دریائے نیل پر بننے والا متنازع ڈیم کس کے لیے فائدہ مند؟


ڈیم
رواں سال سوڈان میں غیر متوقع اور غیر روایتی سیلاب کے نتیجے میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ پونے نو لاکھ کے قریب متاثر بھی ہوئے تھے۔

اس وقت دریائے نیل میں طغیانی آئی اور پانی کی سطح کسی بھی شخص کی یادداشت سے زیادہ بلندی پر چلی گئی اور اس کی وجہ سے سارا کا سارا ساحلی رہائشی علاقہ تباہ ہوگیا اور وہاں بجلی اور پینے کے پانی کی فراہمی میں خلل پڑ گیا۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دریا نیل کی دو شاخوں میں سے ایک یعنی ’بلو نائل‘ پر واقع گرینڈ ایتھوپیا رینیساں ڈیم مکمل طور پر کام کر رہا ہوتا تو سوڈان پر اس کا اثر کم تباہ کن ہوتا۔

ایتھوپیا نے اپنے شمالی پہاڑی علاقوں میں سنہ 2011 میں ڈیم کی تعمیر شروع کی تھی جہاں سے نیل کا 85 فیصد پانی بہتا ہے اور رواں سال اس ڈیم کے پیچھے موجود پانی کا ذخیرہ بھرنا شروع ہو گیا۔ جب یہ کئی سالوں میں پوری طرح سے کام کرنے لگے گا تو یہ افریقہ کا سب سے بڑا پن بجلی پیدا کرنے کا مرکز بن جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

’دریائے نیل کے تحفے‘ مصر کو دریا پر ڈیم سے پریشانی

دریائے نیل سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر ایتھوپیا کیوں ناراض

مصر،ایتھوپیا کا تنازع: دریائے نیل پر حق کس کا؟

صحارا کی چٹانوں میں آباد قدیم جنگل میں کیا راز چھپے ہیں؟

لیکن یہ ڈیم تنازعے کا شکار رہا ہے کیونکہ مصر کا کہنا ہے کہ اس چار ارب امریکی ڈالر کی مالیت سے بننے والے ڈیم کی وجہ سے ان کے ملک میں نیل کا جو پانی آتا ہے اس میں کمی واقع ہو جائے گی۔

اس سلسلے میں مذاکرات جاری ہیں اور وہ ابھی تک معاہدے تک نہیں پہنچے ہیں۔ مذاکرات اس بات پر مرکوز ہیں کہ ڈیم کتنی جلدی بھرتا ہے جبکہ دریں اثنا سوڈان پھنسا ہوا نظر آتا ہے۔

کاشتکار

ڈیم سے کاشتکار سال میں تین فصلیں اگا سکیں گے

سوڈان میں بین الاقوامی آبی قانون اور پالیسی کے ماہر سلمان محمد کا کہنا ہے کہ دریائے نیل پر بنے مصر کے اسوان ڈیم سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح سیلاب کے پانی کو موثر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا: ’ہم اپنے لوگوں اور اربوں پاؤنڈ کی املاک کو کھو چکے ہیں، لیکن مصر کو دیکھیں انھوں نے ایک پودا بھی نہیں کھویا ہے کیونکہ وہ عام طور پر سیلاب کے پانی کو اپنے اونچے ڈیم میں رکھتے ہیں جبکہ ہمارے پاس ایسا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس لیے اگر ایتھوپیا کا ڈیم کام کر رہا ہوتا تو اس نے سب کچھ بچا لیا ہوتا۔‘

خیال رہے کہ دریائے نیل پر سوڈان نے آٹھ بند بنا رکھے ہیں۔ بین الاقوامی آبی وسائل کی انجمن میں فیلو ڈاکٹر محمد کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ڈیم بہت چھوٹے ہیں۔‘

انھوں نے کہا: ’مصر سیلاب کے پانی کو اکٹھا کر کے اسے ریگستان کے اپنے زرعی پروجیکٹس میں استعمال کر رہا ہے۔‘

حفاظتی خدشات

ڈیم کو بھرنے اور کتنا پانی چھوڑنا ہے اس کے متعلق تفصیلی بات چیت کے دوران سوڈان نے مصر کی حمایت کی ہے۔ یہ مذاکرات حال ہی میں افریقی یونین کے زیراہتمام دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔

سوڈان نے یہ موقف سابق صدر عمر البشیر کی حکومت کے زمانے سے اپنا رکھا ہے جبکہ سنہ 2019 کی بغاوت کے بعد سوڈان پر عبوری حکومت کا حصہ بننے والے جرنیل بھی مصر کے مضبوط اتحادی ہیں۔

بشیر کی سربراہی میں سوڈان کی جانب سے مذاکرات کار احمد المفتی نے بھی ڈیم کی حفاظت اور سلامتی کے بارے میں خدشات ظاہر کیے تھے۔

انھوں نے کہا کہ اگر اسے تباہ کر دیا گیا تو اس سے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم سمیت پورے خطے کو، جہاں وائٹ اور بلو نامی دریائے نیل کی شاخیں شاخیں ملتی ہیں،نقصان پہنچ سکتا ہے۔

دریائے نیل سیلاب کا باعث

درحقیقت سوڈانی حکام کسی تنازعے سے بچنے کے لیے انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

پچھلے ہفتے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوڈانی اور اسرائیلی وزرائے اعظموں سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بارے میں مشترکہ فون کال پر کہا تھا کہ مصر ڈیم کو ‘اڑا’ سکتا ہے تو اس سے بھی بات نہیں بنی۔

سوڈان کی جولائی تک عبوری وزیر خارجہ رہنے والی اسما عبد اللہ کا کہنا ہے کہ بات چیت ہی واحد حل ہے۔

سوڈان پرامن حل چاہتا ہے کیونکہ وہ بڑے اور وسیع ڈیم کے فوائد دیکھ سکتا ہے اور یہ فائدہ نہ صرف سیلاب کے پانی کا بہتر طریقے سے انتطام کرنے کے متعلق ہے جو کہ ان کا مستقل مسئلہ ہے۔

‘افریقی فخر کا وسیلہ’

ڈاکٹر محمد کا کہنا ہے کہ اس سے سوڈان اپنے ڈیموں سے بھی زیادہ بجلی پیدا کر سکتا ہے اور ایتھوپیا سے بھی سستی اور صاف بجلی خرید سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے تین موسموں کی کاشت کا بھی موقع ملے گا۔ اس وقت اکتوبر یا نومبر کے آس پاس فصلوں کی کٹائی کی جاتی ہے لیکن اگر پانی کی فراہمی کو باقاعدہ بنایا گیا تو کاشتکار زیادہ مرتبہ فصلیں کاٹنے کے قابل ہو سکیں گے۔

خشک سالی کی صورت میں جب عام طور پر بہت کم پانی ہوتا ہے تو ڈیم سے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد کہتے ہیں کہ سنہ 1959 میں مصر کے ساتھ نیل کے وسائل بانٹنے کے معاہدے کے تحت سوڈان جتنے پانی کا مستحق ہے وہ اس میں سے صرف 12 ارب مکعب میٹر یا 64 فیصد پانی ہی استعمال کرتا ہے۔

رینیساں ڈیم

ایتھوپیا میں نیلے دریائے نیل پر تعمیر ہونے والا بڑا نشاۃالثانیہ ڈیم

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سوڈان میں رواں سال لگ بھگ ایک کروڑ افراد کو خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو جزوی طور پر کورونا وائرس لاک ڈاؤن کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر محمد اس میگا ڈیم منصوبے کے طویل مدتی فوائد دیکھ رہے ہیں۔

دارالحکومت میں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ایتھیوپیا کے ساتھ زیادہ ہمدردی پائی جاتی ہے۔

خرطوم کے جڑواں شہر اومدرمان کے 44 سالہ رہائیشی صلاح حسن کا کہنا ہے کہ وہ ‘اس کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ ایتھوپیا کے عوام کے ساتھ ان کے جذبات منسلک ہیں۔’ صلاح ایک بچے کے والد ہیں اور ان کے گھر کو حالیہ سیلاب میں جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔

شمالی خرطوم میں رہائش پذیر 37 سالہ محمد علی اس ڈیم کو ’افریقی فخر‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے بہت سے لوگوں کے لیے ملازمت کے ذریعہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ’ابھی سوڈان میں لاکھوں ایتھیوپائی باشندے مقیم ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ڈیم کی تعمیر کے بعد وہ بہت سے سوڈانیوں کے ساتھ وہاں کام کرنے کے لیے اپنے ملک واپس چلے جائیں گے۔

’میں اس ڈیم کی 100 فی صد حمایت کرتا ہوں کیونکہ کوئی بھی منصوبہ جس سے افریقی عوام کو فائدہ پہنچے وہ عظیم ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہارن آف افریقہ (یعنی مشرقی افریقہ) کے علاقے میں رہنے والے لوگوں نے بہت مشکلات اٹھائی ہیں اور انھیں ایسے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت ہے۔‘

تاہم جب تک کہ یہ تنازعہ حل نہیں ہوتا کہ ایتھیوپیا ڈیم کو کیسے منظم کرتا ہے یہ دنیا کی سب سے طویل دریا کے کنارے رہنے والوں اور کھیتی باڑی کرنے والوں کے لیے تشویش کا باعث رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp