اچھا شوہر اور اچھا باپ ہونا زیادہ ضروری ہے


ملک کے معروف موٹیویشنل سپیکر قاسم علی شاہ فرماتے ہیں کہ بچیوں اور خواتین کو اچھی بیوی اور اچھی ماں بننے کی تربیت دینا ضروری ہے۔ یہ تربیت لازمی دی جانی چاہیے۔ بجا فرمایا ہے، میں متفق ہوں۔ بچیوں اور لڑکیوں کو یقیناً اچھی بیوی اور اچھی ماں بننے کی تربیت ملنی چاہیے۔ خاندان اور معاشرے کے اخلاقی اور معاشرتی معاملات کو مثبت طریقے سے چلانے کے لئے اچھی بیوی اور اچھی ماں کے کردار کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اچھی بیوی اور اچھی ماں ہی اچھا گھر تشکیل دیتی ہیں اور اسی سے اچھا معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ چونکہ عورت اور مرد ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور عورت معاشرے میں وہی مقام رکھتی ہے جو مرد کا ہے تو اس کے تربیت یافتہ ہونے سے انکار قطعاً ممکن نہیں۔ لیکن اس معاملے میں بہت سے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوالات اور اپنی ناقص فہم میں آپ کے سامنے رکھتی ہوں :

٭ اچھی بیوی کون سی ہوتی ہے؟ مرد کی تعریف کے مطابق بلاشبہ صرف وہ جو اندھی، گونگی، اور بہری بن کر کسی کنیز کی مانند ”شوہر کی اطاعت“ میں ”اپنی ذات کی نفی“ کرتی چلی جائے۔ جب اسلام یا کسی اور مذہب نے یک طرفہ طور پر عورت کو ایسا کوئی حکم نہیں دیا تو کسی بھی آدمی کو کیا حق ہے کہ وہ عورت سے ایسا مطالبہ کرے؟ (ایسے شخص کی ذہنی صحت کو تسلی بخش قرار دینا غلط ہو گا)

٭ اچھی ماں کون سی ہوتی ہے؟ ہمارے معاشرے کے حساب سے وہ جس کے بچے تمام انسانی اور فرشتوں والی صفات سے مزین ہوں۔ اگر بچے کی تعلیم و تربیت میں کمی کوتاہی رہ جائے تو وہ ماں کو ہی ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اگر یہ فریضہ صرف ماں پر عائد ہوتا ہے تو پھر بچوں کا مستقبل اور خاص طور پر بیٹیوں بہنوں کی شادی باپ اور بھائیوں کی مرضی سے کیوں ہوتی ہے؟ (ماں ہونے کے ناتے عورت کو حق ہے کہ گھر اور بچوں کی زندگی سے متعلق فیصلے میں اس کی مرضی شامل ہو)

٭ بیوی اور ماں دونوں رشتے عورت کی ذات سے ہیں۔ کیا صرف عورت کی تربیت اور اس کا رول خاندانی، معاشرتی، اور اخلاقی معاملات کو درست طور پر چلانے کے لئے کافی ہو گا؟ اگر خاندان اور معاشرے کے لئے صرف اچھی ماں اور اچھی بیوی ہی ضروری ہیں تو بے چارے شوہر اور باپ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ (میرے مطابق صفر۔ قاسم علی شاہ صاحب نے تو بطور شوہر اور باپ اپنی ہی حیثیت کو مشکوک کر دیا ہے )

٭ مردانہ غلبے والے معاشرے میں اچھا ہونا صرف عورت کے لئے کیوں ضروری ہے؟ (اگر یہ فریضہ صرف عورت پر لازم ہے تو مرد اپنی حاکمیت چھوڑ دے اور بیوی اور ماں کے تمام جائز حقوق ادا کرے بشمول تعلیم، ملازمت اور کریئر، شادی میں رضامندی، وراثت و جائیداد، ماں کی فرمانبرداری، عزت و احترام باہمی وغیرہ)

٭ جس معاشرے میں سب باپ اور شوہر اچھے نہ ہوں، وہاں عورت سے اچھے ہونے کا یک طرفہ تقاضا اور توقع کرنا کہاں کا انصاف اور عقلمندی ہے؟ (ایسی عقل مردوں کے پاس ہی ہو سکتی ہے۔ پھر عورت تو ناقص العقل ہی ٹھیک ہے.)

٭ ہمارے مرد، بیوی اور ماں کو اہمیت ہی کتنی دیتے ہیں جو اچھی کا تقاضا کریں؟ اور اگر بیوی اور ماں کے اچھا ہو جانے کے بعد بھی خاندان اور معاشرے میں مثبت تبدیلی نہ آئی تو کیا ہو گا؟ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کی صورت میں نئی سٹریٹجی کیا ہو گی؟

ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ اگر عورت صرف بیوی اور ماں (اچھی یا بری دونوں) ہی بن کر رہ جائے تو مرد کو دل بہلانے اور ”خواہشات پوری کرنے“ کے لئے سہیلی اور داشتہ کیسے میسر آئیں گی؟ پھر تو اچھی سہیلی کا تقاضا بھی جائز اور ضروری ہو گا۔ اگر نہ ہو تو مرد کی زندگی میں ایک بڑا خلا اور شدید بیزاری پیدا نہیں ہو جائیں گی؟ یہ مسئلہ ایلیٹ کلاس کے مردوں کے لئے تو بہت اذیت ناک ہو گا جو صرف بیوی اور اپنے بچوں کی ماں تک محدود نہیں رہ سکتے۔ خیر، یہ تو ازراہ مذاق ہے۔ سنجیدہ سوال یہ ہے کہ کیا صرف اچھی بیوی اور اچھی ماں ہی معاشرے کی ضرورت ہیں؟ اچھی باس، اچھی کارکن، اچھی استاد، اور دیگر اچھی خصوصیات کی اہمیت کیا کم ہے؟

لوگوں کا جناب قاسم علی شاہ صاحب سے یہ سوال بالکل درست ہے کہ کیا لڑکیوں اور خواتین کی زندگی کا واحد مقصد صرف بیوی اور ماں بننا ہی رہ گیا ہے۔ بیوی اور ماں کے علاوہ کیا عورت کی ذات کا کوئی اور پہلو نہیں؟ کیا انہیں تعلیم اور کریئر کے حقوق حاصل نہیں؟ اگر اللہ نے انہیں دماغ اور صلاحیتوں سے نہیں نوازا تو مرد، عورت سے یہ توقع نہ رکھے کہ وہ گھر سے باہر کوئی کام، ملازمت، خاندان کی کفالت وغیرہ جیسے فرائض انجام دے۔

لفظ اچھی کا معنی بہت وسیع ہے۔ قاسم علی شاہ صاحب اچھی کی چیدہ چیدہ خصوصیات بھی بیان کر دیتے تو سمجھنے میں سہولت ہو جاتی۔ میرے نزدیک تو اچھی بیوی اور اچھی ماں کا مطلب ہے ایک اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ، باشعور عورت جو صحیح اور غلط کا فرق جانتی ہو، صحیح کی حمایت اور غلط کی مخالفت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو، اور احمقوں کی طرح مرد کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے دماغ کو بھی استعمال کر سکے۔ اچھی کی کوئی عالمگیر تعریف تو شاید نہیں ہے۔ ہر ایک کے نزدیک اچھی کا مطلب مختلف ہو گا۔ پھر کس اچھی کا مطالبہ کیا جائے؟ مرد کے حساب سے اچھی یا عورت کے حساب سے؟

اگر گھر اور بچوں کے مستقبل بالخصوص شادی سے متعلق فیصلے کرنا صرف مرد کا کام ہے تو اچھے شوہر اور اچھے باپ کی ضرورت تو کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے کو درست فیصلے اور اقدامات کرنے والے ذی عقل شوہر اور باپ کی زیادہ ضرورت ہے۔

ایک اور بڑا سوال یہ ہے کہ کیا مرد کو اچھا شوہر اور اچھا باپ بننے کی تربیت دینا ضروری نہیں؟ قاسم علی شاہ صاحب اپنی ذات پر اٹھنے والے اس سوال کا جواب دے دیں کہ کیا وہ اچھے شوہر اور باپ نہیں ہیں؟ اگر نہیں تو یقیناً ان کی زوجہ محترمہ اور بچے ہمدردی اور دعاؤں کے مستحق ہیں۔ اللہ انہیں زیادہ بہتر شخص عطا فرمائے۔ آمین۔ اور اگر ہیں تو انہیں اس کی تربیت ملی ہو گی۔ اچھا شوہر اور اچھا باپ ہونے کی صورت میں صرف عورت کو اچھا بننے کی تلقین کی نفی تو ان کی اپنی ہی ذات کر دیتی ہے۔

کیوں جی، کچھ اور کہنے کی ضرورت ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).