جنیوا: دنیا کی سب سے زیادہ ’کم سے کم اجرت‘ والے شہر کا درجہ حاصل کرنے کا خواہاں


جنیوا
جنیوا ایک بہت ہی امیر شہر ہے۔ یہاں نجی بینکوں کے بڑے دفاتر سے لے کر سوتبی اور کرسٹی جیسے نیلام گھر موجود ہیں جو روزانہ ایسے قیمتی پتھر فروخت کرتے ہیں جن کی صرف قیمت سُن کر ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں۔

ستمبر کے آخر میں کرائے گئے ایک ریفرنڈم کے بعد رواں ماہ یہ شہر دنیا میں سب سے زیادہ ’کم سے کم‘ تنخواہ متعارف کروا رہا ہے۔

اب جنیوا میں کم سے کم تنخواہ 23 سوئس فرانک فی گھنٹہ ہو گی جو کہ 19 برطانوی پاؤنڈ، 25 امریکی ڈالر یا 22 یورو کے برابر ہے۔ اس حساب سے کسی بھی ملازم کی اب کم سے کم ماہانہ تنخواہ چار ہزار فرانک بنتی ہے۔

اس کی ضرورت کیوں پڑی؟

اگرچہ جنیوا ایک امیر شہر ہے لیکن یہاں ہوٹلوں میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین، ویٹرز، کلینرز اور ہئیر ڈریسر بھی رہتے ہیں جو مشکل حالات سے دوچار ہیں۔

جب گذشتہ مارچ میں سوئٹزر لینڈ میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تو جنیوا میں فوڈ بینکوں کے سامنے لوگوں کی طویل قطاروں والی تصاویر اخبارات کی سرخیاں بن گئیں تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا کے امیر ترین ملک کا غریب ترین شہر

سعودی عرب ’کفالہ کا نظام ختم کرنے پر غور‘ کیوں کر رہا ہے؟

درحقیقت، وبائی بیماری سے پہلے بھی فوڈ بینک موجود تھے اور وہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے مہینوں بعد بھی موجود ہیں۔

چارلی ہرنینڈز کی چیریٹی کولیس ڈو کوئور شہر کے وسط میں واقع فوڈ بینک میں ایک ہفتے کے دوران ہزاروں بیگ راشن تقسیم کرتی ہے۔ قطاریں لمبی ہیں اور ان قطاروں میں کھڑے ہونے والی زیادہ تر خواتین ہیں جن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔

جنیوا

کیا چار ہزار فرانک فی مہینہ کچھ زیادہ رقم نہیں؟

چارلی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ جنیوا میں نہیں رہتے تو اس صورت میں یہ رقم آپ کو بہت زیادہ لگ سکتی ہے۔

’(مگر یہاں) ایک کمرے کا ماہانہ کرایہ ایک ہزار فرانک ہے۔ اس شہر میں رہتے ہوئے اگر آپ ایک ماہ میں 500 فرانک میں کھانا کھا سکتے ہیں تو آپ یقیناً بہت اچھے مینیجر ہیں، ایک شخص کی ہیلتھ انشورنس 550 فرانک فی مہینہ ہے۔ اگر آپ کے ساتھ دو بچے ہیں، تو (اس رقم میں بھی) گزارا بہت مشکل ہے۔‘

نئی کم سے کم اجرت، انگریڈ جیسے بہت سے خواتین کی زندگیوں میں فرق ڈالے گی، جو بلاناغہ خوراک کے حصول کے لیے فوڈ بینک کا رُخ کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’مہینے کے آخر میں میری جیبیں خالی ہوتی ہیں، یہ فوڈ بینک بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ آپ کے پاس ایک ہفتہ کا کھانا ہے تو آپ ایک ہفتہ سکون میں ہیں۔‘

حتیٰ کہ لورا جیسے کچھ رضاکاروں کے لیے جنیوا میں زندگی گزارنا مشکل ہے۔ لورا ایک نرس ہیں اور اپنی موجودہ تنخواہ میں وہ شہر میں اپنا کمرہ کرائے پر لینے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں ایک کمرے میں ایک بہت ہی چھوٹی جگہ میں رہتی ہوں۔ میں 26 سال کی ہوں لیکن اسی لیے اب تک میں اپنے کنبے کے ساتھ رہتی ہوں۔‘

جنیوا

یہ رقم کون ادا کرے گا؟

ایسے کاروبار جو 23 فرانک فی گھنٹہ سے کم اجرت دے رہے ہیں انھیں اب ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ جنیوا کے چیمبر آف کامرس کے ونسنٹ سبیلیا کو خدشہ ہے کہ کورونا وائرس کے وسط میں اس نئی اُجرت کو برداشت کرنا اور منافع میں زبردست کمی، بہتری کے بجائے نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’ہوٹل اور ریستوران، وبائی امراض کی وجہ سے پہلے ہی بڑے چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن اب ان کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔‘

ایک ہوٹل کے ہیڈ شیف اور مالک، سٹیفانو فاناری نے سوئس ٹیلی ویژن کو بتایا کہ انھیں نہیں لگتا کہ کوئی اتنی تنخواہ ادا کرے گا۔ ہیڈ شیف کی حیثیت سے ان کی خود کی ماہانہ اجرت اوسطاً پانچ سے چھ ہزار فرانک کے درمیان ہے۔

’اگر مجھے ڈش واشرز کو اتنی ہی تنخواہ دینی پڑے تو میں کیسے کام جاری رکھ سکتا ہوں؟‘

’کیا میں ان کے اوقات کم کر دوں؟ مجھے غلط نہ سمجھیں، میں ماہانہ چار ہزار فرانک کمانے والوں کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن ہم اتنی تنخواہ نہیں دے سکتے۔ میں نے قربانیاں دی ہیں، میں یہاں دن میں 12 گھنٹے کام کرتا ہوں۔ میں کیا کروں؟‘

اب کیا ہو گا؟

جنیوا میں کم سے کم اُجرت کا قانون حکومت نے مسلط نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے جنیوا کے شہری ہیں جنھوں نے اس کی تجویز دی تھی۔ انھوں نے اس معاملے پر ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے کے لیے کافی تگ و دو کی اور بلآخر 27 ستمبر کو 58 فیصد رائے دہندگان نے اجرت بڑھانے کا جواب ’ہاں‘ میں دیا۔

سوئٹزرلینڈ میں براہ راست جمہوریت کے نظام کا مطلب ہے کہ ووٹروں کا کہنا حتمی ہے، لہذا اب کم سے کم اجرت کا قانون لاگو ہو گا۔

Place du Molard in Geneva

جب اکثر عوامی رقم خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو سوئس شہری بہت محتاط انداز میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ لیکن اسی دن انھوں نے ملک گیر دو ہفتوں کی پیٹرنٹی رخصت کی بھی حمایت کی۔

چارلی ہرنینڈز اس طرح کے مشکل وقت میں ان چیزوں کو مثبت علامات کے طور پر دیکھتے ہیں، اس کا مطلب ہے اس دولت مند ملک میں بیشر افراد دوسروں کا خیال رکھ رہے ہیں۔

’انھوں نے اس کے حق میں ووٹ دیا اور میں خوش ہوں۔ ہمارے پاس براہ راست جمہوریت ہے جو بہت اچھی بات ہے، لیکن جو بات بہت سے لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کے اقدامات کو ٹھکرا دیا جاتا ہے۔‘

’یہ غیر معمولی ہے کہ اقدامات کی منظوری مل جاتی ہے، لہذا مجھے یقین ہے کہ چیزیں بہتر ہو رہی ہیں۔۔ ٹھیک ہے بہتری کی رفتار کم ہے لیکن یہ سوئس رفتار ہے۔‘

رائے دہندگان کے لیے اگلا امتحان اس ماہ کے آخر میں آئے گا جب سوئس ’ذمہ دار کاروباری اقدام‘ کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔

اس کے لیے سوئٹزرلینڈ میں مقیم کمپنیوں کو دنیا میں کہیں بھی اپنی سپلائی چین کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور ماحولیاتی آلودگی کی قانونی اور مالی ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔

اس میں ’ہاں‘ میں جواب دینے سے، کم سے کم اجرت کے معاملے میں دنیا کو زیر کرنے والے جنیوا کو بہت زیادہ رقم ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp