سندھ ہائی کورٹ کا مبینہ نوعمر مسیحی لڑکی کو تین دن میں بازیاب کروا کر شیلٹر ہوم بھیجنے کا حکم


مذہب کی جبری تبدیلی
پاکستان کی ہندو اور مسیحی اقلیتی برادریاں اپنی لڑکیوں کے مذہب کی جبری تبدیلی کی شکایت ایک طویل عرصے سے کرتی آ رہی ہیں
سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے لاپتہ ہونے والی مسیحی لڑکی کو بازیاب کروا کے دارالامان بھیجنے کا حکم جاری کیا ہے۔

لڑکی کے والدین کا دعویٰ ہے کہ اُن کی بیٹی نابالغ ہے اور اسے مبینہ طور پر ورغلا کر لے جانے والے شخص کی عمر 44 سال سے زائد ہے جس نے لڑکی کا مذہب تبدیل کروا کر کر اس سے شادی کر لی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس امجد علی سہتو اور جسٹس ذوالفقار سانگی پر مشتمل دو رکنی بینج نے لڑکی کی بازیابی کا حکم سندھ حکومت کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دیا۔ کیس کی سماعت کے موقع پر لڑکی کی والدہ کے وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر بھی موجود تھے۔

سندھ پولیس کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدالت کی طرف سے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والی لڑکی کو سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ اس حکم کے بعد پولیس نے لڑکی کی تلاش شروع کی مگر وہ نہیں ملی۔

پیر کے روز ہونے والی سماعت کے دوران ججز سے یہ استدعا کی گئی کہ لڑکی کو دار الامان بھیجے جانے سے متعلق حکم دیا جائے اور اس مقدمے میں اپنے پہلے حکم کی وضاحت بھی کی جائے کہ آیا اس مقدمے میں پولیس کو تحقیقات سے نہیں روکا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

’لڑکیوں کے مذہب کی تبدیلی کے واقعات عشق نہیں ’لو جہاد‘ ہے‘

’لڑکی خوبصورت تھی، معلوم نہیں کہ وہ کب سے آنکھ لگا کر بیٹھا تھا‘

مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی: ’سندھ حکومت نظرثانی کے لیے سندھ ہائی کورٹ جائے گی‘

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون موجود ہے جس کے تحت کم عمری میں شادی نہیں ہو سکتی اور اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔

عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ لڑکی کو دارالامان بھیجا جائے جبکہ ججز نے اپنے پہلے آرڈر کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ لڑکی کو سکیورٹی فراہم کرنے کا کہا تھا تحقیقات سے نہیں روکا تھا۔

اس مقدمے میں حقائق جاننے کے لیے عدالت نے میڈیکل بورڈ بنانے کا بھی حکم دیا۔

مذہب کی جبری تبدیلی

ہماری لڑکی نوعمر ہے، نادارا نے بھی تصدیق کر دی

لڑکی کی والدہ کے وکیل جبران ناصر نے عدالت کو بتایا کہ نادرا کی جانب سے تصدیق کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ لڑکی نوعمر ہے۔

اُن کے مطابق میڈیکل بورڈ اس صورت میں ہوتا ہے جب نادرا سے تصدیق نہ ہو سکے لہٰذا میڈیکل بورڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے لڑکی کے ریپ کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ڈی این اے کرایا جائے، اگر اس میں تاخیر ہوئی تو شواہد خراب ہو سکتے ہیں، عدالت نے اس کیس کی سماعت پانچ نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔

جبران ناصر کا کہنا ہے کہ میڈیکل بورڈ کے بجائے عدالت اس بات کا تعین کرے گی کہ لڑکی کی اصل عمر کیا ہے؟کیا لڑکی کا جبری مذہب تبدیل کیا گیا ہے؟ اور کیا یہ شادی قانونی ہے یا غیرقانونی؟

اس سے قبل مسیحی لڑکی کی جانب سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ بالغ ہیں اور انھوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر کے مسلمان شخص سے نکاح کیا ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ اب انھیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں، لہٰذا انھیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس درخواست پر عدالت نے پولیس کو لڑکی اور اس کے شوہر کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

عدالت کے اس فیصلے پر پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ عدالتی فیصلے سے لڑکی کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب کی توثیق ہوتی ہے۔ کمیشن کے مطابق نو عمری کے شادی کے قانون کے تحت یہ ریپ ہے۔

ہائی کورٹ کے حکم کے بعد چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت اس حکم پر نظرثانی کے لیے عدالت کا رخ کرے گی تاکہ اس حوالے سے کوئی بھی غلط فہمی دور کی جا سکے اور ہم ہر طرح کی معاونت کریں گے تاکہ عدالت متاثرہ فریق کو انصاف دے سکے۔

ان کے مطابق ہم (پاکستان پیپلز پارٹی) نے جبری شادیوں کے حوالے سے قانون پاس کرایا ہے اور اس کے عملدرآمد کے لیے ہم کوشاں رہیں گے۔

سندھ کے مشیر قانون مرتضیٰ وہاب نے پیر کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’سندھ ہائی کورٹ نے آج صوبائی حکومت کی دائر درخواست پر حکم جاری کیا ہے کہ لڑکی کو تلاش کرکے شیلٹر ہوم منتقل کیا جائے۔‘

پولیس کو سب پتہ ہے کہ میری بیٹی کہاں ہے‘

مسیحی لڑکی کی والدہ نے عدالتی احکامات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس کو سب پتا ہے کہ ان کی بیٹی کہاں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’خدا کے واسطے اس کو سامنے لایا جائے، اس ملزم کے گھر والوں کو بھی پتہ ہے کہ دونوں کہاں موجود ہیں لیکن پولیس کوئی ایکشن نہیں لے رہی کیونکہ ملزم کے بھائی پولیس میں ہیں۔‘

لڑکی کے والدین کے مطابق وہ ملازمت پیشہ ہیں اور چند روز قبل جب وہ کام کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے تو اُن کی عدم موجودگی میں اُن کی بیٹی لاپتہ ہو گئی تھی اور چند روز بعد انھیں پولیس نے کاغذات تھماتے ہوئے آگاہ کیا کہ لڑکی کا مذہب تبدیل ہو گیا ہے اور اس نے نکاح بھی کر لیا ہے۔

والدین کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیٹی ابھی نابالغ ہے جبکہ اس کو میبنہ طور پر ہمراہ لے جانے والے شخص کی عمر لگ بھگ 44 برس ہے۔

کیتھرین کا دعویٰ ہے کہ اُن کی بیٹی نابالغ ہے اور اسے مبینہ طور پر ورغلا کر لے جانے والے شخص کی عمر 44 سال سے زائد ہے۔

والدین کے پاس اپنی بیٹی کی پیدائش، نادرا اور سکول کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکی کی عمر 13 سال ہے۔ تاہم لڑکی کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے حلف نامے میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کی عمر 18 سال ہے اور اس نے قانونی اور آئینی طور پر حاصل حق کے مطابق نکاح کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp