دہشت گرد کیوں پیدا کیے گئے؟


کابل یونیورسٹی کے کتاب میلے میں ہوئی دہشت گردی سے متعلق جان کر گیارہ سالہ تمجید نے مجھ سے سوال کیا، ”دہشت گرد بالآخر پیدا ہی کیوں کیے گئے؟“ بچے کے اس سوال سے یہ تو واضح ہو گیا کہ بچوں تک کو علم ہو چکا ہے کہ دہشت گرد بنتے نہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں ہاں البتہ روس میں بڑے ہوئے اس بچے کو یقیناً یہ معلوم نہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں اب مزید دہشت گرد پیدا کیے جانے کی ضرورت نہیں رہی ہے کیونکہ لوگ انفرادی طورپردہشت گردی کا مرتکب ہونے والوں ‌ کو بھی سرآنکھوں پہ بٹھا لیتے ہیں ‌ چاہے وہ گورنرکو سفاکانہ طور پر قتل کرنے والا اس کا محافظ ہو جسے قانون نے مجرم کے طو پر سزائے موت سنا کے تختہ دار پہ چڑھا دیا ہو یا حال ہی میں ایک چھوٹے شہر میں مذہب اور مذہبی شخصیات بارے بے علم بینک گارڈ ہو جس نے بینک مینیجر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

بچے کا دوسرا سوال یہ تھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہیں، جس پر بظاہر میں بھی جذباتی ہو گیا اوراسے آئرش، اورتامل دہشت گردوں کے بارے میں بتانے لگا۔ بلجیم اور نیوزی لینڈ میں بچوں اورنمازیوں کا قتل عام کرنے والے مجرم دہشت گردوں کے بارے میں اس لیے نہ بتایا کہ بچے کو مزید پریشان کیا کرنا۔ اس نے سوال اس لیے کیا تھا کہ حال ہی میں ‌ فرانس اورآسٹریا میں ہوئی دہشت گردی سے متعلق خبریں سنتا اوردیکھتا رہا تھا۔

دہشت گرد، سب جانتے ہیں کہ دہشت گرد بنائے یا پیدا کیے جاتے ہیں لیکن ایسا کیوں کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں یا تو یہ کہا جاتا ہے کہ مخصوص ملک یا ممالک اپنے سیاسی مفادات کو آگے بڑھانے کی‌ خاطر ایسا کرتے ہیں یا پھر یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والے قتل وغارت کو ان ملکوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جن ملکوں نے ان کے خیال میں یا تو ان کے ملک پر قبضہ کیا ہو یا کسی نہ کسی طریقہ سے ان کی ثقافت پامال کرنے کے درپے ہوں اورایسے لوگ مذہب کو ثقافت بلکہ اس سے برتر و سرفراز جانتے ہوں۔ ایک تیسرا موقف یہ بھی رہا کہ دہشت گردی کچھ ملکوں کی افواج کی جانب سے ہوئی زیادتیوں کے ردعمل میں جنم لیتی ہے کیونکہ کمزور طاقتور سے دوبدو مقابلہ نہیں کر پاتے۔

افغانستان میں دہشت گردی امریکہ کے تقریباً نکل جانے کے بعد بھی کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں ساٹھ ہزار سے زائد عام لوگ اس کا شکار ہوئے، توجیہہ یہ دی جاتی رہی کہ پاکستان نے امریکہ کوافغانستان میں جنگ کے سلسلے میں مدد دی تھی۔ یوں دہشت گردی کو ملکوں کی حکومتوں یا ریاستوں کو کمزور یا بے بس ثابت کر کے سیاسی بحران پیدا کیا جانا مقصد ہوتا ہے۔ آئرلینڈ والے برطانیہ کے خلاف، فلسطینی اسرائیل کے خلاف اور تامل سری لنکا کی اکثریتی آبادی اوران کی حکومت کے خلاف یہ سب کچھ کرتے رہے۔

مگر بین الاقوامی دہشت گردی کی شروعات چونکہ افغانستان میں ‌سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی معاونت سے امریکہ کی جنگ کے دوران مسلمانوں کو جہاد کے نام پر بھڑکا کر لڑی گئی تھی اورمسلمانوں کو امریکی مشیروں اور پاکستانی فوج کے انسٹرکٹرز نے یہی باور کروایا تھا کہ یہ لڑائی کفر کے خلاف ہے چنانچہ مسلسل جنگ کرتے ہوئے اور کسی نوع کا کام نہ کر سکنے کے قابل ہو جانے والے تربیت یافتہ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ پاکستان، امریکہ یورپی ملکوں کے خلاف اپنے خٰیال میں کفار یا ان کے کسی بھی طرح سے مدد گار حکومتوں کے خلاف معصوم لوگوں کی زندگیاں لینے لگے بلکہ جذباتی نوجوانوں کو بھڑکا کر اپنے ساتھ ملانے لگے۔

عراق پر دھاوے اورقبضہ کے بعد سوویت یونین کے انہدام کے بعد بچ رہنے والے بڑے ملک روس کے واحد حلیف ملک شام میں حکومت کو جنگ سے دوچار کرنے کی خاطر عراق میں ‌پیدا کی گئی داعش کو آگے بڑھایا گیا جس سے روس نے نمٹ لیا۔ عراق میں امریکہ اور یورپی ملکوں کو خود ان کے پاؤں اکھاڑنے پڑے یوں یہ تربیت یافتہ بدلے ہوئے خیالات والے لوگ ان تمام ملکوں میں لوٹ گئے جہاں ‌ان کے خٰیال میں کفر ہے اوراس کے خلاف مقاومت آرائی کرنا عین ثواب ہے۔

ایسے ہی لوگ ان ملکوں میں دوسرے جوان لوگوں کے اذہان پراثر انداز ہوئے ہوں گے تبھی تو فرانس میں اٹھارہ سالہ چیچن نسل کے فرانسیسی نے توہین رسالت کے سلسلے میں استاد کی گردن کاٹ دی اورالبانیہ سے آسٹریا میں منتقل ہوئے والدین کے بیس سالہ بیٹے نے ویانا میں لوگ مار دیے اور زخمی کر دیے۔ تبھی تو روس سے سپین تک یورپی ملکوں ‌ کے بچے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد صرف مسلمان ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).