میاں صاحب! عوام طاقت کا سرچشمہ نہیں


سیاست میں بیانیہ روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ بیانیہ کی جاندار ی اور جامعیت سیاستدانوں کو طاقت اور پذیرائی بخشتی ہے۔ بیانیہ محض اظہاریہ نہیں ہوتا ہے کہ کسی سیاسی رہنما نے تقریر کردی تو اس خطاب کو بیانیہ قرار دے دیا جائے۔ سیاسی اصطلاح میں بیانیہ ایک جامع سیاسی پروگرم ہوتا ہے۔ جس سے یہ امر واضح کیا جاتا ہے کہ سیاست اور سیاسی فلسفہ کیا ہوگا۔ معاشی وسماجی طریق کیسا ہوگا۔ داخلی و خارجی پالیسی کیا ہوگی۔ جس پر قوم کی تشکیل سمیت تعلیم و تربیت بھی کی جاتی ہے اور سیاسی مقاصد کا حصول بھی ممکن ہوتا ہے۔ جو پہلے سے موجود بیانیہ کو مسترد کرتا ہے۔ بیانیہ سیاسی جماعت دیتی ہے۔ سیاسی اتحاد بیانیہ نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی دے سکتے ہیں۔ اگر دیتے بھی ہیں تو وہ بیانیہ کارگر ثابت نہیں ہوتا ہے۔ ماضی کے اتحاد اور ان کے بیانیے سامنے ہیں۔ اتحاد وقتی ہوتے ہیں۔ اتحاد بنتے ہی ٹوٹنے کے لئے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ بہت واضح ہے۔ آج کے عہدمیں ہر بات کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ کوئی امر پوشیدہ نہیں رہا ہے۔ ملک کا ہر شہری جانتا ہے کہ بیانیہ کس کا ہے اور کون تشکیل دیتا ہے۔ ملکی معاملات کس بیانیہ کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ جاری اور رائج وقت بیانیہ کے متبادل بیانیہ کے لئے پہلے بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ مزاحمت کے اس میدان میں بہت کچھ کھویا ہے۔

بیانیے کی اس جنگ میں ہم نے ذوالفقار بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو قربان کیا ہے۔ بے شمار سیاسی کارکنوں کی بلی چڑھائی ہے۔ آدھا ملک گنوا دیا گیا ہے۔ مگر ہم ناکام اور نامراد ٹھہرے ہیں۔ ہمارے ساتھ بار بار دھوکہ ہوجاتا ہے۔ ہم ہار جاتے ہیں۔ تھک جاتے ہیں۔ کیوں، ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا غلطی ہے جو بار بار کی جا رہی ہے اور نتائج وہی برآمد ہوتے ہیں جو ماضی میں ہوئے تھے۔

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا یقین تھا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ یہی بات محترمہ بے نظیر بھٹو کے من میں تھی۔ اب یہی خیال میاں نواز شریف کا ہے۔ میاں نواز شریف یہ تو مکمل طور جان چکے ہیں کہ یہ راستہ کٹھن ہے۔ شاید میاں نواز شریف جان دینے کو بھی تیار ہوچکے ہوں گے۔ مگر دل کے معاملے تو اللہ جانتا ہے یا پھر خود میاں نواز شریف ہی جانتے ہیں کہ ان کے دل میں کیا ہے۔

طاقت کا سر چشمہ عوام ایسے نہیں ہوتے ہیں۔ جیسے ماضی میں خیال کیا گیا ہے اور جیسے اب نواز شریف سوچ رہے ہیں۔ عوام طاقت کا سرچشمہ تب ہوتے ہیں جب عوام کے اندر سیاسی نظریات سے لیس منظم سیاسی جماعت ہوتی ہے اور جب وہ سیاسی جماعت عوام میں حلول کرجاتی ہے تو پھر عوام طاقت کا سرچشمہ بن جاتے ہیں۔ بصورت دیگر انجام وہی ہوتا ہے جو ہوا ہے اور جو ہوگا۔

عہد رواں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے آگے بڑھ کر بول رہے ہیں۔ جمہوریت پسند اور سول بالادستی کے خواہاں خوش ہیں کہ آخر نواز شریف نے طبل جنگ بجا دیا ہے۔ بات تو درست ہے۔ تسکین تو خوب ہوئی ہے۔ تالیاں بھی خوب ہیں۔ بی بی مریم نواز اور بلاول بھٹو فرنٹ پر اچھی پرفارمنس دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

بیانیہ نیا ہے اور نہ ہی اظہاریہ میں کوئی نئی بات ہے۔ پرانی فلم کا نیا سکرپٹ ہے۔ ری مکس ہے۔ فرق بس یہی ہے کہ سنیل دت کی جگہ سنجے دت ہے۔ فلم ڈان میں جو کچھ امیتابھ بچن نے کیا شاہ رخ نے بھی کردکھایا ہے۔

نواز شریف بھی شاید وہی غلطی دہرانے جا رہے ہیں اگر وہ اپنی بات پر کھڑے رہتے ہیں۔ محترمہ بے نظیربھٹو شہید ہوتی ہے تو آصف علی زرداری ملک کے صدر بنتے ہیں۔ میاں نواز شریف شہید ہوں گے تو مریم بی بی وزیراعظم بن سکتی ہے۔ پاکستان کے عوام کو روٹی کپڑا مکان اور انصاف نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).