پنڈی یا لندن: گیم کس کے ساتھ ہو گی


ماتھے پر پسینہ، کانپتی ٹانگیں، ابھی نندن کو چھوڑ دو، انڈیا حملہ کر دے گا۔ ایاز صادق کے قومی اسمبلی میں دیے بیان نے زلزلہ برپا کر دیا۔ اے کی ہو گیا۔ لٹے گئے۔ قسم کا ماحول پیدا ہو گیا۔ اس ماحول میں خواجہ آصف کی اسی ٹاپک پر کی گئی اسمبلی میں تقریر اوجھل ہو گئی۔

خواجہ آصف نے اسی ٹاپک پر بولتے ہوئے کہا کہ ابھی نندن کو چھوڑنے کے لیے میٹنگ بلائی گئی۔ ایک گھنٹہ ہم انتظار کرتے رہے وزیر اعظم کا۔ وہ نہیں آئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اس اجلاس میں شریک تھے۔ شاہ محمود قریشی بھی تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ابھی نندن کو چھوڑ دیا جائے تو ہمارا بھارت مہان خوش ہو گا۔ ( خواجہ صاحب نے یہ نہیں بتایا یا شاید انہیں نہیں بتایا گیا کہ خوش ہو گا تو کیا کرے گا ) ۔

خواجہ آصف نے کہا کہ آرمی چیف نے بریفنگ دی۔ ہمیں بتایا کہ اس رہائی سے ٹینشن میں کمی آئے گی، ماحول بہتر ہو گا۔ ہم نے اس رہائی پر تب اعتراض نہیں کیا۔ اب ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ جو سرمایہ کاری کی گئی اس کا حاصل وصول کیا ہوا؟

ایاز صادق نے جو شرلیاں پٹاکے مارکہ جملے بولے۔ خواجہ آصف اس سے زیادہ اعتراض نما سوال کر رہے ہیں اور وہ بھی سیدھا سر جی سے ہی۔

ایاز صادق نے تو جملہ ایسا بولا کہ شاعر ادیب بٹھا لیں وہ بتانے میں ناکام رہیں گے کہ ماتھے پر پسینہ کس کے تھا اور کانپتی ٹانگیں کس کی تھیں۔ ان تقریروں کے بعد سے اپنے شاہ محمود قریشی صاحب غائب ہیں۔ کیا پتہ ان کی حلوے کی دیگ جل رہی ہو، وہ اس میں چمچ مارنے ملتان پہنچ گئے ہوں۔ یا سوچا ہو کہ بھاگو ادھر جنگ لگنے لگا۔ یا انہیں یہ خدشہ ہو گا کہ اب میں بولا تو خواجہ مجھ سے سیدھا ہی نہ ہو جائے، تو چپ ہی بھلی کپتان جانے اور پہلوان جانیں۔

ان تقریروں کے بعد سر جی نے سوٹی پکڑی ہے اور پی ایم ہاؤس پہنچے ہیں۔ وہاں لمبی میٹنگ ہوئی۔ اپنی کوئی چڑیا موقع پر موجود نہیں تھی۔ لیکن لمبی چھوڑنے میں ہرج کیا ہے۔ وزیر اعظم اپنا ہے تو چیف بھی تو اپنے ہی ہیں۔ اس میٹنگ کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر سامنے آتے ہیں۔ ایاز صادق کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں۔

اس ڈانٹ ڈپٹ سے ہم اندازہ لگانے میں آزاد ہیں کہ کپتان نے کہا ہو گا۔ یہ کیسی منجی یہ کیسا ایک پیج ہے جس پر ہم پڑے ہیں۔ اپوزیشن روڈو روڈ پھر رہی ہے۔ جو دل آیا کہہ رہی ہے۔ نہ میرے وزیر بولتے ہیں۔ بولتے ہیں تو کوئی سنتا نہیں۔ تو اتنا بڑا آئی ایس پی آر کیوں نہیں بولتا۔ بی ایم ڈبلیو کی ایٹ ”جنریشن“ گاڑی آ گئی۔ یہ ابھی ففتھ جنریشن وار ہی لڑتے پھر رہے۔ کپتان کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہو گی کہ دیکھو وہ تو پہلے ہی کہتے ہیں کہ سٹیٹ ابو دا سٹیٹ۔ اب ہم اس پر بول کر انہیں اور اپنی طرف سیدھا کر لیں۔

نہیں سیدھا کرنا نہ کریں۔ وہ پھر نام بھی تو آپ کا ہی لیتے ہیں۔ کہ کشمیر، مہنگائی، بیروزگاری، آٹا، چینی، اور ہماری چولوں تک کے ذمہ دار آپ ہیں۔ اس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آڑ کا بیان آتا ہے۔ اس بیان کے ساتھ ہی فواد چودھری کی تقریر بھی لف ہوئی آتی ہے۔ انڈین میڈیا کے ساتھ عالمی میڈیا پر پلوامہ پلوامہ ہو جاتی ہے۔ اخے ہمیں گھس کر مارا۔

اب دفتر خارجہ وضاحتیں دیتا پھر رہا۔ دنیا بھر سے فون آ رہے اور سرکاری بابو لوگ وہ سنتے ہلکان ہو رہے۔ اس سب میں اضافی لطیفہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم چھٹی پر ہے۔ سر جی کو چھٹی نہیں مل رہی۔ اپوزیشن سے جو اٹھتا ہے انہی کو سیدھا ہو جاتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن اس ساری صورتحال کے مزے لے رہے تھے۔ ایاز صادق کو شاباش اور داد دینے کے لیے وہ اسلام آباد سے اٹھ کر لاہور پہنچ گئے۔

اس سب کو اک اور طرح دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ نون میں اک مفاہمتی ٹولہ تھا۔ میاں شہباز شریف، خواجہ آصف، ایاز صادق اور رانا تنویر۔ یہ سب لوگ مفاہمت کی بات کرتے تھے۔ نیویں نیویں ہو کر اس حکومت کا ٹائم پورا کرانے کے حامی ہیں۔ اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے اک ریلیف چاہتے تھے۔

ایاز صادق اور خواجہ آصف کی تقاریر کسی کے لیے پیغام ہیں کہ وہ پڑا تمھارا مفاہمتی گروپ۔ اب ان سے دل کرتا تو لڑ لو دل کرے تو منا لو، یا میری طرف سے اجازت ہے کہ ان کی ٹکور کا اعلی انتظام ہی کر لو ( یہ ٹکور کولوں پائی اے ) ۔

خواجہ آصف اور ایاز صادق دہائیوں سے پارلیمانی سیاست میں ہیں۔ ہوا کا رخ پہچانتے ہیں۔ ہوا گرم تھی تو پھونکیں مار کے ٹھنڈی کر رہے تھے۔ اب ہوا بدلی ہے تو اس کو ریس دے کر آندھی بنا رہے ہیں۔

آندھی سے یاد آیا کہ اک گپ بھی سنائی جائے۔ اسے گپ ہی سمجھیں۔ مریم نواز احتساب عدالت پہنچیں وہاں حمزہ شہباز اور شہباز شریف سے گلے ملیں۔ گپ یہ ہے کہ شہباز شریف نے پھر کوئی ملاقات کی ہے۔ احتساب عدالت پہنچ کر مریم نواز نے تاثر دیا کہ م ش ن ایک ہیں۔ وہیں چچا سے گلے ملتے ان کے کان میں کہا کہ گل ودھ گئی اے اب ملاقاتوں سے باز رہیں۔ حمزہ سے کہا ہو گا کہ ابا جی پر نظر رکھ۔ یہ بہرحال اک گپ ہے۔

لندن میں اس وقت دو ملکوں کے سفیر بہت سرگرم ہیں۔ دونوں کسی صورت ٹک کے بیٹھ ہی نہیں رہے۔ ہمارا بے وثوق ان کی آنیاں جانیاں دیکھ رہا ہے۔

بے وثوق کا کہنا ہے کہ اپوزیشن آخر میں تو الیکشن ہی مانگ رہی ہے ناں؟ تو الیکشن اگر دو ہزار اٹھارہ والے ہوئے تو پھر۔ اب جو پی ڈی ایم نے اپنے انقلاب کو ریسٹ دے رکھا ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ اک تو گلگت بلتستان کا الیکشن ہے۔ اس الیکشن سے اندازہ لگایا جائے گا کہ پاکستان کے اگلے جنرل الیکشن کیسے ہوں گے ۔ ان کے نتائج کتنے اعتباری ہوں گے ۔

گلگت بلتستان کے الیکشن میں کوئی فوجی نہ پولنگ بوتھ کے اندر ہو گا نہ باہر، کیسا؟ کچھ سمجھ آئی؟

ہمارے صوبیدار صاحب ( ڈیفنس رپورٹر ) کا کہنا ہے کہ پوری ناردرن لائٹ انفنٹری کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ یہ ہزاروں سپاہی اور افسر ہیں۔ اب وہاں بھی پوٹھوہار کی طرح فوجی فیملیز ہیں۔ وہ قومی مفاد میں ایک کلسٹر کی طرح ووٹ ڈال کر کسی اک پارٹی کو اوپر لے آئیں تو اسے دھاندلی وغیرہ لکھا بولا یا بتایا تو پھر دیکھنا۔

بے خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت مختلف آپشن پر غور ہو رہا ہے۔ ایک سائڈ اگزیکیوشن پلان پر غور کر رہی ہے۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ کون سا روٹ لیں۔ کس کو پہلے بھیجیں کس کو رکھیں، گارنٹی کس سے لی جائے اور کیسے۔ دوسری سائڈ ایگزٹ پلان اور آخری ڈیفنس لائن جس سے پیچھے نہیں جانا اس کی جزئیات طے کر رہی ہے۔

پی ڈی ایم کو ایک مسئلہ اور بھی درپیش ہے۔ چلیں بلوچستان کی مثال سے سمجھتے ہیں۔ سٹریٹ پاور رکھنے وال ساری پارٹیاں پی ڈی ایم میں جمع ہو گئی ہیں۔ مسلم لیگ نون نے سردار ثنا اللہ زہری اور جنرل قادر بلوچ کی قربانی دینا منظور کر لیا ہے۔ بلوچستان کی ان سیاسی جماعتوں سے بڑی پارٹیاں اب کیا کہہ رہی ہوں گی ؟ یہی کہ اگر ہم سول رٹ بحال کرنے نکلے ہیں تو پھر بلوچستان میں عسکریت کا خاتمہ بھی ہماری ہی ذمہ داری ہو گا۔ تو کم ود این آئیڈیا سردار جی۔ کر کے دکھانا پڑے گا۔ اس کو سوچیں تو یہ آسان کام نہیں۔ جب تک پی ڈی ایم دوبارہ جلسوں میں نہیں جاتی تب تک یہ سب اور بہت کچھ سمیت مذاکرات کے اس دوران ہوتا رہے گا۔

پنڈی، اسلام آباد، میانوالی۔ ان تین میں سے کون سا ایک پہلے جاتا۔ لندن پاکستان آتا یا نہیں۔ سب اپنی اپنی گیم لگا رہے ہیں۔ جب اتنی زیادہ گیم لگ رہی ہوں تو پھر گیم ہی ہوتی ہے یہ کس کے ساتھ ہو جائے اس کا کچھ پتہ نہیں لگتا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi