ہائبرڈ چلڈرن


ایک آن لائن لغت میں لفظ ”ہائبرڈ“ کا ترجمہ تھا، ”دو نسلا“۔ اب گاڑیوں کی حد تک تو دو نسلا پن اچھی بات ہے۔ ایندھن کی بچت، ماحولیاتی آلودگی میں کمی، وغیرہ۔ انسان کے بچے بھی دو نسلے ہو سکتے ہیں، لیکن اگر اچھے خاصے یک نسلی بچے کو زبردستی ہائبرڈ بنایا جائے تو یہ بات قابل تحسین نہیں لگتی۔ پھر بھی آج کل یہ چیز فیشن کا حصہ بن چکی ہے اور والدین اپنے لاڈلوں کو ہائبرڈ بنانے پر تلے نظر آتے ہیں۔

ایک جاننے والے کے گھر جانا ہوا۔ خاتون خانہ نے کسی سے کہا، ”شیک ہینڈز کرو۔“ یہ لفظ ”شیک“ سنتے ہی میں چھلانگ لگا کر صوفے پر چڑھ گیا۔ در اصل ”شیک“ کی کمانڈ کتوں کی ٹریننگ میں استعمال ہوتی ہے۔ کتے کو سکھایا جاتا ہے کہ بیٹھ کر کس طرح ایک پاؤں اوپر کرنا ہے اور انسانوں سے انسانوں کی طرح ہاتھ ملانا ہے۔

چوں کہ وطن میں سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد ہیں، اس لئے کتوں کی موجودگی میں سطح سمندر سے بلند رہنے ہی میں عافیت ہے۔ صوفے پر کھڑے ہو کر گرد و پیش کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ کسی کتے نہیں بلکہ انسان کے بچے کو مجھ سے ہاتھ ملانے کو کہا جا رہا ہے، ایک عجیب سے اردو اور انگریزی کے آمیزے میں۔ لیکن ہائبرڈ بچہ بآسانی یہ دو نسلی زبان سمجھ گیا۔ ایسی زبان سن کر صوفے سے اترنا انسانیت سے گرنے جیسا لگا، لیکن آداب مہمانی کے تحت نیچے اتر کر شیک ہینڈز کرنا ہی پڑا۔

اسی طرح ایک تقریب میں ایک صاحب اور ان کے بچے نے ساری اردو میڈیم ڈشیں کھائیں۔ قورمے، بریانی، کھیر، وغیرہ۔ لیکن آخر میں صاحب نے بچے کو ہدایت دی، ”بیٹا، ہینڈز واش کر لو۔“

چوں کہ پوری اردو (یا کوئی بھی مادری زبان) بولنا عزت میں کمی کرتا ہے، اس لئے عزت بچانے کی خاطر پاکستانی اپنے بچوں کو ہائبرڈ بنا رہے ہیں۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پورا انگریز کیوں نہیں بنا لیتے، لیکن پوری انگریزی بولنا مشکل ہے کیوں کہ ذہن میں جملے کی آمد تو مادری زبان ہی میں ہوتی ہے، پھر انگریزی ترجمہ کرنے میں خاصا وقت ضائع ہوتا ہے۔ اس لئے آدھا تیتر آدھا بٹیر جملہ ہی منہ سے نکلتا ہے۔ لاہور ائرپورٹ پر ایک میاں بیوی نے مسلسل اپنے بچوں سے ہائبرڈ زبان میں گٹ پٹ کی، اماں بار بار گوگل سے الفاظ کے مطلب خود بھی سیکھے گئیں اور بچوں کو بھی سکھاتی گئیں۔ بچے اگر انگریزی کی راہ سے بھٹکے تو سختی سے کہتی بھی گئیں، ”صرف انگلش میں ٹاک کرو،“ لیکن ابا کا فون بجا تو جناب نے ایسی ٹھیٹھ پنجابی بولی کہ دل خوش ہو گیا۔ ساتھ میں بچوں پر رحم بھی آیا کے بیچارے اس خالص وراثت سے محروم کر دیے گئے ہیں۔

ہائبرڈ زبان کا فائدہ ہمارے معاشرے میں یہ ہے کہ جو بات اردو میں غلط ہو وہ انگریزی میں صحیح تسلیم ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ائرپورٹ ہی پر ایک ساٹھ سالہ ہائبرڈ بچے نے لائن توڑ کر چیک ان کاؤنٹر تک پہنچنے کی کوشش کی تو مجھے بہت غصہ آیا۔ ٹوکنے پر صاحب آگ بگولا ہو گئے اور بھیانک انگریزی میں میری تواضع شروع کر دی۔ اپنے اندر بھی یوسفی صاحب کے کابلی والا کی روح حلول گئی اور میں نے فرما دیا: ”بھرا ہوا پیٹ انگریزیاں بولتا ہے۔

ہوش میں آؤ، لائن لگاؤ۔ ”معلوم ہوا کے وہ صاحب تازہ تازہ کسی فرعونی عہدے سے رٹائرڈ تھے اور گردن کا سریا جوں کا توں تھا۔ پھر تو انہوں نے زبان سے ایسی ایسی ہائبرڈ تراکیب استعمال کیں کہ میں بہت دیر تک لغتیں کھنگالتا رہا۔ توقع تھی کہ لائن میں موجود دوسرے ہائبرڈوں میں سے کوئی تو مترجم بنے گا، لیکن کوئی ایک شخص بھی میری مدد کو نہیں آیا۔ ان کے ہائبرڈ اسلحے کے مقابلے میں میرا اردو اسلحہ دیکھ کر کسی نے منہ لگانے کے قابل نہیں سمجھا۔

اس دوران میں صاحب کی زبان دراز سے دراز تر ہوتی گئی۔ پھر مجھے بھی غصہ آ گیا۔ اپنی محدود ہائبرڈ صلاحیتوں کے باوجود عین وقت پر کمال احمد رضوی صاحب کی ”الف نون“ میں استعمال کی ہوئی ایک ہائبرڈ اصطلاح یاد آئی۔ ترکیب استعمال کا کچھ پتا نہیں تھا، لیکن جب پوری قوم ہائبرڈ کووں کی طرح ہنس کی چال چلنے پر مصر ہے تو میں کیوں پیچھے رہتا۔ منہ پھاڑ کر فرعون صاحب کو کہ دیا، ”یو مدر فادر“، اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).