جنگلی حیات کا تحفظ: انڈیا کا ڈاکٹر جس نے ہزاروں ہاتھیوں کی جان بچائی


ڈاکٹر سرما، ہاتھی
ڈاکٹر سرما کہتے ہیں کہ انھوں نے 10 ہزار سے زیادہ ہاتھیوں کا علاج کیا ہے
انڈیا میں ڈاکٹر کشال کنور سرما پیار سے جنگلات کے قبائلی برادری میں ’ہاتھی کے ڈاکٹر‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ بی بی سی ہندی کے دلیپ کمار شرما لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر سرما نے اپنی زندگی کے 35 سال ہاتھیوں کی دیکھ بھال میں گزارے۔ انھوں نے انڈیا اور انڈونیشیا کے جنگلات میں ہزاروں ہاتھیوں کی جانیں بچائی ہیں۔

ڈاکٹر سرما کہتے ہیں کہ ’جب میں ہاتھیوں کے آس پاس ہوتا ہوں تو میں سب سے زیادہ خوش رہتا ہوں۔ میں نے اپنے کنبے سے زیادہ ہاتھیوں کے ساتھ وقت گزارا ہے۔‘

60 سالہ ڈاکٹر سرما انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے برما نامی ایک گاؤں میں پلے بڑھے۔ 2017 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق ملک میں 27 ہزار سے زیادہ ہاتھیوں میں سے تقریباً پانچ ہزار آسام میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

دریائے سوات کی تیز لہروں سے کتے کو بچانے والے افسر خان کون ہیں؟

مشرقی بنگال میں جلتے ہوئے ہاتھی

درخت سے بغل گیر شیر اور بندر کا پرسکون انداز

بلّی جو لفٹ لے کر دنیا کے سفر پر نکل پڑی

ان کا کہنا ہے کہ وہ ہاتھیوں کی ’زبان‘ کو سمجھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ’ان کو کھانا کھلانے کے علاوہ میں ان کے ساتھ اشاروں کے ذریعے بات چیت کرتا ہوں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اب یہاں کے زیادہ تر ہاتھی مجھے پہچانتے ہیں۔‘

ڈاکٹر سرما کو اس سال کے آغاز میں ان کے کام کے لیے انڈیا کے اعلیٰ شہری اعزاز پدم شری سے نوازا گیا۔ ان کے اپنے اندازے کے مطابق وہ اب تک 10 ہزار سے زیادہ ہاتھیوں کا علاج کر چکے ہیں۔

اس کی شروعات 1984 میں ہوئی تھی جب انھوں نے پہلی بار اپنے سرپرست پروفیسر سبھاش چندر پاٹھک کی رہنمائی میں ایک بیمار ہاتھی کا علاج کیا تھا۔

ڈاکٹر سرما کہتے ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں پہلی بار ہاتھیوں کے علاج کے لیے ان کے ساتھ مانس نیشنل پارک گیا تھا۔ اس دن میں بہت پُرجوش تھا۔‘

ملک میں 27 ہزار سے زیادہ ہاتھیوں میں سے تقریباً پانچ ہزار آسام میں ہیں

انڈیا میں 27 ہزار سے زیادہ ہاتھیوں میں سے تقریباً پانچ ہزار آسام میں ہیں

ہاتھیوں سے ان کا تعلق ان کے بچپن سے ہی جڑ گیا جب ان کے گھر والوں نے لکشمی نامی زن ہاتھی کی دیکھ بھال کی تھی۔

’جب میں سات سال کا تھا تو میں لکشمی پر بیٹھ کر گاؤں کے آس پاس جایا کرتا تھا۔ یہ اس ہاتھی کی میری سب سے واضح یادوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح مجھے ہاتھیوں سے محبت ہوئی۔‘

ہاتھیوں کے ساتھ اس محبت اور رشتے نے ریاست میں خاص طور پر بارش کے موسم میں انھیں سب سے زیادہ اہم ڈاکٹر بنا دیا ہے۔ خاص طور پر آسام میں شدید سیلاب کا خطرہ رہتا ہے جس سے اکثر جانور بھی خطرے میں رہتے ہیں۔

ریاست کا کازیرنگا نیشنل پارک جو کہ یونیسکو کے تحت ایک ثقافتی مقام ہے ایک ایسا ہی علاقہ ہے جو بارش سے متاثر ہوتا ہے۔ جولائی میں ریاست میں سیلاب آیا تھا جس میں حکام کے مطابق پارک میں کم از کم 51 جانوروں کی موت ہو گئی تھی۔

ڈاکٹر کشال سرما جو اکثر جانوروں کی جان بچانے کی کوششوں میں سرکار کی مدد کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ’پارک میں سیلاب کے موسم میں جانوروں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بہت سے جانور مر جاتے ہیں اور یہاں تک کہ کئی ہاتھی سیلاب میں بہہ بھی جاتے ہیں۔‘

’یہ عام بات ہے کہ ہاتھیوں سے ان کے بچے جدا ہو جائیں۔ ایسے حالات میں انھیں اضافی نگہبانی اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے میں سیلاب کے دوران مدد کرتا ہوں۔‘

ضروری نہیں کہ سرکاری طور پر سیلاب کے دوران انھیں ہمیشہ مدد کرنے کے لیے بلایا جائے۔ ’لیکن میں ہمیشہ جاتا ہوں کیونکہ میری کوشش رہتی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ جانوروں کو بچا سکوں۔‘

ڈاکٹر سرما کو اپنے کام سے محبت ہے لیکن وہ جانتے ہیں اس میں بہت خطرات بھی ہیں

ڈاکٹر سرما کو اپنے کام سے محبت ہے لیکن وہ جانتے ہیں اس میں بہت خطرات بھی ہیں

ڈاکٹر سرما نے آسام میں تین لاکھ کلومیٹر سے زیادہ گھنے جنگل کا احاطہ کیا ہے، ہزاروں ہاتھیوں کا سامنا کیا ہے اور ان کا علاج کیا ہے۔ لیکن ان کے بچپن کے زمانے کے ہاتھی کے علاوہ ایک اور جو ان کے دل کے قریب ہے وہ ہے گیتا، ایک زن ہاتھی جو کازیرنگا نیشنل پارک میں رہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ایک بار جب میں امریکہ گیا تھا تب مجھے خبر ملی کہ کسی نے گیتا کو کازیرنگا نیشنل پارک میں گولی مار دی ہے۔ خوش قسمتی سے پانچوں گولیوں میں سے کسی نے بھی اس کے اہم اعضا کو چوٹ نہیں پہنچائی لیکن اس کی وجہ سے میں کافی پریشان تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ وہ انڈیا واپس جانے کے لیے اپنے دورے کو ترک کرنے کا سوچتے رہے۔

’لیکن اس کے بجائے میں نے فون پر گیتا کے علاج میں مدد کی۔‘

جیسے ہی وہ ایک ہفتے بعد انڈیا واپس آئے، گیتا سے ملنے کے لیے سیدھے پارک چلے گئے۔

کازیرنگا نیشنل پارک میں بارش كے موسم میں جانوروں کو زیادہ خطرہ ہے

کازیرنگا نیشنل پارک میں بارش كے موسم میں جانوروں کو زیادہ خطرہ ہے

’میں نے اسے یقین دلایا کہ میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کروں گا اور میں اس کے جسم سے تمام گولیوں کو نکالوں گا۔ دھات کی نشاندہی کرنے والے میٹل ڈیٹیکٹر کے ذریعے گولیوں کا پتا لگانے کے بعد میں نے پہلی تین گولیوں کو سرجری سے ہٹایا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ دیگر دو بُلٹ اس کے جسم کی گہرائی میں تھے جس سے انھیں نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔ ’لیکن میں نے اپنا علاج جاری رکھا اور آخر کار پانچ سرجریوں کے بعد آخری گولی بھی اس کے جسم سے نکال لی۔ میری پیاری گیتا ابھی بھی زندہ ہے اور بہت صحت مند ہے۔‘

اگرچہ ڈاکٹر سرما کو اپنے کام سے محبت ہے لیکن وہ جانتے ہیں اس میں بہت خطرات ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس ذمہ داری کے لیے کئی بار اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالا ہے۔ ’میں اکثر سوچتا ہوں کہ میں کیسے زندہ بچ گیا؟‘

’ایک بار میں نے ایک جنگلی ہاتھی کا علاج کرنے کے لیے اسے نشہ آور دوا کے ذریعے بے ہوش کرنے کی خاطر ساری رات درخت پر گزاری تھی۔‘

لیکن ان سارے خطرات کے باوجود ڈاکٹر کشال کنور سرما کا کہنا ہے کہ ان کا کام اطمینان بخش رہا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کو متاثر کرنے کی امید رکھتے ہیں جنھوں نے ویٹرنری سائنس میں ڈگری حاصل کی ہے اور اکثر ان کے کام میں مدد کرتی ہیں۔

’میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی میرے بعد ہاتھیوں کے علاج کی ذمہ داری نبھالے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp