مجھے ڈر ہے باغباں کو کہیں نیند آ نہ جائے


چمن کی رونقیں باغباں کے دم سے ہوتی ہیں۔ اگر باغباں وقت پر دیکھ بھال کرتا رہے تو باغ میں ہمیشہ ہریالى ہوتى ہے اور پھول کھلے رہتے ہیں۔ جب باغباں ہی سستی و غفلت کا شکار ہو جائے تو سارا گلستاں اجڑ جاتا ہے۔ باغباں کی غفلت سے لہلہاتے چمن تباہ ہو جاتے ہیں۔ شاعر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ

یہ بہار کا زمانہ یہ حسین گلوں کے سائے
مجھے ڈر ہے باغباں کو کہیں نیند آنہ جائے

کچھ ایسے ہی میرے خدشات ہیں کہ میرے چمن کا باغباں بھی غفلت کا شکار ہے اور میرا چمن بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔ گلستان پاکستان میں ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم ہے۔ کرپشن، سود، رشوت خوری اور بھتہ خوری کے بازار گرم ہیں اور اس سب میں غریب پس رہا ہے۔ امیر اور مالدار طبقے کی فائلوں کو تو پیے لگے ہوتے ہیں اور ان کی فائل وقت پر جاتی اور واپس آتی ہیں۔ جبکہ غریبوں کی فائل ٹوٹی جوتی کھسکاتی ہوئی جاتی ہے اور واپسی پر سال ہا سال لگا دیتی ہے۔

کوئی سرکاری دفتر چاہے وہ تھانہ کچہری ہو یا عدالت یا پھر کوئی اور محکمہ بغیر سفارش اور رشوت کے کام نہیں ہوتا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہسپتالوں میں بھی کام سفارش اور رشوت کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ جن غریب لوگوں کی سفارش نہ ہو تو وہ بیچارے ہسپتال کے فرش پر تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں مگر کوئی ان کا خیال نہیں کرتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسانی جان اتنی سستی ہو گئی ہے کہ کوئی کہیں بھی کسی کو بھی مار دیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اسلامی جمہوریہ کی فاضل عدالتوں میں انصاف خریدنا پڑتا ہے اور معذرت خواہانہ انداز میں کہنا پڑتا ہے کہ انصاف دینے والے قاضیوں سے اگر انصاف کا تقاضا کیا جائے تو توہین عدالت کا مقدمہ بنا دیتے ہیں۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں عوام کو نہ تو حقوق ملتے ہیں اور نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ یہ مملکت خداداد اسلام کے نام پر قائم ہوئی ہے اور اسلام نے عدل و انصاف کا نظام قائم کیا ہے مگر صد افسوس ہمارے حکمراں خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی حقوق کی بات کی ہے اور نہ عدل و انصاف قائم کرنے پر توجہ دی ہے۔

ہمارے حکمران شاید سوچتے ہیں کہ ترقی صرف انفراسٹرکچر اور کارخانے بنانے سے ہوتی ہے لیکن یہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ ترقی اس وقت ہوتی ہے جب عدل و انصاف ہو سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں یکساں نظام تعلیم ہو اور لوگ مطمئن ہوں ان کو کوئی ڈر نہ ہو تو پھر وہ ترقی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان قوموں نے پہلے اپنے معاشرے میں عدل و انصاف، یکساں حقوق اور یکساں نظام تعلیم کو نافذ کیا اور اس کے بعد ترقی کی طرف بڑھے ہیں۔

انہوں نے یہ تمام اصول و ضوابط اسلامی معاشرے سے سیکھے ہیں اور آج وہ سپر پاور ہیں اور ہم اپنے ہی اصول بھلا کر معاشرتی بگاڑ کا شکار ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی آنکھیں کھولنا ہوں گی خواب غفلت سے بیدار ہونا ہو گا۔ ہمیں عدل و انصاف کا سستا اور فوری نظام رائج کرنا پڑے گا۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو پھر ہمیں ترقی کرنے سے کوئی روک نہ پائے گا۔ موجودہ حکومتی جماعت کا منشور ہی عدل و انصاف ہے لہذا حکومت کو چاہے کہ ملک میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرے تاکہ ریاست مدینہ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).