لوگ در لوگ: تاریخ ساز لوگوں کی مثنوی یوسف


فرخ سہیل گوئندی کمال کے انسان ہیں۔ تین چار مشکل لیکن دل چسپ شوق پال رکھے ہیں۔ جن میں ان کی جہان گردی جو اب ان کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہے۔ دوسرا لکھنا، جو ان کی سرشت میں شامل ہے۔ بھٹو سے بھگت سنگھ پر اور سماج کے زوال سے سلطنت عثمانیہ اور ترکی پر بے تکان بولتے ہیں۔ تیسرا، اچھی تحقیقی اور لطیف اور ذوق جمالیات پر مبنی کتابیں شوق سے اپنے پبلشنگ ادارے سے چھاپتے ہیں اور پھر جتنا ہو سکے اپنے پلے سے اچھے ہوٹلوں میں لنچ ڈنر کے ساتھ ان کتابوں کی تقریب رو نمائی بھی کر گزرتے ہیں۔

کم عمری میں بھٹو کے سحر میں مبتلا ہوئے اور ان کی کچی قبر کی مٹی سے تجدید نو کر کے اٹھے کہ اس بکھرتے سماج کے حوالے سے اپنی تئیں ایک مثالی اور با مقصد جدوجہد زندگی بھر کرتے رہیں گے۔ چوں کہ وہ مطالعے کے رسیا اور کتاب کو گھول کے پینے والوں میں سے تھے، سو انہیں لکھنے کا ڈھنگ آہنگ بھی اوائل عمری میں آ گیا تھا۔ لکھنے کے لگے بندھے اصولوں کے وہ قائل نہ تھے، سو انہوں نے چل پھر کے اور گھاٹ گھاٹ کے پانی پینے ہی میں دانش مندی کا ثبوت دیا، اور اصل حقیقت اور اصل بات کی تہیہ تک اتر جانے ہی میں اپنی بقا اور شناخت سمجھی۔ شخصیت پرستی کے طلسم کو اور شرم و جھجک کو بالائے طاق رکھتے ہیں، سو ان کے کیے گئے اور لکھے گئے خاکے اور انٹرویو سب سے الگ مستند اور تاریخ کا ریفرنس قرار پائے ہیں۔

دنیا کی وہ شخصیات جن کی ایک جھلک دیکھنے کو لوگ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ ان عہد ساز اور تاریخ ساز شخصیات کو آپ نے اپنی دانشورانہ گفتگو اور نکتہ آفریں سوالوں سے ایسا لبھایا کہ چند منٹ کی گفتگو گھنٹوں بلکہ بعض حالات میں دنوں پر محیط ہو گئی، ایسے با کمال شخصیات تک رسائی ایک الگ دل چسپ داستان بن گئی، جو کہ قاری کو اس کتاب میں پڑھنے کو ملتی ہے۔

” لوگ در لوگ“ انہی عبقری ہستیوں کی جمال و احوال کی مثنوی یوسف ہے، جو نثر میں فرخ سہیل گوئندی کی ایک یادگار اور کتاب ہے۔ صحافتی انٹرویو کا ایک عالم گیر اصول یہ ہے کہ انٹرویو لینے والا انسانی نفسیات کو سمجھتا ہو اور انٹرویو کرنے والی شخصیت کی مکمل بیک گراؤنڈ ہسٹری جانتا ہو۔ اس کی خوبیاں خامیاں کامیابیاں اور نا کامیوں سے خوب واقف ہو اور اس کی دل چسپیوں اور پورٹ فولیو سے تو ہر صورت واقف ہو۔ یوں وہ شخصیات انٹرویو دیتے اپنی شخصیت کے گرد خود ساختہ پرتیں اور لبادہ اتارتے چلے جاتے ہیں۔ لگے بندھے اسٹیریو ٹائپ سوالات سے باغی فرخ سہیل گوئندی نے بات سے بات نکالنے کا ہنر بھی ہاتھ میں قابو رکھا۔ مد مقابل شخصیات کے یہاں چائے پیسٹریوں اور کھانے پینے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ان کے چہروں کو پڑھنے کا فن سیکھا۔ کیوں کہ اس لمحے خاموش چہرہ بہت کچھ بول رہا ہوتا ہے، جو لذت کام و دہن کی ذہنیت والے صحافی اور اینکر کسی صورت نہیں پڑھ سکتے تھے۔

لوگ در لوگ کا موضوع ایک پر شور عہد کا وہ تاریخی بیانیہ ہے، جو عہد ساز نامور ہستیاں نے اپنے اپنے کتھا میں گوئندی کو گواہ بنا کے قرطاس و قلم میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر وا لیں تھیں۔ کیوں کہ وہ عہد ساز لوگ جانتے تھے کہ فرخ دیانت دار، مزاحمت سے آشنا اور اختلاف جرات اور سٹیٹس کو کو للکارنے والا دانشور، سیاسی مدبر اور صاحب فکر صریر ہے۔

لوگ در لوگ میں شخصیتوں کے خاکوں کے علاوہ ان سے وابستہ ادوار اور اس عہد کے سیاسی حقائق کو اپنے مخصوص خوش نما اسلوب سے کام لیتے ہوئے صاحب کتاب نے ان حقائق کو دل چسپ فکر انگیز اور معنی خیز داستان میں سمو دی ہے اور ساتھ سیاسی شعور اور ادبی نثر کو بھی بلندی تک لے کے چلے ہیں، جس سے قاری کو اک طلسم کدہ میں کھو جانے کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔

گفتگو میں دوسروں کے فلسفے کو عام فہمی سے آراستہ کرتے ہیں، اور اپنی ذات کو کہیں بھی کسی پر نہ حاوی کرتے ہیں اور نہ کسی سے متاثر نظر آتے ہیں، البتہ ستائش و توقیر کو فراخ دلی سے بانٹتے نظر آتے ہیں، یہی گوئندی کے بڑے پن اور کمال حسن ظن کا عمومی رویہ نظر آتا ہے۔

لوگ در لوگ کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے، پہلا 2019ء میں چھپ کے قارئین اور ادبی ناقدین سے پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ کتاب میں مروج خاکوں کو لکھنے کے لگے بندھے اصولوں سے ہٹ کے دوستانہ انداز اختیار کیا، شخصیات کی تصویر کشی کو ایسے پورٹریٹ کیا گیا کہ ان شخصیات کے مخالف سکول آف تھاٹ بھی داد دینے پر مجبور ہو گئے ہوں گے۔ اور یہ فرخ سہیل گوئندی کا کمال ہے کہ ایسے چبھتے، دل آزاری اور مخالفین کو رگیدنے والے سوالات جس سے کسی کی تضحیک ہو، کسی کے احترام میں کمی اور بہتان طرازی کا احتمال ہو، ایسی گفتگو اور تحریر سے گریز کیا گیا ہے۔

لوگ در لوگ میں ہر شخصیت کو مناسب اور متوازن رکھا گیا ہے، یعنی ہر ایک کو پورا وقت اپنے موقف دینے کا دیا گیا ہے۔ اس یادگار تاریخی و ادبی کتاب میں لا تعداد تصاویر بھی شامل ہیں۔ وہ تصاویر جو مصنف نے اپنے کیمرے سے اور دوسرے وسائل سے حاصل کی ہیں۔ کتاب کا حسن اور ادبی نثر کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے ہر شخصیت کے پروفائل کو ایک ادبی پیراہن میں سجایا گیا ہے، جیسے ابدی نیند سوئے ہوئے دوست سے ملاقات، اردنی شہزادے کو تاج بادشاہی نہ مل سکا، بیروت کا قصاب اور ایک ادیب، بھٹو پر فلم کی کہانی، سوبھا سنگھ ادھی دلی دا مالک، فصیل لاہور کا ادیب، مدیحہ گوہر کا جلوس، خشونت سنگھ ساڈھا چھورا، ملک معراج خالد کا احترام آدمیت، حاجی مستان مرزا وغیرہ۔

لوگ در لوگ میں خود مصنف اس طرح گویا ہوتے ہیں:
”لوگ در لوگ ان واقعات اور تجربات پر مشتمل ایک کتاب ہے، جنہیں میں نے اپنی سیاسی جد و جہد، قلمی میدان اور عملی زندگی کے دوران میں دیکھا، بیتا یا محسوس کیا، جب آپ کم عمری میں سیاسی ایکٹوسٹ بن جائیں، دنیا کے مختلف ممالک کی خاک اڑانے کے تجربات اور اس کے ساتھ ساتھ قلم کے میدان میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیں، تو یقیناً ایسے میں لا تعداد لوگوں سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے۔ بحیثیت پولیٹکل ایکٹوسٹ مجھے عام شہری، مل مزدور، ریڑھی بان، سیاسی رہنما سے لے کر ملک اور دنیا کے لا تعداد معروف لوگوں سے ملاقاتوں کے تجربات ہوئے۔

سڑکوں پر عوامی حقوق کی جد و جہد کرنے والوں سے لے کر وزرائے اعظم، صدور اور شاہی حکمرانوں تک، اس پولیٹکل ایکٹوازم میں، میں نے چوں کہ علم و فکر کے سفر کو بھی اپنایا، اس لیے ملک سے باہر عالمی شخصیات تک رسائی ممکن ہو گئی۔ عملی زندگی کے اس سفر کے دوران میں ان بیشتر لوگوں یا شخصیات نے مجھے اپنے حلقۂ دوستی میں شامل کر لیا، اپنی زندگی کے انہی واقعات و تجربات کا کچھ حصہ میں نے لوگ در لوگ میں رقم کر دیا ہے، اپنے عالمی سفروں کے دوران میں جن لوگوں سے ملنے بیٹھنے اور ملاقاتوں کے جو مواقع میں نے حاصل کیے وہ اپنے اپنے مقام پر دنیا کے معروف اور تاریخ ساز لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ اس کتاب کا حصہ ہیں، لیکن بحیثیت سیاسی جہاں گرد معروف لوگوں سے ہی نہیں بلکہ مختلف سماجوں کے مشاہدات کا تجربہ بھی میری اولین ترجیح میں شامل تھا۔”

حرف آخر:
لوگ در لوگ میں راقم الحروف کا ایک تجزیہ بھی دوسرے ایڈیشن کے فلیپ میں شامل ہے، یوں میرے مطابق:
فرخ سہیل گوئندی، فکر فردا کا روشن استعارہ ہیں، وہ پاکستان کے جدید مؤرخ، سیاحت نگار اور سیاسی و ادبی دانشور ہیں۔ آپ کی لکھی بہت سی کتابیں پاکستان کے سیاسی اور سماجی عہد کی بھر پور عکاسی اور حقیقی تصویر کو ہمارے سامنے لاتی ہیں۔ دنیا بھر کی سیاحت اور جہاں گردی نے آپ کے قلم کو ایک نئی جہت، نئے زاویے اور تازہ عالمی بیانیہ عطا کیا۔ آپ پاکستان کے واحد لکھاری اور واحد سیاح ہیں، جو ہر سال دنیا گھوم پھر کر اس کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی سماجی تمدنی اور تہذیبی صورت حال اور ترقی کو کتابوں، ویڈیوز اور براہ راست لیکچرز کے ذریعے عوام تک پہنچاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).