موجودہ سیاسی منظر نامہ اور پس پردہ حقائق!


موسم سرما کی آمد آمد ہے، درجہ حرارت نقطہ انجماد کی جانب گرا جاتا ہے، خزاں سبزہ و گل کا حسن گہنانے کو آیا ہی چاہتی ہے، اس کے برعکس پاکستان کی سیاست کا درجہ حرارت گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر یک جا ہوجانے والے حزب اختلاف کی قیادت بظاہر مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ہے، لیکن خصوصی اہمیت تین بار وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے والے اور ایک بار بھی وزیراعظم کے عہدے کی مدت پوری نہ کرنے والے، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو حاصل ہے۔

نواز شریف کا اصرار ہے کہ وہ آئین کی بالادستی، عوام کی حاکمیت اور جمہوری اقدار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اے پی ڈی ایم کے جلسوں میں لندن میں بیٹھ کر ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطبات میں نواز شریف چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کے خلاف الزامات کی ایک لمبی فہرست بتاتے ہیں، اور تیسری بار اپنی مدت پوری نہ کرنے کا سارا ملبہ ان دونوں حضرات پر گراتے ہیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی تقاریر کا بنیادی نکتہ آئین کی بالا دستی ہے۔

نواز شریف کی تقریر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سیاسی اصطلاحات کی آڑ میں اور آئین کی بالا دستی کے نام پر اپنی ذاتی لڑائی اور اختلافات کے لیے سرگر م ہیں۔ آئین کی بالا دستی کے نام پریاد آیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے آخری دور میں علامہ طاہر القادری بھی کینیڈا سے تشریف لائے تھے اور اسلام آباد میں دھرنے کے دوران صبح شام آئین کی ان شقوں کی تلاوت کیا کرتے تھے جو عوامی مفاد ات اور حقوق سے متعلق تھیں۔

قادری صاحب چیخ چیخ کر یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ جب تک آئین کی بالادستی اور مکمل نفاذ نہیں ہوگا وہ اپنا دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ لیکن قادری صاحب آئین کی بالا دستی تو کیا کرواتے سیاست میں پرتعیش کنٹینر کو متعارف کروا کر اور اسلام آباد کی بڑی شاہراہ پر ٹنوں کے حساب سے کچرا چھوڑ کر واپس اپنے دوسرے دیس کینیڈا سدھار گئے کہ ایک حلف وفا داری وہاں بھی لے رکھا ہے۔ اب نواز شریف جس انداز سے آئین اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں اورجس طرح آرمی چیف کے خلاف الزامات عائد کرتے ہیں وہ بھی اپنی جگہ ایک معمہ ہی ہے۔

اپنے سارے سیاسی کرئیر کے دوران نواز شریف کوئی ایک کام ایسا بتا دیں جو انہوں نے ملک میں آئین اور جمہوریت کی بالا دستی کے لیے کیا ہو؟ ، اگرچہ وہ، محترمہ نے نظیر بھٹو کے ساتھ طے پانے والے مثاق جمہوریت کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں لیکن اس کا پس منظر بھی پرویز مشرف سے ذاتی عناد اور لڑائی ہی تھی، اور تختہ مشق بنے آئین اور جمہوری اقدار۔ جنرل باجوہ کے خلاف جو لب و لہجہ انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ اپنی جگہ، لیکن ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ جب جنرل صاحب اور ان کے درمیان اس قدر عناد اور بد اعتمادی تھی تو ان کی مدت ملازمت میں تو سیع کی مسلم لیگ نون نے حمایت کیوں کی تھی؟

سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ مسلم لیگ مقتدرہ کی حمایت یافتہ اور بالا دست طبقات کی جماعت ہے اور ہمیشہ سے اقتدار کے پانی کی مچھلی رہی ہے۔ خواہ وہ اقتدار انتخابات میں فتح کے نتیجے میں حاصل ہو یا پھر کسی آمر کے طفیل۔ اقتدار اور اختیار مسلم لیگ میں شامل افراد کی کمزوری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ نواز شریف جو لڑائی اپنی تقاریر کے ذریعے لڑ رہے ہیں، اس لڑائی کو عملی میدان میں لڑنے کے لیے ان کے پاس وہ فوج ہی نہیں ہے۔ ان کے پاس پہاڑوں کا سینہ چیر کر دودھ کی نہر کھودنے والے فرہاد کی بجائے، دودھ پینے والے لاڈلے ہیں۔ جس اتحاد کے نام پر حزب اختلاف جمع ہے اس کے اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ رہا حکومت کا معاملہ تو ایاز صادق نے اسمبلی میں تقریر کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے جو کچھ کہا، اس کو لے کر حکومتی وزراء نے جو مزید ملامت اپنے حصے میں سمیٹی ہے، وہ ایچی سن کالج کے لونڈوں کی شرارت نہیں بلکہ طفلانہ اور چھچھور پن ہے، جس کا مظاہرہ آئے دن دیکھنے کو ملتا ہے۔

معروف مؤرخ، تجزیہ نگار اور مارکسی دانشور حسن جعفر زیدی آج کے سیاسی منظر نامے کا پس منظر اپنے مختصر دورانیے کے چار ویڈیو کلپس میں نہایت تفصیل سے بتاتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن ان یہ گفتگو تصویر کا ایک دوسرا ہی رخ دکھاتی ہے۔ یہ کلپس ان کی فیس بک وال پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ حسن جعفر زیدی اپنی گفتگو کا آغاز سرد جنگ کے زمانے سے کرتے ہیں۔ چونکہ کالم کا دامن تنگ ہے لہذا ان کی گفتگو کا صرف اختتامی خلاصہ آپ کے سامنے رکھوں گا۔

حسن جعفر کے مطابق عالمی اسٹیبلشمنٹ اور ہماری داخلی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے ایک صفحے پر رہے ہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر بھی اسی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں جو عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ایک ایجنڈا سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اداروں کی نجکاری تھا، اور دیکھتے دیکھتے صحت، تعلیم، بجلی، ٹرانسپورٹ اور اہم صنعتیں نجی شعبے کے سپر دہوئیں۔ عالمی طاقتوں میں بھی تقسیم موجود ہے ایک وہ طاقتیں ہیں جن کا چوہدری امریکہ ہے اور دوسرا شنگھائی گروپ ہے، امریکہ اور اس کے حواری ممالک کا دوسرا بڑا ایجنڈامشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو چوہدری بنانا اور یہاں جنوبی ایشیا میں انڈیا کو پولیس مین کا کردار دینا ہے۔

جس کے لیے کچھ میڈیا ہاؤسز نے بھی امن کی آشا اور پاک بھارت دوستی کے حوالے سے مہم چلائی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو سب سے بڑا مسئلہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے اس وقت ہوا جب انہوں نے خطے میں انڈیا کو پولیس مین کا کردار دیا۔ نواز شریف بھارت سے دوستی اور اچھے تعلقات کے سب بڑے حامی ہیں اس معاملے میں انڈو امریکہ لابی کے سب سے بڑے سرخیل ہیں۔ ان کا بنیادی جھگڑا بھی داخلی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یہی ہے۔

مزید خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب ہمارے اداروں اور میڈیا میں بھی انڈو امریکہ لابی اور شنگھائی لابی کی بنیاد پر تقسیم ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف سے نواز شریف کو ضمانت ملتی ہے تو دوسری جانب سے ضمانت منسوخ ہوجاتی ہے۔ ایک چینل پر نواز شریف مظلوم ہیں اور دوسرے پر معتوب۔ اس سارے قصے میں پاکستان کی بائیس کروڑ عوام کا کوئی پر سان حال نہیں جو مہنگائی، بے روزگاری، پس ماندگی اور غربت کا شکار ہیں۔

موسم سرما کی آمد آمد ہے، درجہ حرارت نقطہ انجماد کی جانب گرا جاتا ہے، خزاں سبزہ و گل کا حسن گہنانے کو آیا ہی چاہتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسست میں بہار کس پر آتی ہے اور خزاں کس کو اجاڑتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).