راولاکوٹ: شہریوں کے تشدد کا نشانہ بننے والے سکیورٹی اہلکاروں کا تعلق کس محکمے سے تھا؟


دو روز قبل پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ سوشل میڈیا پر خاصی بحث کا باعث بنا رہا۔ بدھ کے روز سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ درجنوں افراد ایک سفید ڈبل کیبن گاڑی کے گرد جمع ہیں جس کی ونڈ سکرین ٹوٹ چکی ہے اور مقامی افراد گاڑی میں موجود افراد سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔

یہ افراد اپنی شناخت فیڈرل انویسٹیگیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کے اہلکار کی حیثیت سے کرواتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ یہاں ایک ملزم کو گرفتار کرنے آئے ہیں جس کے لیے ان کے پاس وارنٹ بھی موجود ہے۔

اتنے میں پولیس اہلکار ان کی گاڑی کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور بعد میں انھیں اس بھیڑ سے بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اس دوران سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں ان اہلکاروں سے سوالات اور مجمعے کی جانب سے لگائے جانے والے نعروں کے باعث اکثر افراد کا خیال تھا کہ یہ مبینہ طور پر پاکستان کے کسی خفیہ ادارے کے اہلکار ہیں جو یہاں کسی شہری کو جبری طور پر حراست میں لینے آئے ہیں۔

دوسری جانب انڈیا میں بھی متعدد افراد نے سوشل میڈیا پر اس کو پاکستان کے خفیہ اداروں کی کارروائی قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی۔

صارف امجد نواز خان نے، جن کا تعلق بظاہر کشمیر سے دکھائی دیتا ہے، ٹوئٹر پر لکھا: ’شاباش راولاکوٹ کے شہریوں۔ پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسی نے راولاکوٹ سے لڑکوں کو اغوا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی کیونکہ یہ بلوچستان یا فاٹا نہیں۔ ہم اس شرمناک عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم اپنے لوگوں کو ہراساں یا اغوا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

صارف اسرار خان نے لکھا: ’راولاکوٹ والوں نے پہلی کوشش ہی ناکام بنا دی۔ راولاکوٹ کی بہادری کو سرخ سلام!‘

صارف عاطف مقبول نے لکھا: ’میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولاکوٹ میں جس انداز میں جمہوریت کا قتل عام کیا گیا اس کی مذمت کرتا ہوں۔ قانون کے نام پر کسی اور ریاست کے شہری کو بغیر کسی اطلاع کے اغوا کرنے کا قانون کہاں ہے؟ ایسے واقعات بدقسمتی ہیں۔‘

بی بی سی نے ضلعی مجسٹریٹ اور ایف آئی اے کے دستاویزات کے ذریعے اس بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا مؤقف

ضلع پونچھ راولاکوٹ کے ضلعی مجسٹریٹ کی جانب سے جاری کیے جانے والے پریس نوٹ میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 28 اکتوبر کو دن ساڑھے 12 بجے کے قریب تھانہ پولیس سٹی راولاکوٹ میں ایک اطلاع موصول ہوئی کہ ایک سفید ڈبل کیبن گاڑی میں سوار افراد نے مقامی ہوٹل کے پاس سے ایک شخص کو اغوا کرنے کی کوشش کی اور اس کے شور مچانے پر مقامی افراد جمع ہو گئے اور انھوں نے اس شخص کو ان کی تحویل سے چھڑوایا۔

ان کے مطابق اطلاع موصول ہوتے ہی مقامی پولیس نے موقع پر پہنچ کر گاڑی میں سوار افراد کو ہجوم سے بچایا اور تھانے لے آئی۔ جب ان افراد کی شناخت دریافت کی گئی تو معلوم ہوا کہ ان کا تعلق ایف آئی اے اسلام آباد سے ہے۔

پریس نوٹ کے مطابق یہ افراد عدالتی وارنٹ کی بنیاد پر اس شخص کو گرفتار کرنے کے لیے راولاکوٹ آئے تھے جس پر ’لوگوں کو بیرونِ ملک لے جانے کے لیے جھانسہ دے کر لاکھوں روپے ہتھیانے کا الزام ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ جس دوران ہنگامہ آرائی ہوئی تو مذکورہ اہلکاروں نے محکمہ داخلہ اور مقامی پولیس کو مطلع کیے بغیر گرفتاری کی کوشش کی۔

’ان اہلکاروں کے اس طرز عمل کے بارے میں ایف آئی اے کو مطلع کر دیا گیا ہے اور ان افراد کے خلاف بھی ضابطے کے تحت تحقیقات کی جائیں گی جنھوں نے نامناسب رویہ اختیار کیا اور قانون اپنے ہاتھوں میں لیا۔‘

مقامی انتظامیہ کے مطابق مذکورہ مبینہ ملزم کو ایف آئی اے کے اہلکاروں کی جانب سے جوں ہی گرفتار کرنے کی کوشش کی گی تو مقامی افراد کی جانب سے مزاحمت پر وہ موقع سے فرار ہو گیا۔

ان کے مطابق اگر اس خطے کے محکمہ داخلہ کی جانب سے مقامی انتظامیہ کو اس کے متعلق کوئی تحریری حکم ملتا تو مقامی انتظامیہ گرفتاری میں ان کی ہر ممکن مدد کرتی۔

ایف آئی اے جس مبینہ ملزم کو گرفتار کرنا چاہتی تھی اس کے خلاف گزشتہ برس اپریل میں راولپنڈی میں مقیم ایک شخص جاوید بٹ نے درخواست دی تھی جو خود بیرون ملک افرادی قوت بھیجنے کا کاروبار کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سنہ 2019 میں میرا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی کے ایک شخص کے ذریعے مذکورہ ملزم سے ویزوں کے حصول کے لیے رابطہ ہوا جس کے والد بحرین کے ایک بینک میں اچھی پوزیشن پر کام کرتے ہیں کیونکہ میرا آبائی تعلق بھی اس خطے سے ہے، جس بنا پر میرا اس شخص پر اندھا اعتماد تھا۔‘

جاوید بٹ نے الزام عائد کیا کہ ویزوں کے حصول کے لیے انھوں نے مذکورہ شخص کو 27 لاکھ ستر ہزار ادا کیے اور مذکورہ شخص نے انھیں 40 ویزے دینے تھے مگر انھوں نے پہلے 23 ویزے فری زون کے دیے جو جعلی تھے۔

جاوید بٹ کے مطابق اس شخص کی پشت پر ایک بڑا گروہ ہے جس میں عرب ممالک کے کچھ مقامی افراد بھی ملوث ہیں اور اس گروہ نے وزٹ ویزے حاصل کر کے اس میں جعلسازی کی تھی۔

ان کے مطابق مذکورہ شخص اس خطے کے متعدد افراد سے فراڈ کے ذریعے کروڑوں روپے ہڑپ کر چکا ہے اور مظفرآباد میں مقیم ایک شخص کے ساتھ فراڈ کی ایف آئی آر ایف آئی اے کے پاس درج ہے۔

جاوید بٹ نے یہ بھی بتایا کہ یہ شخص 48 سمز استعمال کرتا ہے مگر ایک بھی سم اس کے نام پر نہیں اور مذکورہ شخص کے ملنے والے مختلف نمبرو‍ں پر کال کی گئی مگر وہ نہیں لگ رہے تھے۔

مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور دلدار حسین نے بتایا کہ ’مذکورہ شخص نے مجھ سمیت میرے عزیز و اقارب سے میرے زریعے 23 ویزوں کے لیے 20 لاکھ وصول کیے مگر جب ویرے لینے گئے تو مذکورہ شخص نے ایف آئی اے کے تھانیدار کے ساتھ ملکر مجھے ہی گرفتار کروا دیا اور مجھے سترہ روز جیل میں گزارنے پڑے۔

ان کے مطابق انھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے فراڈ کی ایف آئی آر ایف آئی اے میں گزشتہ برس درج کروائی تھی جس پر کارروائی ہونا باقی ہے۔

کیا کوئی وفاقی ادارہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے کسی ملزم کو براہ راست گرفتار کر سکتا ہے؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ کے سینئیر قانون دان سرادر کے ڈی خان سے جب اس سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی گورنمنٹ نے شیڈول تھری کے پارٹ اے کی نسبت ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جس کے تحت وہ براہ راست اس خطے سے کسی بھی فرد یا ملزم کو گرفتار کر سکیں۔ جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے بھی آرٹیکل 19 کے تحت ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جس میں وہ حکومتِ پاکستان کو اجازت دیں کہ وہ اس خطے کے محکمہ داخلہ کو بغیر اطلاع دیے کسی بھی ملزم یا فرد کو گرفتار کر سکیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’اگر ایف آئی اے کو مذکورہ ملزم گرفتار کرنا مقصود تھا تو اس کا قانونی تقاضا یہ تھا کہ وہ اس خطے کے محکمہ داخلہ سے تحریری طور پر معاونت حاصل کرنے کے لیے درخواست کرتے جس کا سربراہ اس خطے کا چیف سیکریٹری ہوتا ہے جو یہاں پاکستان کی حکومت کی جانب سے وفاق کے نمائندہ کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp