بچوں ک نہیں بڑوں کی تربیت ضروری ہے


مجھے جانتے نہیں میں کون ہوں۔ تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھے سگنل پہ روکنے کی۔ پتہ بھی ہے کس کا بیٹا ہوں۔ یہ وہ تڑی ہے جو پندرہ سولہ سال کے اکثر بچے قانون کی خلاف ورزی پہ روکنے والے ٹریفک وارڈن کو لگاتے ہیں اور سگنل پہ موجود وارڈن کو یہ لہجہ و الفاظ بتا دیتے ہیں کہ غلطی کس نے کی ہے۔ وہ وارڈن جو چالان کاٹنے کا سوچ رہا ہوتا ہے، چالان پیپر تھمانے کی بجائے معذرت کر کے اسے مزید قانون شکنی کی اجازت دے دیتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ سخت لہجہ اس تھانیدار کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو ہوش و حواس سے بیگانہ الٹے سیدھے کام میں ملوث کسی نوجوان کو انتہائی مجبوری کے تحت تھانے لے آئے تو تھانے میں تھرتھلی مچ جاتی ہے۔

جرم کرنے والے کو پکڑ کر تھانیدار مجرم بن جاتا ہے۔ فون پہ فون آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بچے کو پکڑ کر اچھا نہیں کیا تم نے تھانیدار، فوری چھوڑو بچے کو۔ اگر تھانیدار علاقے میں نیا ہو یا تھانیداری کے نئے نئے خمار میں ہو کر قانون بتانے کی کوشش کرے تو پھر اسے بتا دیا جاتا ہے کہ اب تھانیدار کا قانون کسی دور دراز پنڈ میں چلے گا یا اپنے گھر میں۔ کیونکہ یہ بلونگڑے جن کو تھانیدار نے پکڑنے کی ہمت دکھائی ہوتی ہے یہ کسی تگڑے با اثر افراد کے لخت جگر ہوتے ہیں۔

اور کسی نور، ظہور کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ ان پہ نظر رکھ سکے۔ سکول میں بچے کو ڈانٹ پڑے تو مائیں شور مچاتی استانی کی کلاس لینے پہنچ جاتی ہیں۔ تمھاری یہ جرات کہ ہمارے بچے کو کچھ کہو۔ ہم اتنی زیادہ فیسیں کیا اس لیے دیتے ہیں۔ اگر یہی کرنا ہے تو ہم کسی دوسرے سکول میں بچہ داخل کروا لیتے ہیں۔ اس سے آگے سننے کی تاب نہیں ہوتی، پھر استانی تو استانی سکول پرنسپل کو بھی معافی مانگنا پڑ جاتی ہے۔ اگر کوئی اپنا سمجھ کے بتائے کہ بچے کو سگریٹ پیتے دیکھا ہے، یا بچے کی شکایت لے کر گھر آئے تو بے عزت ہو کر جاتا ہے۔ والدین بچے سے باز پرس کرنے کی بجائے آنے والے پر بگڑتے ہیں کہ ہمارا بچہ ٹھیک ہے آپ الزام لگا رہے ہیں۔

بچے خراب ہو گئے ہیں، کیا زمانہ آ گیا ہے، بچوں کو کسی کا لحاظ ہی نہیں رہا۔ ان کی آنکھ کی شرم مر گئی ہے۔ نئے دور کے بچے ہیں، بدتمیز تو ہوں گے، بھئی اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔ یہ ہے وہ سوچ جو ہر بندہ دوسرے کے بچے بارے رکھتا ہے۔ رہی زمانے کی بات تو ہر دور میں یہی کہا جاتا ہے، زمانہ برا ہے، بچے خراب ہو گئے ہیں۔ خدا کا نام لیں زمانہ برا ہوتا ہے، نہ بچے خراب۔ یہ بڑے ہیں جن کی وجہ سے دونوں بدنام ہو جاتے ہیں۔ بڑوں کا رویہ خراب ہوتا ہے ان کی سوچ خراب ہوتی ہے۔

اور یہ خراب سوچ کے ساتھ بچوں کو غلط باتوں کا عادی بناتے ہیں اور الزام زمانے پہ ڈال کے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن دنوں میں جاہلیت کے عروج پہ تھی ان دنوں صرف اتنا پتہ تھا کہ مسلمان غلط نہیں ہوتے لیکن جاہلیت کی تھوڑی سی دھند ہٹی تو اندازہ ہوا ہے غلط کاری کا تعلق کسی بھی مذہب یا مسلک سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق سیدھا انسان کی سوچ سے ہے۔ انسان کی سوچ میں جب درندگی آ جائے وحشیانہ پن آ جائے تو کسی مذہب یا زمانے کو الزام دینا مناسب نہیں۔

جانور تو اپنی جبلت کی بنیاد پر جانور ہیں، وحشی ہیں۔ عقل سے عاری جانور وحشی پن نہ دکھائے تو جانور کیسے کہلائے۔ جانور پہ جانور ہونا جچتا ہے کہ وہ اسی فطرت پہ پیدا ہوا ہے لیکن جانے کیوں انسان نے جانور کی خصلتیں اپنا کر خود کو انسان سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ حضرت انسان نے جانوروں کا وحشی پن اپنے اندر اتار لیا ہے تب سے جانور بھی انسان سے ڈرتے پھرتے ہیں۔ پتہ ہے نا وہ بلی کا بچہ۔ انسانوں کی آبادی میں پہلی وحشت انسان نے دکھائی جب اس نے اپنے بھائی کو مار دیا تھا۔

تب دور ایک پرندہ بیٹھا حیرت سے دیکھتا انسانی فعل پہ شرمندہ ہو رہا تھا۔ تبھی تو اس نے انسان کو اس کی غلط کاری پر مٹی ڈالنے کا گر سکھایا کہ شاید اسے شرمندگی کا احساس ہو۔ غلط کاری کا تعلق مذہب سے ہوتا تو آج سب سے محفوظ اسلامی معاشرہ ہوتا۔ جہاں گھر محفوظ ہوتے، کاروبار محفوظ ہوتے، عزتیں محفوظ ہوتیں، عورتیں محفوظ ہوتیں، بچے محفوظ ہوتے۔ کسی ملا کو یہ نہ سمجھانا پڑتا کہ آگ اور پٹرول سے تباہی ہوتی ہے اور کسی محافظ کو یہ نہ بتانا پڑتا کہ کسے کب اور کس کے ساتھ نکلنا ہے۔

ایک لفظ ہمیشہ بولا جاتا ہے کہ بچوں کو تربیت کی ضرورت ہے تو جناب واضح کر دوں، تربیت کی ضرورت بچوں کو نہیں بڑوں کو ہے۔ بچے وہی سیکھتے ہیں جو بڑوں کو کرتا دیکھتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ چھری کانٹے کے ساتھ کھانا کھانے والے والدین کے بچے ہاتھ سے کھانا نہیں کھا سکتے، کھانے کے دوران انگلیاں چاٹنے کو بدتمیزی سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ کھانے کے دوران گھر میں کسی کو ہاتھ کی انگلیاں چاٹتے دیکھتے ہی نہیں۔

ماں بہن کو دی جانے والی گالی کے مفہوم سے بچہ آشنا نہیں ہوتا، وہ گالی کے توسط سے بیان کی جانے والی خواہش سے بھی انجان ہوتا ہے لیکن وہ گالی سنتا ہے تو گالی نکال دیتا ہے یہ سمجھے بغیر کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ شرفا گھروں میں ملازم رکھا جائے تو بچوں کو باور کروا دیا جاتا ہے کہ اسے صرف ملازم ہی سمجھا جائے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ گدھے پہ لاد کر اینٹیں لانے والے کو بھی گدھا ہی سمجھا جاتا ہے۔ جھنڈے والی گاڑیوں کے مالکوں کی اپنی گردنوں میں سریا تو فٹ ہوتا ہے لیکن یہ سریا وہ اپنی اولاد کی گردن کے ساتھ ان کی سوچ میں بھی فٹ کر دیتے ہیں اور اچھی طرح سمجھا دیتے ہیں کہ کسی سے ڈرنے یا دبنے کی ضرورت نہیں تم سیاہ کرو یا پھر سیاہ ہی سیاہ کرتے جاؤ تمھارے باپ کا رتبہ تمھارا حامی و ناصر ہے اور اسی رتبے کا فائدہ یہ خوب اٹھاتے ہیں اور پھر آگے ان کے دوست بھی۔

کہ پتہ ہوتا ہے کچھ بھی غلط کر لیں ایک فون کال دوسروں کو سیدھا کر دے گی۔ یہ سوچ صرف پختہ نہیں ہوئی بلکہ عملی طور پہ ثابت ہو چکی ہے کہ پہنچ والوں کی فون کال کام کرتی ہے اور بنا تعلق والوں کا ٹیلنٹ بھی بے کار جاتا ہے۔ اکثر خراب کاموں میں تعلق داریاں یوں نبھائی جاتی ہیں جیسے پرانے زمانوں میں سچی دلداریاں نبھائی جاتی تھیں۔

معصوم بچوں کی تربیت کی فکر چھوڑ دیں کوشش کریں بڑوں کے دماغی خلل دور ہوں۔ اگر بڑوں کے دماغ ٹھیک ہو گئے تو یقین کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بڑوں کے دماغوں میں فتور ہوں تو بھلا بچے کیسے اچھی سوچ اپنا سکتے ہیں۔ جہاں معمولی کلرک سے کلکٹر تک اور ایم پی اے سے پی ایم تک سب اپنی حیثیت اپنے رتبے اور سب سے بڑھ کر اپنی مردانگی کا فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہوں وہاں اچھی تربیت کی ضرورت بچوں کو نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).