ ویڈیو سنیں، تو آپ کو بجا طور پر احساس ہو گا کہ یہ ایک طرح سے اسلامی عقل اور انسانی اخلاقی معراج کی اس روایت پر الزام تراشی بھی ہے، جو اسلام نے قائم کی اور اسی کے نتیجے میں مسلم حکمرانوں نے کم و بیش آدھی سے زائد دنیا پر حکومت کی۔ اور پھر سال دو سال کے لیے نہیں بلکہ ہزاروں سال تک کی، مزید برآں پائیدار، مستحکم اور عدل و انصاف پر مبنی حکومت کی۔

صحیح بات تو یہ ہے کہ اسلام نے تقریباً ہر طرح کے سیاسی و معاشرتی معاملات کے لیے بنیادیں فراہم کر دی ہیں، اب یہ مسلمانوں کے اولو الامر کا کام ہے کہ وہ ان بنیادوں کو مستحکم کریں اور انہیں اپنے زمانے کے حالات و مقتضیات کے لحاظ سے ترقی دیں۔ قرآن میں جب ”امرہم شوریٰ بینہم“ کا اصول دیا گیا تو یہ ایک طرح سے نا صرف پر امن انتقال اقتدار کے لیے بلکہ زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے اور قضیے کو پر امن طور پر حل کرنے کی سمت میں ایک اہم بنیاد فراہم کرنا تھا۔

اگر پر امن انتقال اقتدار کے حوالے سے بھی دیکھیں تو بیعت کا طریقہ اسی ”امرہم شوریٰ بینہم“ کا اگلا دستوری عمل تھا۔ خود رسول اللہﷺ نے بیش تر سیاسی و معاشرتی معاملات میں بیعت کے طریقے کو رائج کیا۔ ذرا اسے وسیع منظر نامے میں دیکھیں، تو کیا یہ لوگوں کی رائے کی بنیاد پر دستوری روایت کے قائم کرنے کی سمت میں ایک نئی کاوش نہیں تھی؟ اور حضرت عمرؓ نے تو خاص اس حوالے سے بھی یعنی پر امن انتقال اقتدار کے حوالے سے بھی ایک نئی بنیاد رکھی، انہوں نے محض اپنی صواب دید پر اور یہ صواب دید خود بھی ’امرہم شوریٰ بینہم‘ کے اصول پر استوار تھی، حضرت ابوبکرؓ کے بر خلاف ایک شخص کو جاں نشیں مقرر کرنے کے بجائے، اولی الامر کی ایک جماعت کو نام زد کیا کہ مسلمان ایک بار پھر باہم مشاورت سے کے ساتھ کسی ایک نام پر اتفاق کر لیں۔ اور جب اس معاملے میں اولی الامر نے حضرت عثمانؓ کے نام پر اتفاق کر لیا تو اس کے بعد عام لوگوں کی بیعت کا سلسلہ شروع ہوا۔

اگر غور کریں تو اس وقت کی دنیا میں پر امن انتقال اقتدار کے لیے، یہ اپنے آپ میں ایک انوکھا اور بے مثال طریقہ تھا۔ اس وقت کی معاصر دنیا میں کہیں بھی یہ طریقہ رائج نہیں تھا، سب جگہ موروثی نظام قائم تھا۔ اور یہ ایک طرح سے اس موروثی نظام میں سیندھ لگانا تھا۔ اور جمہوری طریقے کے لیے نئی بنیاد اور مسالا فراہم کرنا تھا۔

علامہ شبلی نے الفاروق میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کی خلافت جمہوری خلافت تھی۔ اور انہوں نے بنا کسی نمونے اور مثال کے جمہوری حکومت کی طرح ڈالی۔ وہ لکھتے ہیں:
”حضرت عمرؓ کے گرد و پیش جو سلطنتیں تھیں، وہ بھی جمہوری نہ تھیں، ایران میں تو سرے سے کبھی یہ مذاق ہی نہیں پیدا ہوا، روم، البتہ اس شرف سے ممتاز تھا، لیکن حضرت عمرؓ کے زمانے سے پہلے، وہاں شخصی حکومت قائم ہو چکی تھی اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں تو وہ بالکل ایک جابرانہ خود مختار سلطنت رہ گئی تھی۔ غرض، حضرت عمرؓ نے بغیر کسی مثال اور نمونے کے جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی اور اگر چہ وقت کے اقتضا سے اس کے تمام اصول و فروع مرتب نہ ہو سکے، تاہم جو چیزیں حکومت جمہوری کی روح ہیں، سب وجود میں آ گئیں۔ (الفاروق صفحہ: 170)“

البتہ مشکل یہی ہے کہ پر امن انتقال اقتدار کے لیے حضرت عمرؓ کا قائم کردہ یہ طریقہ، بعد کے زمانے میں قائم نہیں رہ سکا۔ چہ جائے کہ اس طریقۂ انتخاب کو ترقی دی جاتی اور اسے وسیع ترین سلطنت اور جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاتا، مسلمان الٹے پاؤں پھر گئے اور پھر سے اسی موروثی نظام کی طرف خواہی نخواہی چلے گئے، طریقۂ انتخاب میں بھی اور طرز حکمرانی میں بھی۔ حد تو یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں دنیا کے مختلف خطوں میں مسلم حکمرانوں نے بڑی وسیع و عریض اور مستحکم و پائیدار سلطنتیں قائم کیں اور پھر ان سلطنتوں کے زیر سایہ بڑے برے سورما اور عبقری پیدا ہوئے، حکمراں بھی ہوئے، علما بھی، صالحین بھی، سائنسداں اور فنکار بھی۔

بعد کے زمانے میں امویوں، عباسیوں، عثمانیوں اور مغلوں کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں، مگر کسی کو اس کا خیال تک نہیں آیا کہ انتقال اقتدار کے موروثی طریقے کو فاروقیؓ طریقے پر استوار کر دیں، اور اس کی بنیادیں امرہم شوریٰ بینہم اور پھر بیعت عامہ کے نظام پر کھڑی کریں۔ بلکہ اس پورے سسٹم کو جدید زمانے کے تقاضوں کے اعتبار سے مزید ترقی یافتہ بنائیں۔

بہت بعد کی صدیوں میں اہل مغرب نے جمہوریت کی بنیاد ڈالی اور اسے ساری دنیا نے انتقال اقتدار اور پھر پائیدار اقتدار کے لئے سب سے زیادہ پر امن اور قابل عمل سمجھ کر قبول کر لیا۔ بے شک یہ روایت مغرب نے قائم کی، مگر اس کی بنیادیں اسلام نے اور خاص طور پر حضرت عمر فاروقؓ نے فراہم کر دی تھیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا کہ بعد کے زمانوں میں مسلمانوں کے تمام سیاسی و معاشرتی ادارہ جاتی اعمال اور اجتماعی کاوشوں میں موروثیت نے جگہ بنالی اور حضرت عمرؓ کے قائم کیے ہوئے جمہوری طریقے کو نا صرف یہ کہ پس پشت ڈال دیا بلکہ پیٹھ پیچھے ڈال کر ہمیشہ کے لیے بھول بھی گئے۔ تو اس کا جواب اگر بہت مختصر لفظوں میں دیا جائے تو دین و سیاست اور اقتصاد و معاشرت، ہر ایک میدان عمل میں اور فکر و خیال کی ہر ایک وادی میں مسلمانوں کی جامد اور تقلیدی سوچ ہی کو اس کے لیے سراسر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، پھر اس میں ذاتی نفع رسانی اور امت کے کاز کو پیش نظر رکھنے کے بجائے خاندان اور اس کے نفع و نقصان کو سامنے رکھ کر سوچنے اور عمل کرنے کی بری عادت اور مزاج بھی اس میں بڑی حد تک دخیل ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے بیش تر تنظیمی کاموں اور اداروں میں یہی موروثیت پوری طرح پاؤں پسارے ہوئے ہے۔

ایک طرف تو جناب غامدی نے مغرب کو جمہوری نظام کے لیے بڑا کریڈٹ دیا اور جب یہ کریڈٹ انہوں نے اسلامی نظام کے تقابل میں دیا تو اس کریڈٹ کی شان مزید بڑھ گئی۔ جمہوری نظام حکومت کو آج کی دنیا میں گر چہ ایک ماڈل نظام حکومت کی حیثیت سے قبول کر لیا گیا ہے، مگر اس میں بہت سارے نقائص ہیں اور جمہوریت اپنے اندر مساوات کا عنصر بڑی دعوے داری کے ساتھ رکھنے کے با وجود، عدم مساوات کے کئی پہلو اپنے جلو میں رکھتی ہے۔ یہ نظام حکومت جو گر چہ عام لوگوں کی رائے سے قائم کیا جاتا ہے اور پھر انہیں کے مفاد میں چلایا جاتا ہے مگر اس کے با وجود، یہ نظام کئی طرح سے امیروں کا ہی مدد گار ہے۔

اس نظام میں بھی کسی نا کسی طریقے سے امیر لوگ ہی اقتدار تک پہنچتے ہیں اور وہی لوگ ہمیشہ اقتدار میں بنے رہتے ہیں۔ آج کی دنیا میں جمہوریت کو راج کرتے ہوئے ایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے اور آپ دیکھ لیں ہر جگہ اور ہر ملک میں امیروں ہی کی چاندی ہے۔ بے شک معدودے چند لوگ غریب طبقات سے بھی کرسی اقتدار تک پہنچے ہیں، مگر مجموعی طور پر اقتدار اونچی ذات والے شرفا اور امرا ہی کے ہاتھ میں رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کئی ممالک میں طویل عرصے تک ایک ہی خاندان کے افراد اقتدار پر قابض رہے۔

اس کی مثالیں آپ کو امریکا میں بھی مل جائیں گی اور ہندوستان میں بھی۔ کیوں کہ اس کے لیے بہت پیچیدہ اور کثیر سرمائے والا میکانزم بنا لیا گیا ہے۔ اب اس میکانزم کے چلتے کرسی اقتدار تک وہی پہنچ پائے گا، جس کے پاس کثیر سرمایہ ہو گا اور پیچیدہ نظام میں پیش آنے والے چیلنج کو قبول کرنے کے لائق ہونے کے لیے اسے اہل ثروت اور با اثر لوگوں کی تائید حاصل ہو گی۔ دوسری بڑی بات یہ ہے کہ جمہوریت کی بنیاد سر تا سر مادیت پر استوار ہے اس میں روحانیت کا کچھ بھی عمل دخل نہیں۔

اس کے باعث اس میں لالچ اور خود غرضیاں شامل ہو گئی ہیں۔ اسی طرح اس نظام میں اخلاقیات کو بھی کچھ خاص گزر بسر حاصل نہیں۔ اور بڑے عہدے تک پہنچنے کے لیے نام زد امیدوار کا کریکٹر لیس ہونا کچھ معنیٰ نہیں رکھتا۔ بس اس کے پاس اتنا سرمایہ اور اتنی قوت و استعداد ہونی چاہیے کہ وہ تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا، بڑے سے بڑے عہدے تک پہنچنے کے قابل ہو سکے۔ اس نظام میں بڑے عہدے تک پہنچنے کے لیے گروہ بازی اور لابی سسٹم کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔

دوسری طرف غامدی صاحب کے بیان سے ہزار سالہ اسلامی دانش و عقلیت پر بھی حرف آتا ہے اور نا صرف مسلم سلاطین پر بلکہ خلافت راشدہ اور خلفائے اسلام پر بھی حرف آتا ہے۔ حتیٰ کہ خود اسلامی دستور، یعنی کلام اللہ پر بھی حرف گیری کی راہ کھلتی ہے۔ اس معاملے میں غامدی صاحب کم از کم وہی نظریہ بیان کرتے جو انہوں نے غلامی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ اسلام نے آخر غلامی کے رواج کو پوری طرح ختم کیوں نہیں کر دیا، جس طرح شراب کو پوری طرح حرام قرار دے کر اسلامی معاشرے سے اس کا خاتمہ کر دیا۔

ان کا جواب تھا کہ اسلام نے اس معاملے میں تدریج کا طریقہ اپنایا۔ اور اس کی حکمت انہوں نے یہ بیان کی کہ اگر غلامی کے رواج کو یک لخت ختم کر دیا جاتا، تو اس سے اس وقت کا پورا معاشرتی اور معاشی سسٹم جو زیادہ تر تجارت اور باغ بانی پر مبنی تھا، یک لخت درہم برہم ہو جاتا۔ اس لیے اسلام نے غلامی کے خاتمے کو ترغیبات سے باندھ دیا، چھوٹے بڑے مواقع اور اعمال کو غلامی کے خاتمے سے جوڑ دیا۔ جیسے عبادات میں نقص کا فدیہ غلاموں کو آزاد کرنا قرار دیا اور پھر اسے نیکی اور ثواب کا کام بتایا۔

یہی بات غامدی صاحب کو اس معاملے میں بھی کہنی چاہیے تھی کہ اسلام نے پر امن انتقال اقتدار کے لیے بنیادیں فراہم کر دی تھیں، ایک طرف امرہم شوریٰ بینہم کے عمل کو دستور کا حصہ بنایا اور دوسری طرف نبیﷺ نے بیعت کا طریقہ رائج کیا۔ جو فی الواقع لوگوں کی رائے جاننے کا ہی ایک طریقہ تھا۔ مگر بعد کے زمانے میں یہ چیز قائم نہ رہ سکی، چہ جائے کہ مسلم سلاطین اس طریقے کو ترقی دیتے وہ الٹے پاؤں پھر گئے اور انہوں نے ایک بار پھر سے موروثیت کو پر امن انتقال اقتدار کے پورے سسٹم میں در آنے کا موقع فراہم کیا۔

بہر حال اگر آپ نے غامدی صاحب کی ویڈیو سنی ہے اور پھر میرا یہ مضمون پڑھ لیا ہے تو آپ کو اس کا بہت حد تک اندازہ ہو گیا ہو گا کہ شورائی طرز انتخاب و حکومت سے موروثی انداز جاں نشینی و اقتدار کی طرف جانے انجانے میں یا جانتے بوجھتے ہی سہی مڑ جانے کو گر چہ ہم معصومانہ غلطی قرار دیں اور خطائے اجتہادی کہہ کر الزام تراشی کے گناہ سے بچنا چاہیں، مگر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس کے اثرات وقتی نہ تھے اور نا ہی محدود دائرے تک سمٹ کر رہ جانے والے تھے بلکہ اس کے نتائج صدیوں کو بھگتنے پڑے اور نسلوں تک پھیل گئے۔

گر چہ وہ اس سیریز کی دیگر ویڈیو میں صحابہ کرام کے اجتماعی عمل کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں علیؓ و معاویہؓ دونوں ہی حق پر تھے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ماضی کے ایسے واقعات کا آج کے دور میں درست فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ روایات بھی مختلف ہیں اور بہت کچھ بیان بھی نہیں ہوا۔ یہ عجیب سی بات ہوئی کہ کم تر درجے کی التزام تراشی سے گریز کرتے کرتے وہ بڑے درجے کی الزام تراشی تک جا پہنچے۔

مسلمانوں کی پوری علمی و سیاسی روایت و بصیرت پر بیک زبان ہاتھ صاف کرتے ہوئے، پر امن انتقال اقتدار کا کوئی لائحہ عمل یا دستور نہ بنا سکنے کا الزام رکھ دیا۔ انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ کچھ چیزیں اور علوم و فنون وقت کے ساتھ ہی ترقی پاتے ہیں۔ آج سائنسی جہاں تک پہنچی ہے گزشتہ کل میں وہ یہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی، سکندر اعظم اور سقراط و بقراط جیسی عظیم ہستیوں کی موجودگی کے با وجود بھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔

اس طرح تو کوئی خلافت راشدہ پر ہی دسیوں طرح کے الزامات عائد کر سکتا ہے۔ کم از کم یہی کہ خلفائے راشدین نے سائنسی میدان میں کچھ پیش رفت نہیں کی، بس غازی، فاتح اور حاکم ہی بن کر رہ گئے۔ اس طرح کی دسیوں باتیں کی جا سکتی ہیں۔ تمدن کی ترقیات وقت کے ساتھ نتھی کی ہوئی ہیں۔ اور اسی لیے ایسا ہے کہ تمدنی ترقیات میں مستقبل کی امتیں ماضی کی امتوں سے ہمیشہ آگے رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).