قید یاغستان: ایک فراموش شدہ کلاسیک



ایک قاری کے لیے بسا اوقات یہ انتخاب کرنا مشکل ہو جاتا ہے جب اس سے یہ دریافت کیا جائے کہ آپ کے مطالعے اور ذوق کے پیش نظر کون سی کتاب یا ناول سب کا سرخیل ہے۔ چنانچہ احقر نے جب اس سوال کو ذہن کے دریچوں میں کھنگالا تو اپنے آپ کو ایک مشکل یا یوں کہیے ایک مصیبت میں گرفتار پایا کہ کس کو منتخب کیا جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے۔ پھر بھی درج ذیل فہرست میں میرے نزدیک پانچ کتابیں ایسی ہیں جو دنیائے ادب میں ہمالیہ سے اونچا مقام و مرتبہ رکھتی ہیں :

1۔ جرم و سزا از فیودر دوستوئیفسکی (Crime and Punishment)
2۔ تنہائی کے سو سال از گیبرئیل گارشیا مارکیز (One Hundred Years of Solitude)
3۔ اینا کارینینا از لیو ٹالسٹائی (Anna Karenina)
4۔ بہاؤ از مستنصر حسین تارڑ
5۔ قید یاغستان از محمد اکرم صدیقی

حال ہی میں سٹی بک پوائنٹ کراچی کے مالک جناب اسد صاحب کے ذریعے ”قید یاغستان“ موصول ہوئی اور جب پڑھنا شروع کی تو سامنے سے تب تک نہیں ہٹی جب تک مکمل نہ کر لی۔

انگریزی زبان کا مقولہ ہے کہ ”سچ افسانے سے بھی زیادہ حیران کن ہوتا ہے۔“ اگر کسی کتاب یا ناول پر اس کا صد فیصد اطلاق ہو سکتا ہے تو وہ ”قید یاغستان“ ہے۔ قید یاغستان محمد اکرم صدیقی صاحب کی پہلی اور آخری تصنیف تھی جس کی پہلی اشاعت1912 میں ہوئی۔ مصنف کوئی پیشہ ور ادیب یا لکھاری نہیں۔ قید یاغستان صدیقی صاحب کی قید و بند و فرار کا ایک حقیقی واقعہ ہے جو 1910 میں عین عنفوان شباب ان کے ساتھ پیش آیا جب وہ سرکار انگلشیہ کے ہاں بطور انجینئر ملازم تھے۔

یاغستان پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع قبائلی علاقہ ہے جہاں مصنف کے ساتھ یہ خوفناک حادثہ پیش آیا جب وہاں کے فراریوں نے مصنف اور ان کے ایک رفیق لالہ سندر لال کو صید زبوں سمجھ کر یرغمال بنا کے پابند سلاسل کر دیا تاکہ ان کے ورثا واقربا سے ان کی رہائی کے دام وصول کر سکیں کیونکہ کہ یہی ان کا واحد پیشہ تھا اور زر کے اس حد تک رسیا تھے کہ ہر طرح کا ظلمو جبر اور غیر انسانی فعل ان کی سرشت کا حصہ بن چکے تھے۔

قید یاغستان آپ بیتی کا ایک ایسا مرقع ہے جو کل پینتالیس روز پر مشتمل ہے۔ مصنف اور ان کے ساتھی جب اسیران قفس بنے اور پھر وہاں سے فرار ہوئے تو اس کے بعد انہوں نے اپنی اسیری اور رہائی کے روح فرسا حالات و واقعات کو اس موثر طریقے سے صفحۂ قرطاس پہ اتارا ہے کہ قاری پر اس کا تاثر بہت عمیق، گہرا، اور اس کے قلب و روح میں تزلزل پیدا کر دینے والا ہے۔ اس کتاب کی دلکشی کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ ایسی سرگزشت ہے جو پر پیچ خطرات اور لمحہ لمحہ خوف سے لبریز ہے۔

دوسرا یہ تمام حالات اور قید و بند کی صعوبتیں ایک ایسے شخص پہ بیتی ہیں جو ایک خرد مند، تعلیم یافتہ، حساس، بلند پایہ کردار، زیرک، جرآتمند اور استقلال و ثابت قدمی کا پیکر ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم مصنف کا زبان و بیان پر مکمل عبور اور دلکش اسلوب ہے۔ ان کیتحریر میں بلا کا اعتدال، توازن اور سلجھاؤ ملتا ہے جو کہ اردو کلاسیکل ادب کے رکھ رکھاؤ کی یاد تازہ کر دیتا ہے اور اس پر برمحل اشعار کا استعمال اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مصنف ایک شاہکار تخلیق کار ہیں۔

مصنف کو داستان گوئی میں ملکہ حاصل ہے۔ گو کہ یہ ایک آپ بیتی ہے لیکن اس میں بیک وقت حقیقت کی چاشنی اور داستان کی سے دلکشی موجود ہے جو کہ بہرحال قید یاغستان کا ایک خاصہ ہے اور اس جیسی مثال اردو ادب میں بہت کم دیکھنے کو ملتی۔ ایسیناقابل فراموش داستان جس کو پڑھتے ہوئے قاری ایک لمحے کے لیے بھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ بقول مولانا غلام رسول مہر صاحبکہ کہانی جیسی بھی ہو اگر زبان و بیان پر مکمل دسترس، اسلوب منفرد اور جزئیات پہ مکمل گرفت ہو تو پانی بھی دو آتشہ شراب بنجاتا ہے۔

قید یاغستان کی کہانی اپنے اندر بے پناہ جاذبیت سموئے ہوئے ہے جس میں مصنف نے کسی ایک واقعے کو بھی تشنۂ تکمیل نہیں چھوڑا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ یہ جگر افگار سرگزشت صرف ڈیڑھ ماہ کے قلیل دورانیے پر محیط ہے لیکن قاری کو یہیمحسوس ہوتا ہی جیسے وہ کوئی طویل المیعاد داستان حوادث پڑھ رہا ہو۔ ہر واقعہ کی جزئیات و تفصیلات کو ایسے انداز سے قلمبند کیا گیا ہے کہ قاری پہ بھی وہی کیفیت طاری ہو جاتی جو مصنف خود محسوس کر رہا ہوتا ہے۔

محمد اکرم صدیقی صاحب کردار نگاری میں بھی یدطولٰی رکھتے ہیں۔ فراریوں اور قبائلی لوگوں کے مخصوص رجحانات، معاشرت، ان کے خیالات اور رہن سہن کو جس باریک بینی سے بیان کیا گیا ہے وہ قابل تحسین اور لائق تقلید ہے۔ انہوں نے ہر چند یہ کوشش کی ہے کہ تمام کرداروں کو اپنی ذاتی تکالیف سے بالاتر ہو کر بیان کیا جائے جس میں وہ خاصے کامیاب رہے۔ فراری، مدا خیل، لالہ سندرلال، مدا میر، وسیم گل، خونے، خونے کی ماں، مدا خیل اور نیک نامے کے کردار زندہ و مجسم آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں۔ گو کہ سب فراری ہیں لیکن اپنی سیرت و کردار کے سبب بالکل الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔

غرض قید یاغستان ایک ناقابل فراموش داستان ہے جو بڑے سے بڑے ناول کا بھی مقابلہ کر سکتی ہے۔ میرے نزدیک اگر یہی کتاب مغرب میں لکھی گئی ہوتی تو اب تک اس کو متعدد بار سکرین کی زینت بنایا جا چکا ہوتا۔ قیدیاغستان اردو ادب میں منفرد اور نمایاں ادبیحیثیت رکھتی ہے جس کو پڑھتے اور ختم کرتے ہوئے قاری کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب جاری ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).