زومبیز



ہر سال اکتیس اکتوبر کو ”ہیلو وین“ کا تہوار منایا جاتا ہے اور اس دوران امریکیوں کو بھوت پریت، روحوں اور ڈراؤنی کہانیوں کا خبط سا ہو جاتا ہے۔ شام ہوتے بچے اپنے خیال میں ڈراؤنے لباس پہنے ماسک لگائے محلے کے دروازوں پر جا کر ”ٹرک یا ٹریٹ“ کہہ کر بزعم خود دھمکی دیتے ہیں اور مجھ سمیت سب لوگ ان کوشش کو سراہتے ہوئے انھیں چاکلیٹ یا مٹھائی دے کر رخصت کرتے ہیں۔ شہر میں جوان اور جواں دل والے سوانگ بھر کر ہلہ گلہ کرتے ہیں۔

اس سال کرونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر یہ سب سرگرمیاں، ملنے جلنے کی طرح ممنوع ہو گئی ہیں۔ ہر سال کلینک کو سجایا جاتا تھا، کہیں کالی مکڑیاں اور ان کے جالے چھت سے لٹکتے نظر آتے کہیں سفید بھوت اپنی آنکھیں چمکاتے اور کہیں جادوگرنیاں کالے چوغوں میں جھاڑو پر بیٹھی اڑتی نظر آتیں۔ اس سال کچھ نہیں کیا گیا کہ اس سے صفائی میں خلل پڑتا کچھ نرسیں تیار ہو کر آئیں لیکن جو بچے آئے ان کے والدین کو واپس جا نے کی جلدی تھی لہٰذا ”ٹوئے سٹوری“ کے یہ کھلونے شاید کسی نے غور سے دیکھے تک نہیں۔

”ہیلو وین“ قبل مسیح مذاہب میں بزرگوں کی روحوں کے لیے ایک دن ہوتا تھا، عیسائیت نے اسے اپنے میں جذب کر لیا اور اس دن کو سینٹ، شہید اور با ایمان مرنے والوں کی یاد اور ان کے لیے دعا کرنے کا دن بنا دیا۔ میکسیکو جہاں عموماً کیتھولک مذہب ہے وہاں یہ ”مرنے والوں کا دن“ ہی منایا جاتا ہے، اپنے خاندان کے مرحومین کی روحوں کا استقبال کیا جاتا ہے اور ان کے لیے عبادات کی جاتی ہیں۔ حال میں ایک اینیمیٹڈ فلم ”کوکو“ اس تہوار پر بنائی گئی ہے۔ ہمارے ہاں بھی شب براءت بلکہ ہر جمعرات کو اپنے مرحومین کی روحوں کے لیے صدقہ اور دعا کا تصور ہے۔

لیکن امریکہ میں موت کے خوف کو مذاق میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ڈراؤنی فلموں سے اس خوف کو نکالنے کی یا اس کی کتھارسس کی جاتی ہے۔ ہر سال ہیلووین سے پہلے ڈراؤنی فلموں میں بدروحیں گڑیوں تک میں سرایت کر کے لوگوں کو مارنے کے درپے نظر آتی ہیں۔ لیکن زومبی کا تصور ان سب دہشتناک چیزوں میں الگ ہے۔

زومبی وہ لوگ سمجھے جاتے تھے جو مر چکے ہیں لیکن پھر بھی ایک غلام کی طرح کسی اور کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ تصور ہیٹی (Haiti) میں رائج وڈو مذہب کا حصہ تھا جو افریقہ سے غلام بنا کر لائے لوگوں نے اپنے پرانی یادوں سے مرتب کیا تھا۔ اگر اس تصور پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جن سیاہ فام لوگوں کی انسانیت کی نفی کرتے ہوئے،

گورے لوگ انھیں جانوروں کی طرح استعمال کر رہے تھے انھیں اپنی آزادی اور خود مختاری

کے چھننے کا دکھ موت کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ اور جن سیاہ فام لوگوں کو یہ جانور سمجھتے تھے اور انھوں نے زومبی کا استعارہ اپنی دردناک زندگیوں کے لیے تشکیل دیا

تھا۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ انسان کا ذہن غلامی میں بھی آزاد رہ سکتا ہے، اور افسوس آزادی میں بھی غلط خیالات و تصورات کا غلام رہ سکتا ہے۔

ہیٹی مغرب میں پہلی آزاد سیاہ فام ریاست ہے جس کووہاں غلاموں نے 1791 سے 1804 تک جدوجہد کر کے انسانی آزادی کے داعی، فرانس سے غلامی کو ختم کرایا اور اپنی آزادی خریدی تھی یعنی اتنے امیر ملک نے ان غریب لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی قیمت اپنے مالکوں کو ادا کریں، اور 1920 تک ہیٹی کی حکومت فرانس کو یہ قیمت ادا کرتی رہی۔ سلام ہیٹی کے لوگوں پر کہ انھوں نے آزادی کے لیے اپنی تمام دولت لٹا دی، ملک فقیر ہو گیا۔ گو اب ہمیشہ ہیٹی کا ذکر مغرب کے غریب ترین ملک کے طور پر کیا جاتا ہے لیکن اس کے انقلاب نے انسانی غلامی کی بنیاد پر دولت کمانے والے یورپی اور امریکی معاشروں کو دہلا دیا تھا کہ اب دنیا میں کہیں یہ نہیں ہونے دیں گے۔

لیکن ہیٹی کے لوگوں کے اس جذبہ آزادی اور اس جراءت پر انھیں ہمیشہ تحقیر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کے آزاد ہونے کے بعد گوروں نے ہی یہ تصور پھیلایا کہ وڈو کرنے والے قبر سے مردے نکال کر جادو سے انھیں زومبی بنا کر ان سے کام کراتے ہیں، بلکہ جب لوگوں کا جادو پر سے یقین اٹھ گیا تو کہا گیا کہ وہ اصل میں آدمی کو ایسی جڑی بوٹی دیتے ہیں کہ وہ مردہ لگتا ہے اور اس کے دفن کے بعد اسے قبر سے نکال کر اسے غلام بنا لیتے ہیں۔ یعنی کسی انسان کو غلام بنانے اور اس کی آزادی چھیننے کا جو ظلم سفید فام قوموں نے کیا تھا اس کا الزام ان سیا فام غلاموں کی اولاد پر ہی لگا دیا۔

امریکہ میں زومبی کا استعارہ ساٹھ کی دہائی سے فلموں اورکتابوں میں مروج ہے۔ کئی کروٹیں لینے کے بعد اب ان کہانیوں میں زومبی بے اختیار نہیں ہیں بلکہ عام آدمیوں کا شکار کرتے پھر رہے ہیں اور جس کو بھی یہ کاٹتے ہیں وہ خود زومبی بن جاتا ہے۔ اور ایک طرح سے اب یہ امریکہ کے مادی اور کنزیومر (consumer) معاشرے کی ایک تمثیل ہیں۔ جہاں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ ہی نہیں بدلتا بلکہ اسی برانڈ کے لباس اور پرس کے لیے تڑپتا ہے، رشک کرتا ہے۔

غور کیجئے تو آپ کو ہر طرف زومبی نظر آئیں گے جو ہم سب کو اپنے جیسا بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ جو شخص ایک غلط کام ہوتے دیکھے لیکن اسے غلط نہ سمجھے تو وہ زندوں میں ایک سانس لیتی لاش کے مانند ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں زندہ لوگ درکار ہیں جو غلط بات کو غلط سمجھ کر اس سے اجتناب کریں بلکہ اس کے خلاف آواز بلند کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).