بنڈال اور ڈنگی: بحیرۂ عرب کی ساحلی پٹی کے جزائر سندھ کی ملکیت ہیں، اٹارنی جنرل پاکستان کا عدالت میں اعلان


جزائر
وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بنڈال اور ڈنگی جزائر سندھ کی ملکیت ہیں اور عدالت میں دائر درخواست پر فیصلے تک ان پر کسی نوعیت کی سرگرمی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس ارشد خان پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے جمعے کو جزائر اتھارٹی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔

اس دوران سندھ حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ شہاب اوستو نے عدالت کو بتایا کہ نوٹس جاری ہونے کے باوجود وفاقی حکومت نے سرگرمیاں نہیں روکی ہیں۔ عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ ‘ترقیاتی کام کے اشتہارات آ رہے ہیں، تعیناتی کی جاری رہی ہے، ایکسپریشن آف انٹرسٹ طلب کیے گئے حالانکہ نوٹس ہوگئے ہیں۔

’سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی کئی فیصلے موجود ہیں جن کے تحت نوٹس جاری ہونے کے بعد فریق کو کام بند کردینا چاہیے اس کے لیے حکمِ امتناعی کی ضرورت نہیں پڑتی۔’

یہ بھی پڑھیے

حکومت بحیرۂ عرب کی ساحلی پٹی کے جزائر کو کیوں آباد کرنا چاہتی ہے؟

کراچی کے لاپتہ جزائر

پاکستان کے ساحلی علاقوں میں خام تیل کہاں سے لیک ہو رہا ہے؟

استولا سمندری حیات کے لیے محفوظ علاقہ

اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے اور انھوں نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ جزائر پر وفاقی حکومت کوئی بھی کام نہیں کرے گی اور اس ضمن میں جو بھی ہوگا صوبائی حکومت کی معاونت اور مشاورت سے ہوگا۔

جزیرہ

'جزائر سندھ کی ملکیت'

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے تسلیم کیا کہ یہ جزائر صوبہ سندھ کی ملکیت ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھیں خود بھی جزائر اتھارٹی آرڈیننس پر اعتراضات ہیں یہ کوئی صحیفہ نہیں ہے ، سندھ حکومت کے جو اعتراضات ہیں ان کی روشنی میں اس میں ترمیم ہو سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے بعد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر ان جزائر کی ترقی ہوگی تو سندھ کے لوگوں کا فائدہ ہے انھیں کوئی لے کر تو نہیں جاسکتا۔

‘وفاقی حکومت کی خواہش ہے کہ سندھ کے عوام کےمفاد میں یہ منصوبہ تیار ہو صوبائی حکومت کے تعاون کے بغیر یہ تیار نہیں ہوگا اس کا ساتھ چاہیے۔’

انھوں نے کہا کہ یہ زمین سندھ کے عوام کی ہے ترقیاتی کام چاہے کوئی بھی کرے، صوبائی حکومت آرڈیننس میں جو ترامیم کہے گی کرنے کے لیے تیار ہیں یہ معاملہ عدلیہ کے ذریعےحل ہونے والا نہیں ہے۔

ایڈووکیٹ شہاب اوستو نے ماہی گیروں کی مشکلات کا بھی ذکر کیا اور عدالت کو بتایا کہ 25 لاکھ ماہی گیروں کا روزگار سمندر سے وابستہ ہے اور پاکستان بحریہ انھیں سمندر جاتے ہوئے تنگ کرتی ہے، وفاقی حکومت کو اس کا تدارک کرنا چاہیے۔

درخواستوں میں موقف کیا اختیار کیا گیا؟

ایڈووکیٹ شہاب اوستو نے موقف اختیار کیا ہے کہ جزائر اتھارٹی آرڈیننس غیر آئینی ہے اور اس سے آئین کی متعدد شقیں کی خلاف ورزی ہوتی ہیں۔

ان کے مطابق ‘اس آرڈیننس کے ذریعے آئینی ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت پاکستان اور صوبہ سندھ کی حدود میں تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔ اس آرڈیننس کے ذریعے 18ویں آئینی ترمیم کے قانون اور روح کو سبوتاژ کیا گیا ہے’

سماجی کارکن جبران ناصر نے بھی اس معاملے میں درخواست دائر کی ہے اور ان کا موقف ہے کہ اگر جزائر پر کام ہوا تو مینگرووز کے درخت کاٹے جائیں گے۔

‘ کوئی بھی ایسا تعمیراتی یا ترقیاتی کام جو مینگرووز کے درختوں کو نقصان پہنچائے غیر قانونی ہے کیونکہ مینگرووز کٹنے سے کراچی میں ہیٹ ویو مزید بڑھے گی اور سونامی کا بھی خطرہ بڑھ جائے گا۔’

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ‘سب سے پہلے سندھ کی عوام اور ماحول کو ترجیح دی جائے گی، ماہی گیروں اور مینگرووز کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔’

جزیرہ

سندھ اسمبلی سے مخالف قرار داد

سندھ اسمبلی نے جمعرات کو اپنے ہنگامی اجلاس میں جزائر اتھارٹی کے خلاف قرار داد منظور کر لی تھی۔ یہ قرار داد جام محمود عالم نے پیش کی تھی اور اس میں کہا گیا تھا کہ آئین کے مطابق جزائر سندھ کی ملکیت ہیں اور صدارتی آرڈیننس صوبائی حدود سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے مترادف ہے اور حکومت سندھ کسی کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے گی اور ملکیت کے حق سے دستبرادر نہیں ہو گی۔

قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت یا کسی اتھارٹی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ سندھ کے جزائر پر اپنا حق جتائے لہٰذا وفاقی حکومت فوری طور پر اس آرڈیننس سے دستبردار ہو۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پورا سندھ سراپا احتجاج ہے جس کے باعث انھیں ہنگامی اجلاس طلب کرنا پڑا۔

’ہم پوری طاقت سے لڑیں گے اور یہ آرڈیننس واپس کرائیں گے، بحیرۂ عرب میں حدود بیس لائن سے 12 ناٹیکل میل دور تک ہیں اور میری ٹائیم ایکٹ 1976 میں اس کی وضاحت موجود ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ جزائر ہماری بیس لائن میں ہیں، جب تک یہ آرڈیننس واپس نہیں ہو گا وفاق سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔

سندھ اسمبلی میں جزائر اتھارٹی کے صدارتی آرڈیننس کے خلاف قرار داد کے وقت تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا جبکہ ان کی اتحادی جی ڈی اے نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا، تحریک انصاف کے رکن شہریار شر ڈٹ گئے اور قرار داد کا ساتھ دیا۔

جزیرہ

جزائر اور وفاقی حکومتوں کی دلچسپی

کراچی کے جزائر پر 2006 سے تنازع جاری ہے اور جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جزائر کو متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا گیا تھا، لیکن سندھ کی حکومت نے اس دعوے کو مسترد کردیا اور موقف اختیار کیا تھا کہ جزائر سندھ کی ملکیت ہیں۔

اُس رہائشی منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور ہڑتالیں کی گئیں، جن میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل تھی۔

2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں پورٹ قاسم اتھارٹی نے ان جزائر کو اپنی ملکیت قرار دے کر فروخت کر دیا، بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے پورٹ قاسم کی نیلامی میں حصہ لے کر یہ زمین حاصل کی ہے اور تمام کارروائی مکمل کی ہے۔

بحریہ فاؤنڈیشن ‘سیف سٹی’ کے نام سے یہ منصوبہ امریکی کمپنی تھامس کریمر کے اشتراک سے تعمیر کرے گی۔ اس میں سوا لاکھ افراد کے آباد ہونے کی گنجائش ہو گی۔

امریکی کمپنی تھامس کریمر نے اپنی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا تھا کہ یہ خود مختار اور خود کفیل جزائر ہوں گے۔ اس منصوبے پر 20 کھرب روپے کی مالیت آئے گی، جو پاکستان میں اب تک کا مہنگا ترین منصوبہ ہو گا۔

1200 ایکڑ پر مشتمل اس نئے شہر میں دنیا کی بلند ترین عمارت، سب سے بڑا شاپنگ مال، سپورٹس سٹی، ایجوکیشن اینڈ میڈیکل اور میڈیا سٹی موجود ہو گا۔ اس شہر کو کراچی کے دیگر علاقے سے ملانے کے لیے چھ لین کا پُل تعمیر کیا جائے گا۔

یہ علاقہ ہائی سکیورٹی زون قرار دیح جائیں گے اور یہاں بجلی مقامی طور پر پیدا کی جائے گی اور سمندر کا پانی صاف کر کے پینے کے قابل بنایا جائے گا۔

اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی اور وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد یہ منصوبہ مسترد کر دیا گیا تھا۔ ماضی میں دونوں مرتبہ غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے کے وقت محکمہ جہاز رانی اور بندرگاہ کے وزیر بابر غوری تھے۔

تحریک انصاف حکومت میں دوبارہ تنازع

رواں برس کراچی کے ان جزائر پر تحریک انصاف حکومت نے بھی ترقیاتی منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس سے قبل ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے مطابق بنڈال اور ڈنگی سمیت بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر موجود تمام جزائر وفاق کی ملکیت قرار دیے گئے۔

آرڈیننس میں پانی کی حدود کے حوالے سے ‘ٹیریٹوریل واٹرز اینڈ میری ٹائم زونز ایکٹ 1976’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ساحل سے سمندر کے اندر 12 ناٹیکل میل تک کا حصہ اب اتھارٹی کی ملکیت تصور کیا جائے گا۔

آرڈیننس کے مطابق اس اتھارٹی کا دفتر کراچی میں ہو گا اور اس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان خود ہوں گے۔

اس آرڈیننس پر سندھ میں شدید ردِعمل سامنے آیا تھا، صوبہ بھر میں مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس کا مرکز کراچی رہا، وفاقی وزیر جہاز رانی علی زیدی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر صوبائی حکومت کا این او سی بھی شیئر کی جس کے تحت وفاقی حکومت کو جزائر پر ترقیاتی کام کی اجازت دی گئی تھی۔

مشیر قانون مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ مشروط اجازت دی گئی تھی جس کے تحت جزائر سندھ کی ملکیت رہیں گے۔

مقامی ترقی اور ماہی گیروں کو اس میں شامل اور ان کا خیال رکھا جائے گا لیکن صدارتی آرڈیننس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp