پاکستانی معاشرہ اور فراعین وقت


اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قائم ہوئے 73 سے زیادہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، ہم ایٹمی طاقت بن چکے ہیں، ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے، ہمارے پاس دنیا کے بہترین آلات حرب و ضرب بھی موجود ہیں۔ ہم گلوبل ویلج کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔ ہمارے ملک کا غیر تعلیم یافتہ طبقہ بھی جدید ایجادات سے مستفید ہونے میں سب سے آگے ہے لیکن ہم ترقی کی دوڑ میں اس وقت بھی لنگڑا کر چل رہے ہیں۔ دنیا کے مہذب ترین ممالک میں اس وقت بھی ہمارا شمار آخری نمبر وں میں ہی ہے۔

ہم اپنے معاشرتی، انتظامی اور معاشی نظام کے لحاظ سے یورپی اقوام کی ایک نو آبادی ہی ہیں جس کی واضح جھلک فرانسس بئیر کے سفر نامے میں ملتی ہے۔ فرانس کا رہنے ولا فرانسس برنیئر پیشے کے لحاظ سے طبیب تھا۔ 1658 ء میں ہندوستان آیا، اور 1670 ء تک بارہ سال برصغیر پاک و ہند میں مقیم رہا۔ اپنے قیام کے دوران اسے مغل بادشاہ شاہجہاں کے مقربین کے ساتھ بھی نصیب رہا۔ اس لئے اسے ہندوستان کی سیاحت کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک ہو ہند کے حالات جاننے کا موقع ملا۔

فرانسیس برنیئر نے واپس جا کر ہندوستان کے بارے میں سفر نامہ تحریر کیا۔ فرانسس برنیئر کاکہنا ہے کہ ہندوستان میں خوشامد کا دوردورہ ہے، بادشاہ سلامت، وزراء، گورنر اور سرکاری اہلکار خوشامد کراتے ہیں۔ دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔ لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں اور آج کا بوعلی سینا قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔

لوگ جیبوں میں اپنی درخواستیں لے کر گھومتے ہیں۔ اور انھیں جہاں کوئی صاحب حیثیت شخص دکھائی دیتا ہے یہ اپنی درخواست اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ جب تک اس درخواست پر حکم جاری نہیں کرتا، سائل وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لیتا۔ ملک میں رشوت عام ہے، ہر خاص و عام کو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کے لیے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں، یہ بیک وقت صوبے دار بھی ہوتے ہیں، خزانچی بھی، وکیل بھی، جج بھی، پارلیمنٹ بھی اور جیلر بھی۔

سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹتے ہیں۔ سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں، یہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں، ان کے آگے سپاہی چلتے ہیں، ان سے آگے ماشکی راستے میں چھڑکاؤ کرتے ہیں، ملازموں کا پورا دستہ مور جھل اٹھا کر رئیس اعظم کو ہوا دیتا ہے اور ایک دو ملازم اگل دان اٹھا کر صاحب کے ساتھ چلتے ہیں۔

ہمارے ملک کا موجودہ نظام بھی 73 سال کے بعد آج تک آزاد نہیں ہو سکا۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی خوشامد اور منافقت کا دور دورہ ہے۔ ہم آج بھی کسی دفتر میں اپنا مسئلہ بغیر سفارش کے حل کروانے سے قاصر ہیں۔ موجودہ دفتری اور معاشرتی نظام کے بارے میں میں نے مشہور ادیب مستنصر حسین تارڑ کا ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد، ہمارے معاشرے میں بہت سے فرعون موجود ہیں یہاں تک کہ ایک جونئیر کلرک کو بھی تھوڑاسا اختیار مل جائے تو فرعون بنتے دیر نہیں لگاتا۔

میں نے آنکھیں بند کر لیں اور حساب کتاب لگانے لگا کہ اس قسم کے فرعون کہاں کہاں موجود ہیں؟ تھوڑی دیر کے لئے آپ بھی سوچیں اور اپنے ماحول پر نظردوڑائیں۔ ہسپتال میں چلے جائیں تو ہر وارڈ کے دروازے پر درجہ چہارم کا ایک چوکیدار آپ کو ایک ایسا فرعون نظر آئے گا جو چہرے مہرے سے تعلیم یافتہ اور امیر امراء نظر آنے والے افراد کے سامنے تو مودب انداز میں کھڑا ہو جائے گا لیکن جیسے ہی کوئی غریب اور مظلوم نظر آئے گا، وہ اس کو اپنے عہدے کی طاقت دکھانے کے لئے دروازے پر ہی روک لے گا، ہو سکتا ہے اس غریب کی گلوخلاصی مفت میں خوشامد کر کے ہی ہو جائے یا پھر وہ بڑے ڈاکٹر صاحب کے راؤنڈ کے بعد ہی اندر جا سکے اور اگر اس نے چوکیدار کی حکم عدولی کی تو اس کے حصے میں گالیاں، مکے اور تھپڑ بھی آ سکتے ہیں۔ ذرا تھانے چلے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ گیٹ پر بیٹھا سنتری جس کے ہاتھ میں قانون پر عمل درآمد کروانے کے لئے ایک چھڑی یا ایک فرسودہ زنگ آلود بندوق ہو گی جو اس کی ایسی متاع ہو گی جو ہر غریب کو اسے بادشاہ سلامت کہنے پر مجبور کرے گی۔ اس لئے ہمارے ملک میں گیٹ پر موجود ہر سنتری بادشاہ کہلاتا ہے لیکن غریب کے لئے کوئی بھی سنتری بادشاہ کسی فرعون سے کم نہیں ہے۔ دفتر میں داخل ہوں تو ہم سب کے سامنے ایک اور بادشاہ ہو گا جو کسی بھی شخص کو شاہ سے گدا بنا سکتا ہے، جی ہاں! اس کو کلرک بادشاہ کہتے ہیں۔

یہ بھی اپنی نشست پر اس لئے تشریف فرما ہے کہ غریب کی کمائی سے خراج وصول کر سکے اور امیر کو نہ صرف سلام کرے بلکہ ست فرشی سلام پر بھی مجبور ہو سکتا ہے۔ کلرک بادشاہ کی گڈری میں آپ کے ہر مسئلے کا حل ہو گا اور مسئلہ چاہے جتنا سنگین ہو وہ اسے چٹکی بجاتے حل کر دے گا۔ آپ نے پٹواری، تھانیدار، جج اور افسران کی کہانیاں تو سنی ہوں گے اور ان کی فرعونیت کے ہم سب عینی شاہد ہوں گے لیکن یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دو نظام متوازی چل رہے ہیں ایک نظام غیر تعلیم اور غریب طبقے کے لئے اور ایک نظام تعلیم یافتہ اور مراعات یافتہ طبقے کے لئے، اگر آپ کے ہاتھ اور جیب میں پیسے کی چکا چوند ہے تو ہو سکتا ہے کوئی فرعون آپ کو بادشاہ وقت بناد ے۔

میں جب بھی کسی دفتر میں جاتا ہوں تو لباس کے معاملے میں اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ ایک ایسا لباس زیب تن کروں کہ مجھے ایسے چھوٹے فرعون کے سوال و جواب کا سامنا نہ کرنا پڑے اور میں باآسانی اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر اپنے مسئلہ کا ممکنہ حل نکال سکوں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ صاحب اختیار ہر امیر غریب اور چھوٹے بڑے کے ساتھ یکساں سلوک کرے؟ ہمارے نظام میں کون سی اور کہاں پر ایسی غلطی ہے جس کی بنا پر ہمارا معاشرتی نظام ابھی تک ایک شتر بے مہار کی طرح چل رہا ہے؟

آپ یورپی معاشرے کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح نظر آئے گی کہ وہاں ایساکوئی نظام یا قانون نہیں ہے جس کی بنا پر کوئی امیر یا غریب کو معاشرے میں یکساں حییثیت حاصل ہو ماسوائے آزادی اظہار اور قانونی بالا دستی کے، یورپی معاشرے کی اساس ایک اسلامی نظام ہے جس میں ریاست کے تمام شہریوں کو نہ صرف مساوی حقوق حاصل ہیں بلکہ اظہار رائے کی آزادی بھی حاصل ہے۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے یورپ کی ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھ کر مغربی معاشرے کی ہر برائی کو تو اپنا لیا ہے لیکن اسلامی طور طریقوں اور اسلامی معاشرتی نظام کو اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔

یاد رہے کہ ہم اس اسلامی ریاست کے دعویدار ہیں جہاں حاکمیت صرف اور صرف اللہ کی ہوتی ہے اور تمام عمال کو خلیفہ ارضی کی حیثیت سے عوام کی خدمت کے لئے متعین کیا جاتا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ ہمارے آباء و اجداد نے نہ صرف عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا بلکہ ہمیشہ کمزور کی نہ صرف مدد کی بلکہ اس کے ساتھ عزت سے پیش آئے، راجہ داہر سے مسلمان مغوی بیٹی کو رہا کروانا ہو یا شاہ سپین راڈرک کے مظالم سے کاؤنٹ جولین کی بیٹی کو رہائی دلوانی ہو، مسلمان قوم کے نوجوان ظلم کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو گئے لیکن آج وہی مسلم قوم جو ایک قابل فخر ماضی رکھتی ہے، اپنے افسران اور اہلکاران سے اتنی تنگ ہے کہ ان کو ہمیشہ نفرت کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں۔

میری تو صرف ایک ہی خواہش ہے کہ کوئی ایسا انقلاب پسند آئے جو ہمارے انتظامی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں کے مطابق مرتب کر سکے۔ کاش میرے پاکستان کے کسی دفتر میں غریب اور امیر کے لئے الگ الگ کرسی نہ ہو۔ کوئی ایسا افسر ہو جو کسی بے سہارا اور مسکین کو یہ کہہ سکے کہ تم شہر کی جس گلی یا جس کونے میں کہتے ہو، میں وہاں آپ کی بات سننے کو تیار ہوں۔ کاش حضرت عمر ؓکا دور ایک بار پھر لوٹ آئے اور مجھے شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے نظر آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).