نیلا چاند اور ممکنہ المیے


پس ثابت ہوا کہ اردو ہی نہیں دنیا کی ہر زبان بقول داغ دہلوی ”آتے آتے“ آیا کرتی ہے۔ انگریزی سے سطحی واقفیت کی وجہ سے میں نے ہمیشہ یہ باور کیا کہ ”Once in a Blue Moon“ والا جو محاورہ ہے وہ اچانک نصیب ہوئی اس خوشی کو بیان کرتا ہے جو مصیبتوں کا مارا کوئی شخص تصور میں بھی نہیں لاسکتا۔ چند دن قبل مگردریافت یہ ہونا شروع ہوا ہے کہ ”بلیو مون یا نیلا چاند“ کبھی کبھار نمودار ضرور ہوتا ہے مگر ہمیشہ ”خیر“ کی خبر نہیں لیتا۔ اس کی نمائش بسا اوقات اذیت دہ انہونیوں کا باعث بھی ہوتی ہے۔

سطحی علم کی عادت اور طبیعت کے اوتاولے پن کی وجہ سے ابھی تک پوری طرح سمجھ نہیں پایا ہوں کہ کبھی کبھار چاند ”نیلا“ کیوں ہوجاتا ہے۔ نجومیوں نے اگرچہ بتایا ہے کہ 31 اکتوبر 2020 کو نمودار ہوا چاند ہر صورت ”نیلا“ ہے۔ ان کے بنائے زائچوں کے مطابق اس بار وہ جوتش کے اس خانے میں ابھرا ہے جسے ثور یعنی ٹارس سے مختص کیا جاتا ہے۔ اسی مقام پر ایک سیارہ یورینس بھی موجود ہے۔ انگریزی کے شہرۂ آفاق ڈرامہ نگار شیکسپیئر نے اس سیارے کے حوالے سے ہمیشہ حیران کن واقعات کو رونما ہوتے دکھایا جن کا انجام بہت ہی الم ناک ہوتا ہے۔ نجومی بضد ہیں کہ 31 اکتوبر 2020 کا نیلا چاند بھی ایسے ہی المیوں کا سبب ہو سکتا ہے۔ اپنے دعوے کو اجاگر کرنے کے لئے انہوں نے تقویم کی سائنس یا آرٹ سے متعلق بے تحاشا دلائل بھی دیے ہیں۔ میں انہیں ہرگز سمجھ نہیں پایا۔

ہفتے کے دن رات گئے تک مگر یوٹیوب پر چھائے حق گو افراد کی گفتگو سنی تو احساس ہوا کہ 31 اکتوبر 2020 کے نیلے چاند کے اثرات سے بظاہر بے خبر یہ لوگ بھی ہمیں ”تخت یا تختہ“ والے معرکے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ حوالہ ”نیلے چاند“ کے بجائے اگرچہ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر۔ ایاز صادق۔ کے اس بیان کا دیا جا رہا ہے جو موصوف نے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں دیا تھا۔ 1985 سے قومی اسمبلی میں ہوئی تقاریر کا ”تجزیہ“ کرنے والے مجھ جیسے ”دو ٹکے کے رپورٹر“ کو ان کا بیان سنتے ہوئے گماں یہ ہوا تھا کہ حکومت کے ترجمانوں کی جانب سے ”مودی کا یار“ ہونے کے الزامات سے اکتا کر ایاز صادق نے ”ٹانگیں کانپتے“ والی بات کی تھی۔ اصل نشانہ اس کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تھے۔ میرا ذہن تاہم ”حب الوطنی“ کی روشنی و حرارت سے محروم ہے۔ یوٹیوب پر چھائے حق گو افراد کی بدولت معلوم ہو رہا ہے کہ اصل نشانہ کوئی اور تھا اور جنہیں طعنوں کی زد میں لانے کی کوشش ہوئی وہ اسے برداشت نہیں کر پائیں گے۔ ایاز صادق کو معاف کرنے کی گنجائش نظر نہیں آ رہی۔

عقل سے قطعاً محروم اور ناقابل علاج تعصب کا مارا کوئی شخص ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ ایک بھارتی پائلٹ کے طیارے کو پاکستانی حدود میں گرانے اور اسے گرفتار کرنے کے بعد ہمارے حکمرانوں یا عسکری اداروں کی ”ٹانگیں کانپ“ رہی ہوں گی۔ ہماری عسکری تاریخ کا بلکہ یہ ایک شاندار دن تھا۔ اس سے ایک رات قبل یعنی 26 فروری 2019 کی رات بھارتی طیاروں نے ہمارے بالاکوٹ تک گھس آنے کا دعویٰ کیا تھا۔ بڑھک یہ بھی لگائی کہ مذکورہ کارروائی کے ذریعے مودی سرکار نے پلوامہ میں ہوئے واقعہ کا ”بدلہ“ ہی نہیں لیا بلکہ دنیا بھر کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ بھارتی افواج نام نہاد ”دہشت گردی کے ٹھکانوں“ کو ”ایٹمی جنگ“ کے خطرات کو رعونت سے بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے کسی بھی مقام پر نشانہ بنا سکتی ہیں۔

رات کے اندھیرے میں ہوئی اس جارحیت کا منہ توڑ جواب پاک فضائیہ نے چند گھنٹے بعد دن کی روشنی میں فراہم کر دیا۔ جوابی حملہ اتنا بھرپور تھا کہ بھارتی فضائیہ کے اوسان خطا ہو گئے۔ ”دفاع“ کی فکر میں انہوں نے اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو میزائل مارکر گرا دیا۔ دریں اثناء جو طیارہ پاک سرحد میں گھس آیا تھا اسے واپس لوٹنا نصیب نہ ہوا۔ وہ مار گرایا گیا اور اس کا پائلٹ گرفتار ہوا۔ شدید تناؤ کے عالم میں جو معرکہ ہوا اس کے انجام پر پاکستان واقعتاً One۔ Upرہا۔ ہماری برتری کو فضائی جنگ کے کئی عالمی ماہرین نے بھی ماہرانہ تجزیوں کے ذریعے پوری تفصیلات سمیت بیان کرتے ہوئے کھلے دل سے تسلیم کیا۔ کئی بھارتی مبصرین بھی یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوئے تعداد کے اعتبار سے پاکستانی فضائیہ کے مقابلے میں Quantitative Edgeکے ہوتے ہوئے بھی ان کی فضائیہ مہارت سے یکسر محروم نظر آئی۔ اسی تناظر میں فرانس سے رافیل طیاروں کو فی الفور حاصل کرنے کی فریاد شروع ہو گئی۔

جنگ مگر ایک ہی معرکے پر مشتمل نہیں ہوتی۔ اس کے کئی راؤنڈ ہوا کرتے ہیں۔ ابھی نندن کی گرفتاری کے بعد بھی لہٰذا ”وٹ نیکسٹ“ کا سوال اٹھ کھڑا ہوا۔ پاکستان کے ابتدائی راؤنڈ میں One۔ Upرہنے کی حقیقت کی وجہ سے مودی سرکار شدید نفسیاتی دباؤ کاشکار ہو چکی تھی۔ پاکستان پر میزائلوں کی بارش برساکر بدلہ لینے کے منصوبے تیار تھے۔ ان کا موثر جواب آنا بھی لازمی تھا۔ بھارت کی جانب سے “ون اپ” کا بدلہ لینے کی جو تیاری تھی وہ امریکہ جیسے ملکوں کی نگاہ میں تھی۔ یہ جنوبی ایشیاء کو ”ایٹمی جنگ“ کی جانب دھکیل سکتی تھی۔

ان دنوں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اپنے عہدے سے فراغت کے بعد جو کتاب لکھی ہے اس میں اس تناظرمیں ابھرے تناؤ کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ یہ بات ویسے بھی عیاں تھی کہ پاکستان کے دوست ممالک نے یکسوہوکر ہمیں اس امرپرقائل کیا کہ بھارتی پائلٹ کی غیر مشروط رہائی سے ”بڑاپن“ دکھایا جائے۔ ون اپ ثابت ہوجانے کے بعد ہمیں اس ضمن میں ضد اختیار کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔

ہم میں سے بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہے کہ جب یہ واقعات ہو رہے تھے تو امریکی صدر شمالی کوریا سے ”تاریخ ساز صلح“ کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ ان کوششوں میں ناکامی اس کا مقدر نظر آ رہی تھی۔ اس ضمن میں اپنی خفت مٹانے کے لئے اس نے پاکستان کے وزیر اعظم کی جانب سے بھارتی پائلٹ کی رہائی کا ہماری پارلیمان میں باقاعدہ اعلان سے کم از کم چار گھنٹے قبل ہی اپنے بیرونی دورے میں عالمی میڈیا کے روبرو یہ انکشاف کر دیا تھا کہ اسے جنوبی ایشیاء سے ”اچھی خبریں“ سننے کو مل رہی ہیں جو ایک خونخوار جنگ کے تدارک کو یقینی بنائیں گی۔

ٹھوس تناظر میں ایاز صادق کا قومی اسمبلی میں دیا بیان اپنے تئیں کسی بھی وقعت کا ہرگز حامل نہیں تھا۔ حکومت کے جارحانہ طعنوں سے زچ ہوکرپوائنٹ سکورنگ کی ایک بچگانہ کوشش تھی۔ یہ محض نظراندازی کی مستحق تھی۔ اندھی نفرت وعقید ت کے جنون میں لیکن بات کا بتنگڑبنا دیا گیا ہے۔ ایاز صادق کی سرزد ہوئی حماقت کو ”غداری“ بتایا جا رہا ہے۔ اس کو بنیاد بناکر نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ پر بھی دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ خود کو ”محبت وطن“ ثابت کرے۔ وگرنہ۔

وگرنہ کا ذکر کرتے ہوئے ہذیانی کیفیت میں مطالبہ یہ بھی ہے کہ ایاز صادق فی الفور گرفتار ہوں۔ ان پر ”غداری“ کا مقدمہ چلے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے لئے اس کی بدولت ایک ”ریڈ لائن“ کھیچ دی جائے۔ اس جماعت سے وابستہ افراد اگرایاز صادق کو اون کرنے پر بضد رہیں تو مسلم لیگ (نون) کو بحیثیت مجموعی ”غدار“ ٹھہراکر کالعدم قرار دلوایا جائے۔

وطن عزیز میں مخالف سیاسی جماعتوں سے ”نجات“ حاصل کرنے کے لئے ”غداری“ کا ہتھیار پہلی بار استعمال نہیں ہورہا۔ شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ ہوا تھا۔ وہ مگر سقوط ڈھاکہ روکنے میں ناکام رہا۔ ”غداری“ والے ہتھیار کے بے اثر ثابت ہوجانے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف بھی یہی ہتھیار استعمال کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس جماعت کوغدار کہتے ہوئے ”کالعدم“ ٹھہرادیا۔ ولی خان اس کے بعد حیدر آباد جیل میں بند ہوئے ”بغاوت“ کے مقدمے کا سامنا کرتے رہے۔ دریں اثناء ”کالعدم“ ٹھہرائی نیشنل عوامی پارٹی نے سردار شیرباز مزاری کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے روپ میں ایک نیا جنم لیا۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے چند ہی دن بعد جنرل ضیاء نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ولی خان کو رہا کر دیا۔ ولی خان اس کے بعد 1988 کی قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ ان کی جماعت نے ایک نہیں کم از کم تین بار نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ 1990 کی دہائی میں ان دنوں کے صوبہ سرحد میں کامل سیاسی اشتراک برقراررکھا۔

بہت کم لوگوں کو یہ حقیقت بھی یاد رہی ہوگی کہ 16 اکتوبر 1978 کی شام جنرل ضیاء نے ایک نہیں ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو یکمشت ”کالعدم“ قرار دیا تھا۔ اسی باعث 1985 کے انتخابات ”غیر جماعتی“ بنیادوں پرہوئے تھے۔ جنرل ضیاء کی نگہبانی میں ابھری قومی اسمبلی سے مگر محمد خان جونیجو کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ کا احیاء ہو گیا۔ اس کی بدولت دیگر جماعتیں بھی ایک بار پھر ”زندہ“ ہو گئیں۔ سیاسی جماعتوں کا مقابلہ فقط سیاسی میدان میں ہی ہوا کرتا ہے۔ ریاست کے دیگر اداروں کو ان سے ”نجات“ حاصل کرنے کے لئے اکسانے یا ملوث کرنے کی کوششوں سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ خدا جانے بلیو مون کے موسم میں میری اس فریاد پر کوئی غور کرنے کو تیار ہوگا یا نہیں۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).