اللہ، شاہ رگ سے بھی قریب


آج میری سب سے اچھی دوست میرے پاس آئی اور ہم کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ باتیں کرتے کرتے اس نے مجھے اپنے آنے کا مقصد بتایا اور میری سوچ کو بہت گہرا کر گئی۔ میرے بیٹے نے اپنی ایک چھوٹی سی بات مجھ سے منوانے کے لئے میری دوست کا سہارا لیا۔ مجھے بہت عجیب بھی لگا اور افسوس بھی ہوا۔ میرا بیٹا جسے میں نے اتنے پیار سے اپنے خون سے سینچا۔ اپنی ہر خواہش کو پس پشت رکھ کر اس کی خواہش کا خیال رکھا۔ اپنے بیٹے کی خوشی میں اپنی خوشی دیکھی اور اس کی تکلیف میرے دل کو چھلنی کر جاتی۔

میرے بیٹے کے اس قدم نے مجھے اپنی ذات کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ کیا میں ایک اچھی ماں نہیں ہوں؟ کیا میری اولاد مجھ پر اتنا بھی اعتماد نہیں کرتی کہ اپنی کسی خواہش کے لئے خود آ کر مجھ سے طلب کر سکے؟ کیا میرے پیار اور خلوص میں کچھ کمی رہ گئی جو اسے لوگوں کو وسیلہ بنانا پڑ گیا؟ ایسے ہی ہزار سوال میرے دل کو پریشان کرتے رہے اور آخرکار خود پر قابو نہ رکھتے ہوئے میں نے اپنے بیٹے سے اس بابت دریافت کیا تو اس نے نہایت ادب سے مجھے کہا کہ ماں مجھے لگا کہ شاید آپ اپنی دوست کی بات میری بات کی نسبت بہتر سمجھتی اس لئے میں نے ان کو وسیلہ بنانا بہتر سمجھا۔ اور میں مسکرا دی۔ جب میری اولاد بولنا بھی نہ سیکھی تھی تو ان کے ہر لفظ کا مطلب تب بھی میں سمجھتی تھی مگر آج شاید بچے سمجھدار ہو گئے تو ماں کے پیار میں کمی محسوس کرنے لگے ہیں۔

ایسا ہی کچھ ہم سب اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنے رب کے ساتھ کرتے ہیں۔ جو ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے۔ شہ رگ سے بھی قریب ہے اور ایک نطفے سے ہمیں تخلیق کرتا ہے۔ وہ ہمیں تب بھی عطا کرتا ہے جب ہم بیجا ن خون کا لوتھڑا ہوتے ہیں اور اب بھی عطا کر رہا ہے جب ہم اپنی زندگی کا ہر فیصلہ اپنی مرضی سے لیتے ہیں۔ ہم اپنے رب کے پیار اور عطا کے حصول کے لئے وسیلے کیوں ڈھونڈتے ہیں۔ اولاد جتنی بھی بری کیوں نہ ہوں والدین کے لئے اللہ کا بہترین تحفہ ہوتی ہے۔

بالکل اسی طرح مخلوق کتنی بھی گناہ گار کیوں نہ ہو وہ اللہ کو باقی سب جتنی ہی پیاری ہوتی ہے۔ والدین کو ہمیشہ اس اولاد کی سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے جو باقی اولاد کی نسبت سب سے کمزور ہوتا ہے تو کیا اللہ اپنی ایسی مخلوق کو نظر انداز کر سکتا ہے جو کسی بھی صورت کمزور ہو۔ چاہے وہ مالی طور پر ہو یا روحانی لحاظ میں۔

جس کو رب نے اپنے دین کی سمجھ دے دی وہ تو رب کا پیارا ہو ہی گیا مگر کیا باقی مخلوق سے وہ منہ پھیر لے گا؟ کیا باقی مخلوق کو اس تک رسائی کے وسیلے ڈھونڈنے ہوں گے؟ کیا اولاد کو ماں باپ سے کچھ حاصل کرنے کے لئے وسیلے کی تلاش ہوتی ہے یا ماں باپ اپنی کمزور اولاد کو ایک خاص طریق میں سب سے زیادہ عطا کرتے ہیں۔ بس انسان اور اللہ کا رشتہ بھی ایسا ہی ہے۔ کہ جو جتنا کمزور ہوتا ہے رب کو اس کا اتنا ہی خیال ہوتا ہے۔

جو جتنا دور ہوتا ہے رب اتنا ہی اس کو اپنے پاس لانے کی تمنا رکھتا ہے۔ تو جب ہم اپنے اور رب کی محبت کے بیچ فانی وسیلے تلاش کرتے ہیں تو کیا ہمارے رب کو برا نہیں لگتا ہو گا؟ وہ جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے کیا اسے ہمیں عطا کرنے کے لئے کسی کی سفارش کی ضرورت ہے؟ سوچئے اور خود سے سوال کیجیئے کہ اب جب کسی چیز کی طلب ہو گی تو اپنے رب کے حضور خود پیش ہونا ہے یا کسی وسیلے کو تلاش کرنا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).