ہماری فرانسیسی منافقت


حالیہ چند دنوں سے فرانس کے بائیکاٹ کے حوالے سے مختلف مواد سوشل میڈیا پے ٹویٹر ٹرینڈز، فیس بک پوسٹس اور کالموں کے شکل میں پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں جس میں فرانسیسی برانڈ اور فرانسسی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ مظاہروں کی خبریں نمایاں ہیں۔

یہ سب اس وقت شروع ہوا جب فرانس میں ایک چیچن مسلمان نے ایک فرانسیسی پروفیسر کا سر ذبح کر کے اس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ بے دردی سے قتل کرنے والا نوجوان فرانس میں سیاسی پناہ لے کر رہائش پذہر تھاور فرانس کے ویلفیئر فنڈ سے بھی پیسے لے رہا تھا جس کو اسی روز پولیس نے قتل کے بعد اپنے اوپر حملہ کرنے کے الزام میں مار دیا۔ پولیس انکوائری اور قتل کرنے والے نوجوان کے قریبی لوگوں اور فیملی سے پتا چلا کہ وحشی قاتل نے فرانسیسی استاد کو اس لیے ذبح کیا کیونکہ استاد نے اپنے اسکول میں آزادی اظہار کے لیکچر کے حوالے سے کچھ مواد اپنے اسکول کے بچوں کو دکھایا تھا حالانکہ استاد نے اس لیکچر سے پہلے مسلمان شاگردوں سے کلاس سے بایر جانے کا کہا تھا مگر ایک مسلمان شاگرد جو کہنے کے باجود بھی کلاس میں موجود رہا اور پھر بعد میں اسی شاگرد نے اپنے گھر والوں کو اس واقعے کے متعلق آگہی دی جس سے بات اس چیچن نوجوان تک پہنچی اور پھر کچھ مساجد نے بھی اپنے فیس بک پیج پر اس واقعے کی مذہبی اشتعال انگیزی کی۔

اس وحشیانہ اور بے دردی سے قتل کرنے والے استاد کی موت نے آزاد سیکولر فرانسیسی معاشرے میں بہت سے سوالوں کے ساتھ ساتھ وحشت کو بھی جنم دیا اور فرانسیسی معاشرے اور بشمول فرانسسی صدر نے اس لرزہ خیز قتل کی ہر طرح سے بھرپور اور شدید لفظوں میں مذمت کی اور فرانسیسی صدر نے اس واقع کو اظہار رائے کی آزادی کے خلاف قرار دیا اور فرانس نے اس وحشیانہ قتل کو اسلامی شدت پسندی قرار دیا۔

منافقت کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں سب سے پہلے ترکی کے صدر طیب اردگان کی طرف فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون کے بارے میں بیان نظر آتا ہے جس میں اس نے نہ صر ف اس اسے مذہب اسلام کے خلاف سازش اور نازیبا قرار دیا بلکہ ترکی کے صدر نے کہا کہ ’فرانسیسی صدر کو دماغی علاج کی ضرورت ہے‘ ۔ مگر ہم ترکی کے صدر کی پالیسیوں اور فیصلوں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ منافقت صاف اور واضح نظر آئے گی کہ ترکی کے صدر نے اسی سال جولائی میں اپنے ملک میں عیسائی مذہب کے ایک بہت ہی پرانے چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا یہ ہی نہیں بلکہ اردگان ایک اور چرچ کو بھی مسجد میں تبدیل کرنے جا رہے ہیں مگر فرانس کے صدر یا اور کسی ملک کے صدر نے ترکی کے صدر کو نہ دماغی علاج کا مشورہ دیا نہ ہی ترکی کے مصنوعات کی بائیکاٹ کا۔

ترکی اپنے ملک میں اپوزہشن ارکان کو کس طرح دہشت گردی کی چادر اوڑھ کر تشدد کا نہ صرف نشانہ بناتا ہے بلکہ گرفتار کر کے بنا کسی عدالتی اور قانونی کارروائی کے جیلوں میں بھی ڈال چکا ہے جن میں ہزاروں کی تعداد میں صحافی بھی شامل ہیں اور وہ سب کے سب مسلمان ہیں وہ کسی بھی دہشت گردی کے مرتکب نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی صحافی نے کسی معصوم استاد کا سر قلم کیا بلکہ ان تمام مسلمانوں کا جرم اتنا تھا کہ انھوں نے اردگان کی پالیسوں کے متعلق سوال اٹھائے اور آرٹیکل لکھے۔

دوسری منافقت پر نظر دوڑائیں تو ہماری نظر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان پر آ کر رک جاتی ہے عمران خان نے اپنے ٹیوٹر اکاؤنٹ پے فرانسیسی صدر کے اظہار آزادی کو نہ صرف اسلام فوبیا کہا بلکہ اس کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس نے فیس بک کے مالک کو بھی خط لکھ کر کہا کہ اسلام فوبیا کے حوالے سے فیس بک پوسٹوں کو بلاک کر دیا جائے۔

مگر دوسری طرف اگر ہم پاکستان میں مسلمانوں اور دوسرے مسالک کی حالت پر نظر دوڑائیں تو ان مسلمانوں اور دوسرے مسلک کے لوگوں کی حالت فرانس کے مسلمانوں سے نہ صرف نیچے ہے بلکہ انتہائی قابل رحم ہے۔ پاکستان میں مسلمانوں کو روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف تشدد اور نفرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ قتل بھی کیا جاتا ہے، اور تو اور پاکستانی آئین بھی کسی غیر مسلم شہری کو صدر پاکستان کے عہدے کے لائق نہیں سمجھتا اور نہ ہی قانونی اجازت دیتا ہے یہی نہیں اس کے ساتھ شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلک کے لوگوں کو بھی پاکستان میں مذہبی تفریق پے نہ صرف قتل کر دیا جاتا ہے بلکہ ان کی مذہبی جگہوں کو نذرآتش کیا جاتا ہے یا اور نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

عمران خان کو سات ہزار میل دور فرانس کے مسلمانوں کی خبر تو ہو جاتی ہے مگر ان کو ہمسایہ ملک چین میں مسلمانوں کے اذیت ناک حالات اور واقعات کی خبر نہیں پہنچتی۔ اگر کبھی عمران خان سے کوئی غیر ملکی صحافی چین میں جاری اویغور مسلمانوں کے اوپر ریاستی مظالم اور اذیت ناک سلوک پے اپنے انٹرویو میں سوال پوچھتا ہے تو وزیر اعظم پاکستان عمران خان یہ کہہ کہ جان چھڑاتے ہوئے لاتعلقی کرتے ہیں کہ وہ اس سے لا علم ہیں اور اس کو اس طرح کے مظالم کی کوئی خبر نہیں۔ اس سے بڑھ کر اور منافقت کیا ہوگی؟

میں بحیثیت مسلمان اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ فرانس میں پندرہ سال سے مقیم ہوں اور میری طرح سینکڑوں مسلمان فرانس میں نہ صرف آزادی اور بنا کسی تفریق کے رہتے ہیں بلکہ ان سب کو انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کی مکمل آزادی بشمول تمام فرانسیسی عوام کے برابر اور یکساں حقوق حاصل ہیں۔ فرانس نے اس وحشیانہ قتل کے بعد ابھی تک جو بھی اقدام کئے ہیں وہ مسلمانوں کے خلاف بالکل نہیں ہیں بلکہ مذہبی شددت پسندی اور دہشگردی کے خلاف ہیں۔ جس مسجد کو بند کیا گیا ہے انھوں نے اپنے فیس بک پے اس واقعے میں اشتعال انگیزی کی تشہیر کی تھی اور جن لوگوں کو تفتیش کے لئے گرفتار کیا تھا ان سب کو بالواسطہ یا بلاواسطہ اس واقعہ اور واقعہ سے متعلق تشہیر کرنے میں ملوث ہونے کے ثبوت کی بنا پر گرفتار کر کے شامل تفتیش کیا گیا ہے مگر فرانس میں آٹھ ملین مسلمان اپنے روز مرہ کاموں اور مسجدوں یا دوسری عبادت گاہوں میں بالکل آزاد ہیں۔

میرے خیال میں نہ صرف فرانسیسی قانون اور معاشرہ بلکہ دنیا کا کوئی بھی ملک یا امن پسند معاشرہ اس طرح کے وحشیانہ لرزہ خیز قتل کو معمولی سمجھ کر فراموش نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).