تلاش حقیقت


ایک علمی مکالمے میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا انسان خدا کی تخلیق ہے یا خدا انسان کی تخلیق۔ کیوں کہ کرہء ارض پر موجود جانداروں کی تمام تر انواع میں اس وقت موجود، سب سے زیادہ باشعور مخلوق انسان ہی ہے، جو اپنے علم اور اس  کے نتیجے میں حاصل تجربے کی بنیاد پر دنیا کی باقی تمام جاندار مخلوق سے برتر درجے پر فائز ہونے میں کامیاب ہو چکی ہے، لیکن بنیادی طور پر انسان بھی باقی جانداروں کی طرح ایک آرگینک یعنی نامیاتی چیز ہونے کی وجہ سے اپنی کچھ محدودات رکھتا ہے۔ جیسے دنیا کی ہر نامیاتی شے کی ایک محدود عمر ہوتی ہے، جس کو تھوڑا بڑھایا تو جا سکتا ہے لیکن دوام ہرگز نہیں دیا جا سکتا۔

جس طرح کہا جاتا ہے کہ فنون یعنی آرٹس وہ خصوصیت ہے جو ہمیں جانوروں کے مقابلے میں انسان بناتی ہے، تو انسان نے اپنے دوسرے جانداروں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور تخیل کے ذریعے ادب تخلیق کرنا شروع کر دیا اور اس راستے پر علم، وراثت، اور تجربہ کے مرکب سائنس کے ذریعے فنون و ادبِ عالیہ، جس میں مذاہب بھی شامل ہیں تک رسائی حاصل کی۔

مشہور ہے کہ ”سائنس جب اپنے اعلیٰ ترین درجے تک پہنچ جاتی ہے تو وہ آرٹ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے“ اس شعور اعلیٰ جو مذہبی عقائد کے مطابق ہمیں خدا کی طرف سے ودیعت ہے نے زندگی کی محدودیت کے مقابلے کے لیے ایک وجدانی فلسفہ تخلیق ہوا، جس میں انسان کی لا محدودیت سمیت تمام اعلیٰ اور ادنیٰ خواہشات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس میں بعد از موت حیات کا تصور، وہاں ازلی زندگی کا تصور جنت اور دوزخ کا تصور اور وہاں موجود تعیشات، انعامات اور تعزیرات کا تصور اور اس طرح اس متضاد انجام، یعنی ایک جنتی کا انجام اور ایک دوزخی کا انجام، کو اعلی ترین طریقے سے دنیا کی زندگی کے ساتھ جوڑ دیا گیا، بلکہ دنیا کی زندگی کے اعمال کے دار و مدار ہی پر آخرت کے مقام کا تعین طے کر دیا گیا۔ گویا ایک فلسفیانہ سرکٹ مکمل ہو گیا۔

اس تمام ڈیزائن میں کہیں بھی انسان کے لیے کسی بھی صورت میں ”ڈیلیٹ“ کی آپشن نہیں رکھی گئی۔ اسی وجہ سے ہمارے قومی شاعر اپنے ایک شعر میں خدا سے یہ گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ”تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا“ ”یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی“ ۔ ہم یہاں عملی طور پر نا قابل تصدیق معاملے پر بحث کر رہے ہیں۔ اب یہاں اس بحث کو آگے بڑھانے کے لیے جو ٹول ہمارے پاس دستیاب ہیں، وہ اعتقاد، ایمان، قیاس، وحی، وجدان، اور روایات ہیں۔ جہاں ہم اپنے اعتقاد، اور ایمان کی بنیاد پر، ہم تک قراٰن اور الہامی کتب کے ذریعے پہنچی۔ معلومات جو پھر عملی طور پر نا قابل تصدیق ہیں، اور اب پھر سے اس مرحلے پر ہمارے پاس دو ممکنہ اختیار ہیں کہ یا تو ایمان اور اعتقاد کی بنیاد پر ان معلومات اور روایات کو بغیر آزمانے یعنی تجربہ کرنے کے بجائے ہو بہو جیسے روایتاً ہم تک پہنچیں، ویسے ہی بغیر مزید کچھ سوچے، بغیر کوئی سوال اٹھائے، مان لیں۔

اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم باقی دنیاوی علوم اور فنون کے، یعنی سائنس کے مروج طریقہ کار کی بنا پر اس معاملے کا صبر اور تحمل سے جائزہ لیں اور تجزیہ کرنے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ پہلے ادوار میں معلومات اور دریافت نہ ہونے کی وجہ سے، ہم انسانی جسم اس کی اندرونی ساخت، انسانی دماغ اور اس کے مختلف کاموں کے لیے مخصوص مختلف حصوں کے افعال اور مقام کو نہیں جانتے تھے، بلکہ اب ماضی قریب تک دل کو بھی سوچنے والا عضو سمجھا، اور بتایا جاتا تھا، لیکن میڈیکل سائنس کی ترقی اور ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے ہنر اور تجربات کے بعد معلوم اور ثابت ہوا کہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ دل بھی دماغ سے ہدایات وصول کر کے اپنا تفویض کردہ کام یعنی جسم میں خون پمپ کرنا ہی کرتا ہے اور اگر کسی کا دل تبدیل کر دیا گیا تو سوچ وہی رہی جو دماغ قبل ازیں پیدا کرتا تھا۔

اور دل کی تبدیلی سے عادت یا سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لیکن یہاں دل چسپ امر یہ ہے کہ یہ علم انسان کو حاصل اور ثابت ہونے کے بعد، مذہب نے اپنے دیرینہ اور روایتی موقف کے ساتھ کیا کیا؟ اب دوبارہ انہوں نے اپنے مخصوص روایتی طریقہ کے تحت ہی اس موقف کو ایک ”تاویل“ کا روپ دے دیا، اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ دل کی سوچ سے مطلب ایک اصطلاح کو واضح کرنا تھا، اور ہمارا ہرگز یہ مطلب نہ تھا کہ دل، دماغ کی طرح عملی طور پر آزادانہ سوچتا ہے۔

موضوع بحث کے بارے میں بھی مذہب کے پاس تاویلات کا ایک نا قابل تصدیق (کم از کم اب تک) جہاں موجود ہے، تو بہتر اور ”محفوظ“ طریقہ اور راستہ یہی ہے کہ ہم اپنا دیرینہ ایمان قائم رکھتے ہوئے مکمل اور حتمی ”سچائی“ کی تلاش کا ذہنی علمی، فلسفیانہ اور سائنسی سفر پورے خلوص سے جاری رکھیں۔ تا کہ مستقبل بعید میں ہی سہی اس موضوع پر بھی اتنی عملی اور سائنسی و علمی قابل تصدیق معلومات حاصل اور دریافت کر سکیں۔ یا اس حقیقت مطلق کی طرف سے ہم پر ودیعت کر دیا جائے، جو اس سوال کا حتمی جواب بن کر اس موضوع پر انسان کے فطری تجسس کی تشفی کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).