عمران خان چھ سال بعد پارلیمنٹ حملہ کیس میں باعزت بری


تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان نے 31 اگست 2014 کو پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب مارچ کیا تھا۔
پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے وزیرِ اعظم عمران خان کو چھ سال بعد پارلیمنٹ حملہ کیس میں باعزت بری کر دیا ہے۔ اس دوران تصادم میں ہلاکتوں پر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف درج مقدمہ خارج کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ بھی محفوظ کر لیا گیا ہے۔

عدالت نے منگل کو جاری کردہ اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ صدر عارف علوی کا کیس صدارتی استثنیٰ کے باعث داخل دفتر ہی رہے گا جب کہ وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، پرویز خٹک اور اسد عمر پر فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 12 نومبر کو طلب کر لیا ہے۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے پہلے سے محفوظ کردہ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

فیصلے کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان کی درخواست پر اُنہیں بری کرتے ہوئے صوبائی وزیر علیم خان اور شوکت یوسف زئی جب کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو آئندہ سماعت پر طلب کیا ہے۔

عدالت نے پاکستان عوامی تحریک کے مبشر علی کو بھی بری کر دیا جب کہ عدالتی فیصلے میں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کو بدستور اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔

دہشت گردی کے مقدمات میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی عبوری ضمانت منظور

وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے تحریری دلائل میں کہا گیا تھا کہ اُنہیں جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت ہیں نہ کسی گواہ نے ان کے خلاف بیان دیا۔ یہ سیاسی مقدمہ ہے جس میں سزا کا کوئی امکان نہیں اس لیے اُنہیں بری کیا جائے۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پارلیمنٹ حملہ کیس میں اشتہاری رہ چکے ہیں اور بریت کے فیصلے سے قبل وہ ضمانت پر تھے۔

اس کیس میں استغاثہ نے بھی عمران خان کی بریت کی درخواست کی حمایت کی تھی۔

یاد رہے کہ 31 اگست 2014 کو تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب مارچ کیا تھا۔ اس دوران شاہراہ دستور پر دونوں جماعتوں کے کارکنان کی پولیس سے رات بھر جھڑپیں ہوتی رہیں۔

‘جب دھرنے والوں میں ہزار، ہزار روپے بانٹیں گے تو یہی ہوگا’

پولیس کی طرف سے شدید آنسو گیس فائر کی گئی جب کہ مظاہرین نے لاٹھیوں، ڈنڈوں سے پولیس کو نشانہ بنایا۔

پراسیکیوشن کے مطابق دھرنے کے دوران تین افراد ہلاک، 26 زخمی ہوئے جب کہ 60 کو گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس نے دھرنے کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پارٹی رہنماؤں ڈاکٹر عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اعجاز چوہدری اور دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

نواز شریف کے خلاف درج مقدمے پر فیصلہ محفوظ

دھرنے کے دوران تحریک انصاف کے کارکنان کی ہلاکت پر شاہ محمود قریشی کی مدعیت میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم مقدمے کے تفتیشی افسر نے نواز شریف کو کلین چٹ دے دی تھی۔

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے کئی بار شاہ محمود قریشی سے جواب طلب کیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے منگل کو سماعت کے دوران کہا کہ نواز شریف کے خلاف درج مقدمہ خارج ہو گا یا نہیں اس پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کے وکیل شاہد نسیم گوندل نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس نے نواز شریف کے خلاف اخراجِ مقدمہ کی رپورٹ بناتے وقت قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے مدعی کو نوٹس ہی نہیں کیا جس پر جج راجہ جواد عباس نے ریمارکس دیے کہ یہ جوڈیشل نہیں بلکہ ایڈمنسٹریٹو آرڈر ہے۔ آپ کو سن لیا ہے آئندہ ہفتے فیصلہ کر دیں گے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa