نئی نسل سے مکالمہ


آج سے تقریباً پندرہ سال قبل جب لکھنے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے جس طبقے نے تنقید کا نشانہ بنایا وہ میرے قریبی عزیز و اقارب تھے سو مجھے اس وقت یوں محسوس ہونے لگا جیسے لکھنا (بالخصوص شاعری) کوئی گناہ کبیرہ ہے ’یہی وجہ ہے کہ جس کو بھی یہ بتایا کہ ”ہم شاعر ہوتے ہیں“ ، تو آگے سے ایک ہی جواب ملتا کہ ”بھائی کوئی چنگا کام کر لیتے، کیا ایک یہی کام رہ گیا تھا“ ۔ اس جملے نے مجھے قدم قدم پہ روکنے کی کوشش کی۔

پھر جب (بری طرح ناکام ہونے کے بعد) کامرس کی تعلیم کو خیر باد کہہ کر اردو ادب کی جانب آیا تو پھر ایک جملہ سماعتوں سے ٹکرایا کہ ”یار کسی اچھے ڈیپارٹمنٹ کا انتخاب کرتے‘ اردو بھی کوئی کام کا شعبہ ہے“ ۔ میں نے اس جملے کو بھی نظر انداز کیا اور لکھنے کا عمل جاری رکھا ’تنقید ہوئی‘ نظر انداز کیا گیا ’راستے میں روڑے اٹکانے والے‘ زبان درازی کرنے والے ’منافقت کرنے والے بہت محنت سے یہ کام کرتے رہے اور میں لکھتا چلا گیا۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں میری زندگی کا زیادہ وقت پڑھنے اور لکھنے میں گزرا اور اس پر بالکل بھی نادم نہیں ہوں۔ جہاں تک بات ہے کہ اس شعبے میں کتنی عزت ملی تو میں نے یہ معاملہ اپنے خدا پر چھوڑ رکھا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج جب میں آل پاکستان رائیٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی چوتھی سالانہ ورکشاپ میں کھڑا اپنے تجربات شیئر کر رہا ہوں تو میرے سامنے بیٹھے نوجوان لکھاری بلاشبہ ایسے معاملات اور مشکلات سے دو چار ہو رہے ہوں گے جن سے میرے سمیت تمام لکھنے والے ہوتے آئے ہیں لہٰذا میں ان لوگوں کو خوش قسمت سمجھتا ہوں جنہیں خدا قلم کی طاقت عطا کرتا ہے اور جنہیں کتاب سے محبت سکھاتا ہے۔ ورنہ ہمارے گھروں میں فنون لطیفہ سمیت ادب کے شعبوں سے صرف نفرت سکھائی جاتی ہے ’ہمارے والدین بچوں کو ڈاکٹرز‘ انجینئرز ’فوجی یا پولیس کانسٹیبل بنانا تو گوارا کر لیتے ہیں لیکن کوئی بھی والد یہ نہیں چاہتا کہ اس کا بچہ لٹریچر پڑھے‘ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کا بچہ فلم ’موسیقی‘ شاعری یا کلاسیکل رقص کی کلاسز پڑھے کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ چیز پروان چڑھائی گئی کہ اس معاشرے میں یا تو عہدہ رکھنے والا کامیاب ہے یا پھر پیسہ رکھنے والا۔

قلم کا مزدور تو ہمیشہ سے کسمپرسی کی زندگی گزارتا آیا ہے لہٰذا بچوں کو اگر ”ادب“ پڑھانا بھی ہے تو انگریزی ادب پڑھائیں تاکہ انہیں “شعور” آ سکے۔ یوں ہماری نئی نسل کے نزدیک فنون لطیفہ یا اردو ادب کی تعلیم محض وقت کا ضیاع اور پاگل پن ہے ’یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان اگر لکھنے کی بات کرتا ہے تو اسے سب سے پہلے گھر سے ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوسرا اسے سماجی رویے مار دیتے ہیں۔

پھر ہمارے نئے لکھنے والوں کا بنیادی مسئلہ ایک رہا کہ انہیں لگتا ہے کہ ادھر ہم قلم پکڑیں گے ’ادھر ہمیں قومی اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینلز ہاتھوں ہاتھ لیں گے اگرچہ یہ محض ”دل کو بہلانے کو خیال اچھا ہے“ کیونکہ قلم پکڑنا انتہائی آسان ہے مگر اس قلم سے لافانی جملے رقم کرنا ایک مشکل ترین عمل ہے۔ ہماری وہ نئی نسل جس کے اندر لکھنے کی خواہش نے جنم لیا وہ یقیناً دنیا کے چند خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں مگر یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ زیادہ لکھنا خطرناک عمل ہے بلکہ مقدار کی بجائے معیار کو ترجیح دینے والا لکھاری ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

جب تک ہم کوئی اچھی کتاب نہیں پڑھتے‘ جب تک ہم موجودہ ادبی و صحافتی منظر نامے پر گہری نگاہ نہیں رکھتے ’ہم کیسے اچھا ادب تخلیق کر سکتے ہیں؟ ایک لفظ لکھنے کے لیے تین ہزار لفظ پڑھیں‘ آپ کو لفظ کی اندرونی اور بیرونی سطحوں کا علم ہونا چاہیے تاکہ آپ لفظ کے جہان معانی سے بخوبی استفادہ کر سکیں۔ ہمارے ہاں درجنوں ایسے لکھنے والے موجود ہیں جن کی کتابوں کی تعداد گنتی سے باہر ہے مگر یقین جانیں انہیں ساتھ والی گلی میں کوئی نہیں جانتا مگر دوسری جانب آپ کلاسیکل لکھنے والوں کو دیکھ لیں ’جن کی تخلیقات انگلیوں پر گنی جا سکتیں ہیں مگر ان کا نام اور کام انہیں کبھی مرنے نہیں دے گا۔ سو افسوس تب ہوتا ہے جب ایسے لوگ بھی کئی کتابیں لکھ بیٹھے‘ جنہیں ابھی کئی سال صرف پڑھنا چاہیے۔ اس کا ادب کو بہت نقصان ہوا اور ہر نیا لکھنے والا ’اپنا لکھا ہوا صحیفہ سمجھنے لگا اور یوں تخلیق کے پیچھے جو تخلیقی جنون ہوناچاہیے تھا‘ وہ غائب ہو گیا۔

دوستو! اللہ نے آپ کو لکھنے کے لیے چن لیا ہے ’یقین جانیں اپوا (APWWA) کی اس چوتھی ورکشاپ میں موجود ہر تخلیق کار خدا کا انتخاب ہے کیونکہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ لکھنا اور پڑھنا خدا کی عطا ہوتی ہے اور یہ عطا وہ اپنے مخصوص بندوں پر کرتا ہے۔ مگر اس کا مطلب قطعاً یہ بھی نہیں کہ ہم اپنا لکھا بھی دوسری بار نہ پڑھیں‘ سب سے پہلے اپنے اندر اچھا ادب پڑھنے کا شوق پیدا کریں اور اس قدر پڑھیں کہ لکھنا مجبوری بن جائے اور پھر لکھیں ورنہ کتابیں لکھنے والے لوگ ہر دوسری گلی میں موجود ہیں مگر وہ کتابیں محض پکوڑے کھانے کے کام آتی ہیں۔

ہمیں آج کم از کم یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم نے کیوں لکھنا ہے ’ہمیں کیسا لکھنا ہے؟ ہمیں کس طرح کا لکھنا ہے؟ جس دن ہم ان تین سوالوں کے جواب تلاش کر لیں گے‘ ہمیں فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ اس کے بعد جو ہم لکھیں گے ’اس میں طاقت بھی ہوگی اور چاشنی بھی سو خدارا یہ فیصلہ کریں کہ ہم کیوں لکھنے کی طرف آئے۔ صرف کتاب لکھنا اپنا مقصد نہ بنائیں بلکہ کتاب پڑھنا مقصد بنائیں۔ ہم جلد بازی میں کتاب چھپوا تو لیتے ہیں مگر بعد میں سب سے ”چھپاتے“ رہتے ہیں کہ ہم نے جلد بازی میں کیا لکھ دیا۔

لہٰذا وہ لکھیں جس پر مستقبل میں شرمندگی نہ ہو اور آپ فخر سے بتا سکیں کہ آپ تخلیق کار ہیں۔ مزید میری گزارش ہے کہ اپنے اندر سے یہ احساس کمتری ختم کر دیں کہ شاعر یا تخلیق کار کوئی دنیا کی ناکام چیز ہے بلکہ فخر سے بتایا کریں کہ ہم تخلیق کار ہے اور ہم ہی زمانے کے نبض شناس ہیں تاکہ آپ کی اپنی تخلیق کی حرمت قائم و دائم رہ سکے۔ میں آخر میں اپوا کے سرپرست میاں زبیر انصاری‘ صدر ایم ایم علی ’چیف آرگنائزر ثنا ء آغا خان اور فاطمہ شیروانی کا ممنون ہوں کہ مجھے مدعو کیا اور کچھ ماضی کی یادیں شیئر کرنے کا موقع دیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ مادیت پرستی کی اس دوڑ میں آپ نے نئے تخلیق کاروں کے لیے ایسی علمی‘ ادبی اور تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کر کے ان سب (نئے لکھنے ) والوں پر احسان کیا ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ نئے لکھنے والوں کے پاس کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔ انہیں تحریر لکھنے سے پہلے یہ علم ہونا چاہیے کہ تحریر ہوتی کیا ہے اور یہ بات اپوا جیسی اہم تربیتی ورکشاپوں سے ہی سیکھا جا سکتا ہے۔

(یہ مضمون آل پاکستان رائیٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی چوتھی تربیتی ورکشاپ کے لیے لکھا گیا )

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).