سانپ موقع شناس ہوتا ہے!


ملکی سیاسی منظر نامہ جس تیزی سے بدل رہا تھا، اس سے مجھ جیسے سوشل میڈیائی مبصرین کی تو چاندی ہو گئی۔ عجیب کہانیاں اور سازشی تھیوریاں گھڑنے بیٹھ جاتے تھے۔ کئیوں کا خیال تھا کہ اب کہ تب ”الطاف حسین پارٹ 2“ ریلیز ہوئی اور کچھ نے خیال پیش کیا کہ ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ بس انقلاب آیا کہ آیا“۔

پہلے پہل دھوم مچی گوجرانوالا جلسے میں نواز شریف کی دھواں دھار تقریر کی۔ ہم نے کہا کہ اب ہو گا، دما دم مست قلندر۔ پھر کراچی جلسے سے نواز شریف غائب ہو گئے۔ یوں ہماری دمام دم مست قلندر والی پیش گوئی ہی ٹھس ہو کر رہ گئی۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ بلاول، کوئٹہ جلسے میں شرکت نہیں کریں گے! لو بھئی! اب ہم کیا سمجھیں؟

کراچی میں اپوزیشن کی توپوں کا رخ ”باجواز“ سے ”نا اہل نیازی“ کی طرف مڑ گیا۔ لیکن جیسا کہ مریم نے کہا کہ صفحہ پلٹنے دیر ہی کتنی لگتی ہے (اور یہ مسلم لیگ نون سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے) اسی طرح مولانا اور بلاول نے شاید صفحہ پلٹ لیا اور مریم نے بھی پچھلا صفحہ پورا پڑھ لیا تھا، اس لئے انہیں بھی اگلے صفحے پر پہنچنے کی سوجھی۔ سو بات باجواز سے نیازی تک جا نکلی۔

سچ یہ ہے کہ سیاسی حالات نے جو کروٹ بدلی اور واقعات جس تیزی سے رو نما ہو رہے ہیں۔ اس رفتار تک پہنچ پانا، صرف ارشاد بھٹی، کامران خان، حسن نثار، اور چودھری غلام حسین جیسے چند نابغہ روزگاروں ہی کا کمال ہو سکتا ہے۔

ہم تو پریشان ہو گئے ہیں کہ اپوزیشن چاہتی کیا ہے! ؟ اسٹیبلشمنٹ کے ارادے کیا ہیں! ؟ فی الوقت یہ سمجھ پانا کم از کم میرے لئے بڑا مشکل ہو رہا ہے۔

مسلم لیگ نون کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ اپوزیشن اتحاد کا بیانیہ ہے۔ اور نواز شریف کا بیانیہ کیا ہے وہ یہ کہ ”باجوہ صاحب، جواب دو“ ۔

دوسری جانب بلاول بھٹو کہتے ہیں، سلیکٹرز کو ہمارے پیج پر آنا ہو گا۔ بھائی! آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ آپ کے پیج سے مراد کیا ہے؟ اب ایسے ذو معنی لفظ تو نہیں استعمال کرو نا۔

تیسری جانب مولانا ہیں، تو پھر آپ خود سمجھدار ہیں۔ مولانا تو آخر مولانا ہیں اور اتحاد میں شامل چھوٹی مچھلیاں ویسے بھی بڑی مچھلیوں کا شکار ہی ہونی ہیں۔ اصل کھیل کیا ہے اور یہ کھیل ہے یا گھمسان، کوئی ہمیں بھی سمجھائے۔

کل تک میں سمجھتا تھا کہ پیپلز پارٹی ایک عوامی جماعت ہے۔ حالاں کہ اپنے اصولی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی وجہ سے در پیش چیلینج سے نبرد آزمائی میں ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے اپنی ہیئت تبدیل ہو جانے کے با وجود، بھی وہ اپنے جوہر میں وہی سینٹر لیفٹ اینٹی اسٹیبلشمنٹ، سویلین سپریمیسی اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعت ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

دوسری جانب آمر ضیا الحق کے کوکھ سے جنم لینے والی آئی جے آئی کے نواز شریف اور ان کی پارٹی نو مسلم لیگ نون بہر حال پرو اسٹبلشمنٹ رائٹ ونگ جماعت ہے حالاں کہ اب عملاً لیفٹ رائٹ لکیر کہیں باقی نہیں رہی، پھر بھی یہ وہی جماعت ہے اور شریف برادران گڈ کوپ، بیڈ کوپ کھیلنے کے باوجود، در اصل ”گیٹ نمبر 4“ کے گداگر ہی ہیں۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟

ایک بات تو طے ہے اسٹیبلشمنٹ پر جتنی تنقید آج ہو رہی ہے، شاید پہلے کبھی ہوئی ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو بھی تحریکیں چلی، وہ مارشل لاؤں کے زمانے میں چلی۔ آج کہنے کو ملک میں جمہوریت ہے لیکن تنقید کا نشانہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ہے ناں تعجب کی بات!

اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ادارے ”73ء کے آئین کے تناظر میں“ اپنی حدود میں لوٹ جائیں۔ لیکن بھائی 73ء کا آئین تو 73ء سے موجود ہے۔ آپ کو یہ خیال اب کیوں کر آ رہا ہے؟ پہلے کیا سب کچھ آئین کے دائرے میں ہوتا رہا تھا؟

حالات حاضرہ کا جائزہ لیں تو آئین کی بالا دستی والے سوال پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ فرض کریں یہ اپوزیشن اتحاد سویلین سپریمیسی کے لئے ہے، آئین کی عمل داری کے لئے بنایا گیا ہے۔ تو اصل ہدف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہونی چاہیے اور منزل فوج کی سیاسی و ملکی امور میں بے جا مداخلت کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے اور حقیقی جمہوریت کا خواب پورا کرنے کے لئے کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت احوال سے تو آپ کی تحریک کو بے پناہ طاقت مل جانی چاہیے۔

ذرا سوچیے تو صحیح کیا پہلے کبھی کسی پولیس میں اتنی ہمت ہوئی، 2 سالوں میں پنجاب میں پانچ آئی جی تبدیل ہوئے۔ آخری والے کو تو ما تحت سی سی پی او لاہور کی وجہ سے عہدے سے الگ کر دیا گیا تھا لیکن کس میں جرات تھی کہ طاقت کے سرچشموں جو انکار کر سکے؟

لیکن کیپٹن صفدر گرفتاری والے معاملے پر تو کمال ہی ہو گیا۔ اس بار سویلین حکومت یا کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ سندھ پولیس نے آپ کو لائن کھینچ کر دے دی کہ لیجیے ہم بھی سویلین سپریمیسی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اب تو آپ کو پولیس کے پیچھے کھڑے ہوجانا چاہیے تا کہ جرات انکار سندھ پولیس سے نکل کر پنجاب، پھر کے پی کے تک پہنچے۔ یہ جرات رندانہ محکمہ پولیس سے نکل کر خزانہ، داخلہ و خارجہ وزارتوں تک پہنچے کہ ”بہت ہو گیا اب بس!“ یہی تو واحد راستہ ہے، جب آپ کے ما تحت ادارے، اپنی حدود و اختیارات کا تعین کر رہے ہیں کہ کیا قبول کرنا ہے کیا نہیں کرنا۔

کیا یہ تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ نہیں ہے؟ کیا یہ سیاسی و انتظامی تاریخ کا ایک تاریخ ساز واقعہ نہیں ہے؟ یقیناً ہے اور تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ تاریخ کچھ بھی بھولتی نہیں ہے۔ تاریخ کرداروں کو یاد رکھے گی کہ جب لکیر کھنچ چکی تو کون کہاں کھڑا تھا۔ صرف ایک فون کال پر بچھ گئے سارے کے سارے؟ ابھی تو پہلی منزل ہی طے نہ ہو پائی تھی، ابھی تو آئین کی بالا دستی، سویلین سپریمیسی کی منزل بہت دور تھی۔

میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر اپوزیشن اتحاد نے درست پوزیشن نہ لی (جو کہ واضح نظر ا رہا ہے کہ نہیں لی گئی) تو پھر آئی جی سندھ مشتاق مہر، اور اس کے ہم نواؤں کا حشر، سابق جسٹس شوکت عزیز، جسٹس فائز عیسیٰ یا سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن جیسا ہو گا۔ آج پیپلز پارٹی اور نومسلم لیگ نون کو موقع پرستی کے بجائے موقع شناسی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

گلزار کا اک شعر پی ڈی ایم کی نذر:
عشق ڈس لیتا ہے، ہر ایک کو، کہیں نہ کہیں
سانپ! موقع شناس ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).