ہماری حالیہ تاریخ کے سات بڑے قومی المیے


قوموں کی تاریخ بے شمار نشیب و فراز کا مجموعہ ہوتی ہے۔ وطن عزیز بھی کبھی کامیابیوں تو کبھی المیوں کا شکار رہا۔ مگر ہم ایشوز کو نان ایشوز اور نان ایشوزکو ایشوز بنانے میں کمال کا ملکہ رکھتے ہیں۔ ویسے بھی پریم چند کے مطابق تاریخ میں سوائے کردار کے کچھ بھی سچ نہیں ہوتا۔ آئیے چند مضحکہ خیز ایشوز کو کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں ہماری قوم نے قومی المییے بنا دیا ہے۔

1۔ دانش کی موت۔ سال دو ہزار بیس کے اوائل میں دانش کی موت ایسا المیہ تھا جسے قوم چالیسویں تک بھلا نہ پائی۔ جس رات دانش کی موت ہوئی دیس بھر میں رقت انگیزیاں دیدنی تھیں۔ مرد و زن اور پیرو جواں اس غم سے نڈھال رہے۔ یہ رویہ اس بات کا غماز ہے کہ اپنی قوم کسی فرد کی جان کی بابت کس قدر حساس اور نرم دل ہے۔ اس مشہور زمانہ موت سے یہ بھی واضح ہوا کہ زوجہ شناس انسان بیوی کے چھوڑ جانے سے نہیں بلکہ اس کے واپس آنے کے خوف سے جاں بحق ہوتا ہے۔ اسی لئے کچھ طبقات میں بچوں کی ماں اور بقید حیات شوہر کی زوجہ معترضہ کو بھگانے والا ہیرو بھی سمجھا جاتا ہے۔ سو اس قوم کا دانش کیا مرا، دانش ہی مر چلی۔

2۔ حلیمہ سلطان کی دو رخی شخصیت۔ من حیث والقوم ہم بلا کے قصہ گو اور ڈرامہ پسند لوگ ہیں لہٰذا حسب معمول ڈرامہ ارطغرل کی ہیروئن کو حقیقی ہیروئن ماننے پہ ایمان رکھتے ہیں۔ ہم اس کی یک طرفہ پاک دامنی اوروفا شعاری پر کسی سمجھوتے پر تیار نہیں۔ بہت سے نوجوان تو اپنے دلوں کو ہاتھوں سے جاتا بھی دیکھ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں شاہیں بچے حلیمہ کو ”فالو” کرتے یعنی اس کے پیچھے پڑے ہیں۔ مگر حلیمہ کا کردار ادا کرنے والی فنکارہ کی ساحل سمندر پہ آفتابی غسل کی تصاویر کیا وائرل ہوئیں کہ خلافت عثمانیہ کے عشاق کے دل ہی ٹوٹ گئے۔ آج بھی قوم کے ہزاروں پارسا نوجوان، حلیمہ سلطان کی کم لباسی پر رنجیدہ، افسردہ بلکہ ماتم کناں ہیں۔

3۔ عرب، اسرائیل تعلقات۔ عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی پینگوں پہ ہماری قوم سخت تحفظات رکھتی ہے۔ اسے اپنی بدحالی اور ناہلیوں سے کہیں بڑھ کر عرب ممالک کی فکر لا حق ہے۔ ہم خود بھی کسی سے حالات بہتر بنانے کو تھلے لگنا سمجھتے ہیں اور باقی دنیا سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔ کسی شریر نقاد نے نے تو یہ پوچھ ڈالا کہ بنو اسماعیل اور بنی اسحٰق کے مابین صلح پر یافث کی اولاد سیخ پا کیوں ہے؟

4۔ پاک بھارت تعلقات، جب بھی کبھی بھارت سے تعلقات میں بہتری کے امکانات پید اہوتے ہیں، ہماری عزت، سالمیت اور مذہب تک کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ امن کی کوششیں کرنے والے راہ نماؤں کی پاکستانیت بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ گویا انڈیا سے تعلقات میں اعتدال کی بات ہمارے لئے باعث رنج و ملال ہے اور قوم کے لئے ایک نمایاں دکھ ہے۔

5۔ بڑھتی آبادی پر تنقید کا المیہ۔ اندھا دھند بڑھتی بے مہار آبادی پر فکر کا اظہارسخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ بلکہ اسے ایک المیہ جانا جاتا ہے۔ درجن بھر بچوں کی پیدائش اپنا فریضہ سمجھ کر ان کی ضروریات کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرانا معمول ہے۔ آبادی کنٹرول کرنے کی باتیں قدرت کے کارخانے میں مداخلت تصور ہوتی ہیں اور نور ہائے نظر کی پیدائش میں اعتدال کی باتوں کو گناہ قرار دیا جاتا ہے۔

6۔ مخالفین کی کرپشن کا المیہ۔ ہم جیسے معاشروں میں چونکہ کرپشن ہر صاحب اختیار و  بے اختیار پر فرض عین ہے لہٰذا سبھی ہی کرپشن کی کسی نہ کسی صنف سے روحانی لگاؤ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود پوری قوم کرپشن کے سخت خلاف ہے اور گناہ بھی سمجھتی ہے تاہم یہ سمجھنا محض سمجھنے کی حد تک ہی سمجھا جاتا ہے ۔ کرپشن کا رونا شدت سے رویا جاتا ہے اور مخالفین کی کرپشن ثابت کرنا تو مکمل فن کی حیثیت اختیا ر کر چکا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ کسی کرپٹ شخص کی فیکٹری میں ہزاروں لوگوں کا روز گار لگا ہو، پورا نہ سہی آدھے ٹیکس کی ادائیگی بھی ہوتی ہو اور پروڈکٹ کی رسد بھی بازار میں وافر ہو۔ جبکہ دوسری طرف کوئی دیانتدارشخص سب کاروبار بند کرادے۔ ہزاروں روزگار چھن جائیں، بازار میں رسد ناپید ہو اور بچا کھچا ٹیکس بھی جاتا رہے تو اس انقلاب کو کیا کہیں گے؟

7۔ غداری و بغاوت کی بابت غضب ناکیاں : قوم کا ہر فرد، گروہ، مسلک اور سیاسی دھڑا خود کو بہترین مسلمان، محب وطن اور قانون شعار جانتے ہوئے باقی سب کو کافر، مشرک، غدار اور باغی قرار دے کر ہمہ وقت غصیلا و زہریلا بنا رہتا ہے۔ کسی فرد یا ادارے پہ جائز تنقید پہ بھی مذکورہ فتاوٰی داغے جاتے ہیں۔ گویا کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری نے آئینہ ضمیری کی بیخ کنی کر دی ہے۔ اس ماحول میں شعور و آگہی عذاب سے کم نہیں۔ یوں قوم کچھ افراد اور چند اداروں کو کچھ بھی کرلینے کا استثنٰی تو دے سکتی ہے مگر حقائق کو تسلیم کرنا قومی المیہ سمجھتی ہے۔ مندرجہ بالا خود ساختہ ٹریجیڈیز ثابت کرتی ہیں کہ جہالت پر صرف جہلا کا ہی اجارہ نہیں ہوتا بلکہ تعلیم یافتہ طبقات بھی اس گمشدہ وراثت سے حصہ بانٹتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).