گلگت بلتستان الیکشن 2020: گلگت بلتستان میں تیر چلے گا، شیر دھاڑے گا یا پھر بلا سب پر بھاری رہے گا؟


گلگت بلتستان
گلگت بلتستان کے سفر کے دوران ہمارے ساتھ دلچسپ شخصیت ہماری گاڑی کے ڈرائیور اقبال کی رہی۔ وہ یہاں کے مقامی باشندے ہیں اور ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ اُن کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بار وہ مقامی مولوی کی باتوں میں آ کر ’جہاد‘ کرنے افغانستان پہنچے تاہم کچھ دن بعد غلطی کا احساس ہوا تو بھاگ کر واپس پاکستان آ گئے۔

ایک بار انھوں نے جنات اور پریوں کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے چلہ کاٹنے کی کوشش کی اور اُن کے مطابق پہلے ہی دن قبرستان میں انھیں ’بلائیں‘ نظر آئیں اور وہ وہاں سے بھاگ نکلے۔ یوں افغانستان میں جہاد کی طرح اُن کا پریوں پر قابو پانے کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔

شادی اُن کی پسند کی نہیں ہوئی جس کا انھیں آج بھی اپنے مرحوم والد سے شکوہ ہے۔ ہنزہ انھیں عمران خان سے بھی زیادہ ناپسند ہے کیونکہ ان کے مطابق ہنزہ کے لوگ مغرور ہیں اور عمران خان نے اُن جیسے غریبوں پر مہنگائی کا بم گرایا ہوا ہے۔

انھیں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز بھی زیادہ پسند نہیں، مگر کہتے ہیں کہ ایک دن ان کے جلسے میں انھوں نے آٹھ گھنٹے مریم نواز کی تقریر سننے کے لیے انتظار کیا تھا۔ ایسا ہی ایک طویل انتظار ماضی میں انھوں نے عمران خان کے دھرنے میں بھی کیا تھا۔ انھیں آصف علی زرداری بھی زیادہ پسند نہیں ہیں، مگر وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بہت بڑے پرستار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت بدلنے جا رہی ہے؟

گلگت بلتستان: انتخابی مہم میں فوجیوں کی تصاویر پر پابندی کیوں

گلگت بلتستان: صوبہ بنانے کی تجویز اور انتخابات پر انڈیا کا احتجاج

وہ گذشتہ انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کو ووٹ دینا چاہتے تھے مگر ’ایک رشتہ دار نے آ کر منت سماجت کی کہ ووٹ اُن کے پسندیدہ امیدوار کو دیا جائے‘ اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ مگر اس بار وہ خوش ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کئی دنوں سے گلگت بلتستان میں انتخابی مہم چلانے کے لیے موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس بار وہ اور اُن کا خاندان پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گا۔

اب یہ تو پولنگ کے بعد ہی پتا چلے گا کہ ان کا یہ منصوبہ کامیاب ہو پائے گا یا جہاد اور پریوں والی مہموں کی طرح شرمندہ تعبیر نہ سکے گا۔

اقبال

اقبال کا ارادہ اس مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کا ہے

مجموعی طور پر بات کی جائے تو گلگت بلتستان کی عوام میں الیکشن سے قبل مایوسی بھی ہے اور امید بھی۔ کوئی دل و جان سے پیپلز پارٹی کا سپورٹر ہے، کوئی مسلم لیگ ن کا ’پکا ووٹر‘ ہے اور کوئی پی ٹی آئی کی حمایت کر رہا ہے۔

گلگت بلتستان خشک، پتھریلا اور ریتلا خطہ ہے مگر یہ سیاحوں کے لیے مقناطیسی کشش رکھتا ہے۔ یہاں فلک شگاف پہاڑی سلسلوں میں گھری وسیع و عریض وادیاں ہیں۔ جھیلیں، دریا، صحرا، باغات اور برف سے ڈھکی دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بھی یہیں ہیں۔

یہ خطہ دنیا بھر کے سیاحوں کی منزل تو رہتا ہی ہے مگر آج کل سیاستدانوں کی توجہ بھی اسی خطے پر مرکوز ہے۔ انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ہر جماعت کے امیدوار نئے نئے وعدوں کے ساتھ گھر گھر جا کر ووٹ مانگ رہے ہیں، مگر یہاں بسنے والے محرومیوں اور مشکلات میں گھرے ہیں۔

استور میں ہماری ملاقات جمعہ خان سے ہوئی جو ایک تاجر ہیں۔ دیگر بہت سے شہریوں کی طرح مہنگائی کا رونا روتے ہوئے وہ گویا ہوئے ’ہمارے پاس گیس کا مسئلہ ہے۔ بجلی، پانی اور مہنگائی کا مسئلہ ہے۔ ہم پسماندہ علاقے کے لوگ ہیں۔ پنجاب سے سو روپے میں آنے والی چیز ہمیں یہاں اب دو سو روپے میں مل رہی ہے۔‘

وہ ووٹ مانگنے کے لیے آئے سیاستدانوں سے شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ سب جھوٹ بولتے ہیں، اپنا کام سیدھا کرتے ہیں۔ ہر بندہ کہتا ہے کہ یہ کریں گے، وہ کریں گے، مگر منتخب ہونے کے بعد کوئی کام نہیں کرتے۔‘

گلگت بلتستان میں اسمبلی کی 33 میں سے 24 نشستوں کے لیے تین سو سے زائد امیدوار انتخابی میدان میں ہیں جبکہ آئندہ انتخابات میں سات لاکھ سے زیادہ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کئی ہفتوں سے گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں مہم چلا رہے ہیں، حکمراں جماعت تحریک انصاف نے امور کشمیر کے وزیر امین گنڈاپور کو یہاں بھیجا ہوا ہے۔

انتخابی سرگرمیوں میں پیپلز پارٹی سب سے زیادہ متحرک نظر آتی ہے، تاہم مقامی سیاسی پنڈتوں کے بقول بظاہر پاکستان کے دیگر حصوں میں حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو للکارتی مسلم لیگ ن اس وقت یہاں ایک کمزور پوزیشن میں دکھائی دیتی ہے۔ اور اسی کمزور پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے خود مریم نواز شریف گذشتہ ہفتے یہاں پہنچی ہیں۔

بیشتر علاقوں کی خواتین سیاسی لحاظ سے خاصی سرگرم ہیں۔ گلگت میں پیپلز پارٹی کے ویمن کنونشن میں شریک ایک خاتون سعدیہ نے بتایا کہ وہ اس لیے ووٹ دینے کے لیے ’پُرجوش‘ ہیں کیونکہ اب سیاسی جماعتوں میں ’نوجوان امیدوار آگے آ رہے ہیں، جو یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ہیں اور آج کے نوجوانوں کے مسائل اور مطالبات کو سمجھتے ہیں، خاص طور پر سوشل میڈیا کے دور میں اب بہت کچھ پہلے جیسا نہیں رہا۔‘

یہیں گلگت کے مرکزی بازار میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کے لیے بنے دفتر کے باہر ہم ایک 28 سالہ نوجوان وسیم بادامی سے ملے۔ وسیم بادامی گلگت میں ذاتی کاروبار سے منسلک ہیں اور آج کل گلگت کے ہزاروں نوجوانوں کی طرح وہ بھی انتخابات اور انتخابی گہری سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی بھی سیاسی جماعت تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے دعوؤں سے نہیں بہکا سکتی۔ ’الیکشن میں ہر پارٹی آتی ہے اور اپنے نعرے اور ایجنڈا دیتی ہے۔ یہ تو نوجوانوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کو ووٹ دینا ہے کیونکہ ان سب کو آزمایا ہوا تو ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس بار وہ مسلم لیگ ن کو ووٹ دیں گے اور اس کی وجہ وہ مریم نواز شریف کا وفاقی حکومت کے خلاف اعلان جنگ بتاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’وفاق میں حکومت نے ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کیے تھے۔ مگرجو نوکریوں والے تھے، اب وہ بھی بیروزگار ہیں۔ یعنی نوجوانوں کو تو پھر دیوار سے لگا دیا گیا ہے، ن لیگ کی حکومت کو بھی آزمایا ہوا ہے۔ تو ابھی آنے والے دنوں میں دیکھتے ہیں، میرے خیال میں تو جو نوجوانوں کے لیے آواز اٹھائیں گے، ہم انھی کے ساتھ ہوں گے چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں۔‘

دوسری طرف یہاں پاکستان تحریک انصاف کی مہم بھی جوش و خروش سے جاری ہے۔ اس بارے میں رائے یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے سے علاقے کو فنڈز ملیں گے اور ترقیاتی منصوبے آگے بڑھیں گے۔ یہاں روایت رہی ہے کہ جو جماعت وفاق میں حکومت کر رہی ہو اس جماعت کو یہاں زیادہ ووٹ ملتے ہیں اور وہ گلگت بلتستان میں حکومت قائم کرتی ہے۔

زمرد خان نامی ایک مقامی شخص، جو بازار میں دکان چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ’اپوزیشن کو تو یہاں کام کرنے کے لیے کوئی فنڈنگ ہی نہیں دے گا نہ ان کی کوئی سنے گا۔‘

یہاں مقامی سطح پر بجلی، بے روزگاری، تعلیم، انفراسٹرکچر اور سب سے بڑھ کر صحت کے مسائل ہیں۔ مگر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کے منشور اور تقاریر میں ان عوامی مسائل پر بات نہیں کی جا رہی۔

گلگت میں سینیئر صحافی شبیر میر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں اسی کی حکومت بنتی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہو، ’حتی کہ سیاستدان بھی یہی دیکھتے ہیں کہ وفاق میں کس کی حکومت ہے تاکہ یہ اس پارٹی کو جوائن کر لیں۔‘

خیال رہے کہ مسلم لیگ کے نصف درجن سے زائد رہنماؤں نے انتخابات سے پہلے ن لیگ کو خیرباد کہا ہے اور ان میں سے بعض نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے جبکہ بعض آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں میں مسلم لیگ ن کے موجود گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر بھی شامل ہیں۔

گلگت بلتستان

گلگت بلتستان کی خواتین بھی جوش و خروش سے انتخابی مہم میں شریک ہیں

شبیر میر کہتے ہیں کہ ’پی ایم ایل این کا ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ ٹاؤن ایریاز میں لوگوں کو متوجہ کر رہا ہے، بہت بڑی تعداد میں تو نہیں، مگر بہرحال ہم نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ لوگ اس نعرے کو فالو کر رہے ہیں۔ مگر پی ٹی آئی کا تبدیلی والا بیانیہ یہاں نظر نہیں آ رہا کیونکہ وہ پاکستان میں پِٹ چکا ہے۔‘

ان کے مطابق اس وقت پیپلزپارٹی مضبوط جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے اور اس کی بڑی وجہ بلاول بھٹو کی یہاں موجودگی ہے۔

’یہاں بعض علاقوں میں سخت سردی ہے اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے ہے، بلاول ان جگہوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور ان کے جلسوں میں کتنے لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں، یہ بھی ایک بڑا انڈیکیٹر ہے۔ بہت لوگ آتے ہیں اور ان علاقوں میں جہاں گرمیوں میں بھی اتنے لوگ باہر نہیں نکلتے، اس ٹھنڈے موسم میں جب وہ نکلتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بلاول کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اور یہاں اس وقت پی ٹی آئی کو کوئی چیلنج ہے تو وہ پیپلزپارٹی اور بلاول ہی ہیں۔‘

مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سابق چیف منسٹر کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کو یہاں انتخابی مہم چلانے میں بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’شہباز شریف کو عین اس وقت نیب نے گرفتار کیا جب انھوں نے گلگت بلتستان میں انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا۔ اس گرفتاری نے نہ صرف یہاں مورال ڈاؤن کیا بلکہ ہمارے کئی اہم لوگ پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے۔ اسٹیبلیشمنٹ یہاں قبل از انتخاب دھاندلی کر رہی ہے، لوگ توڑے جا رہے ہیں، ووٹ بینک توڑے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پوسٹل بیلٹ کے نام پر ایک بڑی دھاندلی کی جا رہی ہے۔‘

بازار

مگر اسٹیبلیشمنٹ ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کی طرفداری کے الزام کو ہمیشہ مسترد کرتی رہی ہے۔ حال ہی میں مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما احسن اقبال نے انٹیلیجنس بیورو یعنی آئی بی پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان کے امیدوار توڑنے میں ملوث ہے۔

اب چیف الیکشن کمشنر نے امیدواروں کو پاکستانی فوج کے سربراہ سمیت کسی فوجی افسر کی تصویر انتخابی مہم میں استعمال کرنے سے منع کیا ہے۔ دوسری جانب مقامی سپریم کورٹ نے بھی احکامات جاری کیے کہ بلاول بھٹو زرداری سمیت تمام پبلک آفس ہولڈرز جن میں وفاقی وزرا بھی شامل ہیں گلگت بلتستان سے 72 گھنٹوں میں چلے جائیں اور انتخابی مہم نہ چلائیں۔

تادم تحریر عدالت کی طرف سے دیا گیا وقت ختم ہونے کے باوجود تمام لیڈران یہاں موجود ہیں اور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے اس سلسلے میں عدالت میں ایک درخواست بھی دائر کر دی ہے۔

دوسری طرف گلگت بلتستان کا ایک بڑا طبقہ پی ٹی آئی سے بھی نالاں نظر آتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ضلع استور سے تعلق رکھنے والے شاہ جہاں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اس وقت ان کے علاقے میں مہنگائی کی بھی ذمہ دار ہے اور روزگار ختم کرنے کی بھی۔‘

جبکہ استور کے ہی لیاقت علی کہتے ہیں کہ وہ سبھی کو آزما چکے ہیں: ’سندھ کو دیکھ کر بلاول بھٹو سے کیا توقع رکھیں؟ جو شخص اپنے علاقے کو ٹھیک نہیں رکھ سکتا، وہ گلگت بلتستان میں اتنے دور آ کر ہمارے لیے کیا کام کرے گا؟ وفاق کو دیکھ کر پی ٹی آئی سے میرا دل بھر گیا ہے۔ مریم نوازسے بھی کوئی امید نہیں ہے، ابھی پچھلی حکومت انھی کی تھی، کوئی کام نہیں کیا، بس یہاں اب کوئی نئی جماعت ہونی چاہییے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp