مندر کلیساؤں اور اقلیتوں کا تحفظ بھی عبادت ہے


شدید دکھ اور کرب کی کیفیت ہے جب سے سوشل میڈیا پر کسی مندر کی دی گئی تصاویر دیکھی ہیں جہاں پر کسی نے ہندوؤں کے تہوار کے موقع پر رات کے وقت چھپ کر مندر میں موجود بت توڑ دیے اور ان ٹوٹے بتوں کو زمین پر پھینک کر اپنے بت شکن ہونے کو ثابت کیا۔ یقیناً ہندوؤں کو بھی اتنا ہی رنج اور دکھ ہوا ہوگا جتنا ہم مسلمانوں کو فرانس کے صدر کی حرکت پر ہوا ہے۔ کیا اپنے پکے مذہبی ہونے کے ثبوت کے لیے یہ ضروری ہے کہ دیگر اقلیتوں کو دکھ دیا جائے یا ان کے نابالغ بچوں اور بچیوں سے اپنے مذہب کو اختیار کروایا جائے؟

اس قسم کے غیر انسانی اور اوچھے ہتھکنڈے اسی وقت استعمال کیے جاتے ہیں جب مذہب پر عملی اور درست عمل ہو نہ رہا ہو اور مذہبی اعمال پابندیاں لگ رہی ہوں تب اپنی عاقبت بچانے کے لیے شارٹ کٹ ڈھونڈے جاتے ہیں جن پر عمل آسان ہو جیسے کسی کے مذہب کی توہین کرنا، کسی کو بزور طاقت اپنے مذہب میں لانا، کسی کو کافر قرار دے کر مار دینا یا کسی کو جھوٹ بول کر نقصان پہنچانا وغیرہ اور ان اعمال کو کر کے جنت میں اپنی سیٹ پکی کی جاتی ہے۔

درحقیقت کوئی بھی مذہب ایسے ناعاقبت اندیش اور گمراہ لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ ان سے بے زاری کا واشگاف اعلان کرتا ہے۔ اور اسلام کا تو مطلب ہی تحمل سلامتی اور امن ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کسی کی دل آزاری اور زبردستی کا قائل ہو۔ اسلام تو سراسر عمل کرنے کا نام ہے یعنی مسلمان ہونے کے لیے کلمہ گو ہونا کافی نہیں ہے اسلام انسانوں کے حقوق پر اس قدر زور دیتا ہے کہ بہت سی جگہوں پر حقوق اللہ میں نرمی کا اشارہ ملتا ہے لیکن حقوق العباد کسی صورت معاف نہیں ہیں۔

بچپن سے ہی محلے کی مساجد میں تبلیغی جماعتوں کا آنا اور محلے میں گھر گھر جا کر لوگوں کو مسجد کی دعوت دینا اور اسلام کی بنیادی تعلیمات دیتے دیکھتے آئے ہیں۔ وہی مخصوص انداز میں مخصوص باتیں بیان کرنے اور اسلامی عبادات کی اصلاح کے بعد ایک جملہ جو ہمیشہ اچھا لگتا تھا وہ یہی کہنا کہ بھائیو! یہ دین ہماری زندگیوں میں ایسے ہی نہیں آئے گا بلکہ اس کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔

اور حقیقت بھی یہی ہے اسلام صرف مسلمان کے گھر پیدا ہونے کا اعزاز نہیں ہے بلکہ بذات خود اسلام پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ اگر اوائل اسلام کے دور کا مطالعہ کیا جائے تو ہجرت مدینہ کے بعد اسلام کے پھیلاؤ میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا اور اردگرد کی بستیوں نے جوق در جوق اسلام میں شمولیت اختیار کی۔ تحقیق اور تاریخ اس بات کی ایک ہی وجہ ثابت کرتی ہے کہ اسلام کے عملی نفاذ اور مسلمان کے کردار کا ہی یہ اعجاز تھا کہ جو بھی دیکھتا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔

صحیح احادیث اور سیرت مبارکہ کی کتابوں میں بکثرت ایسے واقعات کا تذکرہ ہے کہ جب بھی کسی بستی یا قبیلے کا کوئی شخص خدمت اقدس میں حاضر ہوتا تو کردار اور سیرت طیبہ کے مشاہدے کے بعد بلا جھجک اسلام قبول کرنے میں کسی تاخیر کا شکار نہ ہوتا اور جب واپسی پر تبلیغ اور ترویج اسلام کے لیے اپنے قبیلہ یا بستی کا قصد کرتا تو ایک ہی نصیحت بارگاہ رسالت مآب سے ملتی کہ کسی کو تبلیغ یا اسلام کی دعوت دینے کی بجائے خود اسلام پر سختی سے عمل پیرا رہنا یا بہت ہوتا تو کوئی ایک نصیحت کر دی جاتی کہ نماز نہ چھوڑنا، جھوٹ نہ بولنا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا یا والدین اور بچوں سے محبت سے پیش آنا وغیرہ۔ ان ہی انفرادی اعمال کا کمال یہ سامنے آتا کہ اس فرد واحد کی کایا پلٹ جاتی اور اس کے قبیلے اور بستی والے خود سوچنے پر مجبور ہو جاتے کہ ایسا کیا ہوا جو اس جیسا شخص بھی مکمل بدل گیا اور یہی تجسس اور اشتیاق اسلام کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ بنا۔

یعنی سب سے پہلے اپنے آپ کو اس قابل بنایا جاتا کہ ہر نقصان اور خوف سے بالا تر ہو کر اپنے اسلام کی حفاظت کی جائے اور باقی کام اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ کسی بھی مسلمان کو یہ کس نے کہہ دیا کہ اگر وہ اسلام پھیلائے گا یا تبلیغ کرے گا تو ہی اسلام پھیلے گا۔ بھئی اسلام الہامی مذہب ہے اس کو اپنا آپ منوانے کے لئے ہم جیسے گناہ گاروں کی کوئی مدد نہیں چاہیے۔ قسم سے بار بار یہی کہا گیا ہے کہ تم سے قبر و حشر میں تمھارے اعمال کے بارے سوالات ہوں گے یعنی جگہ جگہ یہی کہا گیا ہے کہ تم اپنے آپ کو سدھار لو دنیا خود ہی سدھر جائے گی اور اگر نہ بھی سدھری تو تم اس کے لیے پریشان نہ ہو اللہ کے ہاں تم سے تمھارے اعمال پر ہی سزا یا جزا کا فیصلہ ہوگا۔ یعنی واقعی میں سخت محنت کرنی پڑے گی اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے ورنہ ایسے ہی یہ مذہب زندگیوں اور معاشرے میں نہیں آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).