فردوس عاشق اعوان کا تقرر مریم نواز کے لیے


ملک میں رواں دواں حالیہ سیاست کے حوالے سے تین پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہیں جن کے اثرات ہماری سیاست کو مستقبل قریب میں متاثر کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ایاز صادق اور فواد چوہدری کے بیانات کو لیتے ہیں۔ ایاز صادق کے بیان کا تعلق لوکل آڈینس سے ہے یعنی حکومت اس بیان کو اپنے انداز سے پیش کر کے پبلک میں نون لیگ کو ڈی گریڈ کر سکتی ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ ایاز صادق کے بیان کا دفاع نون لیگ تو کرہی رہی تھی، فواد چوہدری بھی انہیں ان ڈائریکٹ سپورٹ کرگئے ہیں۔

وہ ایسے کہ بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ایاز صادق کا بیان آرمی چیف کے خلاف نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی کی مخالفت میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف تھا۔ فواد چوہدری کا یہ بیان ڈی کوڈ کیا جائے تو یہی بات نون لیگ والے کہہ رہے ہیں۔ اب دوسرے اہم بیان کا ذکر جو خود فواد چوہدری نے قومی اسمبلی میں ہی دیا کہ پلوامہ میں ہماری کامیابی عمران خان کی قیادت میں قوم کی کامیابی تھی اور یہ کہ ہم نے ہندوستان کو گھس کے مارا۔

اس بیان کے اثرات لوکل سے زیادہ انٹرنیشنل ہوسکتے ہیں کیونکہ بھارت ایسے ہی الزامات لگاکر انٹرنیشنل برادری میں پاکستان کو بدنام کرتا آیا ہے۔ ہو سکتا ہے بھارت اپنے مضبوط سفارتی تعلقات کی بنیاد پر فواد چوہدری کا یہ بیان انٹرنیشنل برادری کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ جیسے اداروں میں بھی لے جائے اور پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کی ہرممکن کوشش کرے۔ ایاز صادق اور فواد چوہدری دونوں نے کہا کہ ان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

معاملہ جو بھی ہو لیکن ایاز صادق کے بیان کے اثرات لوکل ہیں یعنی سٹیبلشمنٹ کے غصے کے باعث نون لیگ کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ فواد چوہدری کے بیان کے اثرات بھارت کی کوششوں کے باعث انٹرنیشنل ہوسکتے ہیں۔ سیاسی اثرات کے حوالے سے دوسرا پہلو فیاض الحسن چوہان کی جگہ فردوس عاشق اعوان کی تعیناتی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اسے فردوس عاشق اعوان کی فیاض الحسن چوہان پر سیاسی برتری قرار دیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ شاید کچھ اور بھی ہو۔

یعنی اس تبدیلی کا تجزیہ یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ مریم نواز مزاحمتی سیاست میں جس تیزی سے ترقی کررہی ہیں اور ان کے بے باک موقف کو لوکل اور انٹرنیشنل سطح پر جو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اس کے سدباب کے لیے منطقی دلائل کے ساتھ ساتھ کچھ سستے اور مختلف بیانات دلوانے بھی ضروری تھے۔ پی ٹی آئی کے پاس وفاق، پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں میں کوئی خاتون انفارمیشن منسٹر نہیں تھی۔ اگر کوئی مرد انفارمیشن منسٹر مریم نواز کو مختلف انداز سے جواب دیتا تو اسے نون لیگ کی طرف سے وومن ہراسمنٹ اور خاتون کے ساتھ مرد کی بدتہذیبی کے حوالے سے مشہور کیا جاتا اور نون لیگ سوسائٹی سے ہمدردیاں حاصل کرتی۔

اس کی ایک مثال پولیس کی طرف سے کراچی میں مریم نواز کے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ مبینہ طور پر توڑنا ہے۔ نون لیگ کو اس حرکت سے سیاسی فائدہ ملا جبکہ حکومت کو سبکی اٹھانی پڑی۔ فردوس عاشق اعوان اپنے مخالفین کو ہردو طریقے سے ہینڈل کرنے کی مہارت رکھتی ہیں اور یہ کہ وہ خود بھی خاتون ہیں لہٰذا فردوس عاشق اعوان جب مریم نواز کو کاؤنٹر کریں گی تو نون لیگ کے پاس وومن ہراسمنٹ یا کسی مرد کی طرف سے ایک عورت پر الزامات لگانے کا جواز نہیں ہوگا۔

اس طرح پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز کو بھی مرچ مصالحے لگانے کے وسیع مواقع ملیں گے۔ ہماری موجودہ سیاست پر مستقبل قریب میں اثرانداز ہونے والا تیسرا پہلو حالیہ امریکی انتخابات کا ہے۔ اگرانتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار جیت جاتے ہیں تو پاکستان کی حکومت پی ٹی آئی کو آئندہ چھ ماہ سے ایک سال تک امریکی مشکل پالیسیوں سے ریلیف میں رہنے کا امکان ہے کیونکہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن کو حکومت اور انٹرنیشنل معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں چھ سے بارہ ماہ لگ جائیں گے جس کو پاکستانی حکومت کے لیے بونس کہا جاسکتا ہے۔

اس کے برعکس اگر ریپبلکن جیت جاتے ہیں تو پاکستان کی حکومت کے لیے مسائل جنوری کے فوراً بعد ہی شروع ہو جائیں گے کیونکہ ٹرمپ گزشتہ صدارتی تجربے کے بل بوتے پر اندرونی اور بیرونی معاملات میں وقت ضائع کیے بغیر امریکن مرضی ابتدا سے ہی بھرپور طریقے سے شامل کریں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئے امریکی انتخابات کے بعد آخر امریکی پالیسیاں پاکستان کے لیے مسائل ہی کیوں لے کر آئیں گی؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ امریکہ نے گزشتہ دو ڈھائی برسوں میں پاکستان سے دو فائدے حاصل کرنے تھے جو اس نے کرلیے ہیں۔

پہلا یہ کہ افغان امن معاہدہ ہو جائے تاکہ امریکی فورسز بخیریت واپس چلی جائیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کو چین کی لابی سے دور کیا جائے۔ اگر غور کریں تو امریکہ اس میں بھی کامیاب رہا ہے کیونکہ نہ تو اب پاکستان میں چینی منصوبوں کی وہ گھن گرج سنائی دے رہی ہے اور نہ ہی اب چین پاکستان کے تعلقات میں مخصوص گرم جوشی اور شیرینی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے لیے اس وقت انڈیا ایک سٹریٹجک پارٹنر بن چکا ہے کیونکہ سوویت یونین کے بعد چین امریکہ کے لیے ایک چیلنج ہے۔

سوویت یونین کو ختم کرنے کے لیے امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا۔ اب امریکہ چین کے سامنے بھارت کو کھڑا کر رہا ہے جس کا حالیہ ثبوت بھارت اور امریکہ کے درمیان وہ معاہدہ ہے جس کے تحت بھارت امریکی سیٹلائٹ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ امریکہ کا ٹارگٹ تو چین ہی ہے جبکہ بھارت کا پہلا ہدف پاکستان ہے۔ لہٰذا یہ بات سمجھنی بہت آسان ہے کہ کوئی بھی امریکی صدر پاکستان کے لیے اپنے سٹریٹجک پارٹنر بھارت کو ناراض نہیں کر سکتا۔

اسی بنیاد پر بھارت کی کوششوں سے امریکہ کی پاکستان کے لیے پالیسیاں مشکل سے مشکل ہوتی جائیں گی۔ ذرا غور کریں پاکستان کی اپوزیشن پی ٹی آئی کی حکومت کو جنوری تک رخصت کرنے کا نعرہ لگاچکی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت بھی اپوزیشن کے قائدین کو جنوری تک جیلوں میں بھیجنے کا اعلان کرچکی ہے۔ آخرحکومت اور اپوزیشن جنوری کی ہی تاریخیں کیوں دے رہے ہیں؟ شاید یہ اتفاق ہوکہ جنوری میں ہی نئے امریکی صدر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).