ایک مکالمہ، مکالمے پر!


پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) مختلف موضوعات پر مکالمے کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔ چند دن قبل اس ادارے کی طرف سے مکالمے (dialogue) کی ضرورت و اہمیت کے موضوع پر ہونے والے ایک مکالمے میں شرکت کا پیغام موصول ہوا۔ ایک سیشن میں گفتگو کی دعوت بھی ملی۔ محدود وقت اور دفتری امور کے انبوہ کثیر کے باوجود حامی بھر لی۔ وجہ یہ کہ چند ماہ قبل مجھے اس ادارے کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ آئی۔ اے۔ رحمان، وجاہت مسعود اور ڈاکٹر مہدی حسن جیسی نامور علمی اور صحافتی شخصیات یہاں پر مدعو تھیں۔ خوبی اس اجتماع کی یہ تھی کہ پاکستان کے مختلف صوبوں سے آئے خواتین و حضرات یہاں موجود تھے۔ ایسے اجتماع مجھے ہمیشہ بہت اچھے لگتے ہیں۔ مختلف ثقافتی اور سماجی پس منظر کے حامل افراد کو سننا، مختلف معاملات پر ان کے فکری رجحان کا مشاہدہ کرنا مجھے نہایت دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والے حالیہ مکالمے میں شرکت کا تجربہ خوشگوار تھا۔ کچھ مقررین کی گفتگو نہایت فکر انگیز تھی۔ حاضرین میں لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، چکوال، فاٹا، سوات، گوجرانوالہ، ڈیرہ اسماعیل خان، ایبٹ آباد، مری اور دیگر علاقوں سے آئے نوجوان اور سینئر اساتذہ شامل تھے۔ یہ خواتین و حضرات ہر سیشن میں اپنا نقطہ نظر پیش کرتے اور اختلافی رائے بھی دیتے رہے۔

پہلے روز زیادہ تر بحث تعلیمی مسائل پر ہوتی رہی۔ رسمی نشستوں کے علاوہ چائے اور کھانے کے وقفوں کے دوران مجھے بہت سے اساتذہ کے ساتھ گفتگو کے مواقع میسر آئے۔ اندازہ ہوا کہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں سے آئے اساتذہ کے تعلیمی مسائل کم و بیش ایک جیسے ہیں۔ معیار تعلیم کی گراوٹ کے بارے میں ہر ایک پریشان تھا۔ بیشتر کا خیال تھا کہ ہمارا تعلیمی نظام رٹو طوطے پیدا کر رہا ہے۔ کچھ اساتذہ میرٹ کی پامالی کا تذکرہ کرتے دکھائی دیے۔

تعلیمی اداروں کے سربراہان کی نا اہلی کا ذکر بھی ہوا۔ ایک معروف کالج پرنسپل کا ذکر سننے کو ملا جو ڈھنگ سے انگریزی کے دو جملے لکھنے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ میں خاموشی سے یہ قصہ سنتی رہی۔ کیا بتاتی کہ یہ سب میرے لئے حیران کن ہرگز نہیں ہے۔ میں بھی چند ایسے گریڈ بیس اور اکیس کے پروفیسروں سے واقف ہوں۔ کالج اساتذہ سے دریافت کیا کہ ان کی تربیت کا کوئی مناسب بندوبست موجود ہے؟ بیشتر نے رائے دی کہ تربیتی پروگراموں کا انتظام کیا تو جاتا ہے، مگر ان میں سیکھنے کے لئے کچھ خاص نہیں ہوتا۔

اسے محض خانہ پری سمجھ لیجیے۔ آنیاں جانیاں۔ یا پھر وقت اور بجٹ کا زیاں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسیوں پر بھی کچھ اساتذہ نے تنقید کی۔ وہی باتیں جنہیں لکھتے بولتے اب طبیعت اوب چکی ہے۔ یعنی استاد کی ترقی کو تحقیقی مضامین سے نتھی کر کے انہیں روبوٹ بنا دیا گیا ہے۔ طالب علموں کی ذہنی اور فکری نشوونما سے زیادہ، اساتذہ کو اپنے کیریئر کی فکر لاحق رہتی ہے۔ آج کا استاد کلاس روم سے زیادہ وقت، کسی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر، دوسرے محققین کے مضامین کو کاپی پیسٹ کرتے گزارتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
نصاب تعلیم کا قضیہ بھی زیر بحث رہا۔ دونوں دن مختلف مقررین اپنی گفتگو میں یہ بتاتے رہے کہ جو کچھ ہمیں نصاب میں پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے، برسوں پڑھنے کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں جو پڑھایا گیا وہ غلط تھا۔ آزادی فکر پر بات چلی۔ آزادی اظہار رائے کا تذکرہ بھی ہوا۔ ظفراللہ خان صاحب نے کہا کہ ہماری جامعات بھی تعلیمی جنگل ہیں۔ جہاں کھل کر بات کرنا مشکل ہے۔ کہنے لگے کہ کمرہ جماعت میں سب سے زیادہ جو الفاظ بولے جاتے ہیں وہ ہیں ”چپ رہو“ ۔ اس بات پر بیشتر حاضرین نے اختلاف کیا۔ بتایا کہ اب وہ زمانے لد چکے۔ کم از کم جامعات کے طالب علم اب سوال کرتے ہیں اور اختلاف رائے کا اظہار بھی۔ ظفر صاحب نے فوراً اتفاق کیا۔ کہنے لگے کہ جامعات کو آپ نسبتاً بہتر جنگل کہہ لیں۔

دوسرے روز ہونے والی گفتگو زیادہ تر جمہوریت اور آئین پاکستان کے حوالے سے تھی۔ آج کل ہم ایک ایسے زمانے میں زندہ ہیں جہاں جمہوریت کی حمایت کو گالی اور آمریت کی مخالفت کو غداری بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس علمی اکٹھ میں لیکن بلند بانگ جمہوری آوازیں سنائی دیں۔ معروف کالم نگار خورشید ندیم صاحب نے موضوع پر مختصراً روشنی ڈالی۔ وہی علمی انداز جو ان کے کالموں کا خاصہ ہے۔ فرمایا کہ ہم انتشار فکر میں مبتلا ہیں۔ ہمارے ہاں آج تک یہ بحث جاری ہے کہ یہاں جمہوریت ہونی چاہیے یا آمریت۔

کہنے لگے کہ یہاں بیس روپے کی کرپشن کرنا تو بہت بڑا جرم ہے، لیکن آئین توڑنا یا ووٹ چوری کرنا کوئی جرم ہی نہیں۔ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی اہمیت بیان کی اور کہا کہ دنیا بھر میں جامعات اور اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آئین تو پڑھا یا جاتا ہے، لیکن نصاب میں اگر آئین کی حرمت ہے ہی نہیں تو آپ ( یعنی اساتذہ) کیا بتائیں گے؟ یہ باتیں سن کر مجھے چند برس قبل ہونے والی ایک علمی کانفرنس کا احوال یاد آ گیا۔

شعبہ سیاسیات کے ایک استاد نے جہاں جمہوریت کے خلاف اور آمریت کی حمایت میں تقریر کی تھی۔ وہی سطحی اور بے مغز باتیں کہ جمہوریت نے اس ملک کو کیا دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان صاحب کی باتیں سن کر مجھے خیال آیا تھا کہ اس ملک اور نظام تعلیم کی بدقسمتی، ایسے افراد یہاں سیاسی تاریخ پڑھانے پر مامور ہیں۔ اللہ تعالیٰ طالب علموں پر رحم فرمائے۔ آمین۔ ہمیں تو یہ معلوم ہے کہ آمریت کی نحوست سے ہمارا ملک ٹوٹ گیا تھا۔ ہمارے نوے ہزار فوجیوں کو ازلی دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔ جبکہ جمہوری حکمرانوں نے اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اس ملک کو ایٹمی قوت کے درجے پر فائز کیا۔

دوسرے روز ہونے والی نشست میں جامعہ پنجاب کے شعبہ معاشیات سے پروفیسر ممتاز انور چوہدری صاحب اور لا کالج سے پروفیسر امان اللہ صاحب بھی حاضرین میں موجود تھے۔ پروفیسر امان اللہ نے کسی منجھے ہوئے وکیل کی طرح نہایت عمدہ طریقے سے جمہوریت اور آئین کا مقدمہ پیش کیا۔ تاریخی اور قانونی حوالوں سے بتایا کہ پاکستان کو درست سمت میں گامزن کرنا ہے تو اس کا واحد حل آئین کی پاسداری ہے۔ آئینی شقوں کے حوالے دیے اور بتایا کہ ہمارا آئین ہمیں ملائشیا، ترکی، سعودی عرب جیسے ممالک میں رائج قوانین سے کہیں بڑھ کر آزادی فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے سقوط ڈھاکہ کا نوحہ بھی پڑھا۔ پروفیسر امان اللہ کے جمہوری اور آئینی خیالات سن کر خوشی ہوئی۔ بلاشبہ ایک استاد کو اسی قدر آئین اور جمہوریت پسند ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر ممتاز نے بھی اس گفتگو میں حصہ ڈالا۔ ان کا میدان چونکہ معیشت ہے، لہٰذا انہوں نے معاشی ترقی کی اہمیت پر زور دیا۔ کہنے لگے کہ جمہوریت اور آئین کی اہمیت بجا، مگر معاشی ترقی کا ذکر ہم کیوں بھول جاتے ہیں؟ نقطہ نظر ان کا یہ تھا کہ غربت اور افلاس کو دور کیے بغیر سماجی ترقی کا تصور ممکن نہیں۔ ایسا کیے بغیر لوگوں کو جمہوریت اور آئین کی باتیں نہیں سمجھائی جا سکتیں۔

دونوں دن کئی گھنٹوں پر محیط گفتگو کا حاصل آخری سیشن تھا۔ یہ نشست پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کے ساتھ تھی۔ پروفیسر صاحب نے اپنے دھیمے لہجے میں نہایت بے لاگ باتیں کیں۔ بتایا کہ کس طرح ہم اصل تاریخ (اور تاریخی حقائق) کو چھپائے پھرتے ہیں۔ کس طرح اصل مسائل سے نگاہیں چرا کر، عوام الناس کو لا یعنی باتوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ کس طرح آج کچھ نامور سیاست دان گالی کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ تاسف کا اظہار کیا کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو آج ہم نے کیا بنا دیا ہے۔

ہم بھیک مانگتے ہیں اور بھیک بانٹتے ہیں۔ وزیر اعظم اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ ہندوستان مظالم کر رہا ہے تو کیا ہم جنگ کریں؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے کہ بھئی کیوں نہ کریں جنگ؟ جبکہ وہ مقبوضہ کشمیر نہیں، مقبوضہ پاکستان ہے۔ افسوس سے بتانے لگے کہ بنگلہ دیش ہم سے علیحدہ ہوا تھا۔ آج وہ ہر شعبے میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ کیونکہ وہاں جاگیر داری نظام نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کو اور تاریخ کو اس کی اصل روح کے مطابق پڑھا اور پڑھایا جائے۔ تمام بحث کو انہوں نے یوں سمیٹا کہ ہمارے تمام مسائل کا حل یہ ہے ہم سب قائد اعظم کے افکار و نظریات پر عمل پیرا ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).