مریم نواز کے الزامات کے بعد پاکستانی جیلوں میں قید خواتین کے حالات پر بحث


پاکستان
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے جیل میں ان کے قید خانے میں کیمرے نصب کرنے کے الزامات کے بعد پاکستان میں جیلوں میں خواتین سے روا رکھے جانے والے سلوک اور انھیں دستیاب سہولتوں کے بارے میں ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔

مریم نواز نے یہ بات گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کے دوران نجی ٹی وی نیو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ان سمیت کوئی بھی خاتون محفوظ نہیں اور جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، ’اگر وہ بتا دیا تو ان کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔‘

یہ بھی پڑھیے

وزیر اعظم کے حکم نامے کے تحت کون سی خواتین قیدی رہا ہوں گی؟

جوانی سے بڑھاپے تک کا جیل کا سفر

سلاخوں کے اُس پار بھی علم کے چراغ

جیل کی سزا کے کلنک سے نبرد آزما مسلم خواتین

انھوں نے کہا ’اگر آپ میرے کمرے اور باتھ روم میں کیمرے لگا سکتے ہیں، اگر آپ مریم نواز کی ہر چیز پر نظر رکھ سکتے ہیں اور ٹیپ کرسکتے ہیں تو پاکستان کی کوئی بھی خاتون محفوظ نہیں ہے۔

مریم نواز کے ان الزامات سے قبل سپریم کورٹ نے بھی بدھ کو وفاقی حکومت سمیت چاروں صوبائی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ملک کی مختلف جیلوں میں خواتین قیدیوں کو دستیاب سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں۔

عدالت کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری کے معاملے پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پاکستانی جیلوں میں قید خواتین قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں از خود نوٹس کی سماعت کی تو عدالت کو بتایا گیا کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے دو بڑے صوبوں، پنجاب اور سندھ میں جیلوں میں اصلاحات لانے کے لیے قانون سازی کر لی گئی ہے جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں قانون سازی کے حوالے سے مشاورت کی جا رہی ہے۔

وفاقی محتسب کی جانب سے مختلف جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی دی گئی تھیں۔

وفاقی محتسب کی ان تجاویز میں کیا ہے؟

ملک بھر کی مختلف جیلوں میں قید خواتین قیدیوں کے بارے میں ان تجاویز میں کہا گیا ہے کہ ان کے لیے ہر جیل میں الگ سے بیرکیں بنانے کے علاوہ ان بیرکوں میں بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں، جن میں بیت الخلا کے علاوہ آرام کرنے کے لیے مناسب جگہ اور دیگر سہولیات کی فراہمی شامل ہے۔

عدالت میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر کی مختلف جیلوں میں اس وقت خواتین قیدیوں کی تعداد 1300 کے قریب ہے جبکہ کم عمر قیدی بچوں کی تعداد نو سو سے زیادہ ہے۔ خواتین قیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد 828 صوبہ پنجاب کی جیلوں میں ہے۔

پنجاب کے جنوبی شہر ملتان میں ایک خواتین کی جیل بھی قائم ہے تاہم اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس تعداد میں مذکورہ جیل میں قید خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے یا نہیں۔

ان تجاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر ضلع کی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کے علاوہ شعبہ تعلیم، صحت سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ ضلعی بار کونسل کا ایک نمائندہ بھی شامل ہو گا جبکہ اس کمیٹی کے لیے فوکل پرسن کا تعین کرنے کی ذمہ داری متعلقہ صوبائی حکومت کی ہو گی۔

ان تجاویز میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جیل کے اندر اور باہر بائیو میٹرک نظام لگایا جائے تاکہ ان بیرکوں میں آنے جانے والے افراد کا ریکارڈ ترتیب دیا جا سکے۔

وفاقی محتسب نے چاروں صوبائی حکومتوں سے جیلوں کی صورتحال کے بارے میں جو رپورٹ منگوائی تھی اس کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے تاہم اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کورونا سے متاثرہ قیدیوں میں کتنی خواتین قیدی شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے تین صوبوں میں قائم جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہے جبکہ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں قیدیوں کی تعداد جیلوں کی گنجائش سے کم ہے۔ بلوچستان میں گیارہ جیلیں ہیں جہاں پر قیدیوں کی گنجائش 2500 کے قریب ہے جبکہ اس وقت صوبے بھر کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 2100 سے زیادہ ہے جن میں 23 خواتین قیدی بھی شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں 43 جیلیں ہیں جن میں قیدیوں کی گنجائش 36 ہزار ہے جبکہ اس وقت ان جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 48 ہزار سے زیادہ ہے۔

سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ نے وفاقی محتسب کے وکیل سے استفسار کیا کہ عدالت نے اُنھیں جیلوں کا دورہ کرنے کا حکم دیا تھا جس پر وفاقی محتسب کے وکیل کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جیلوں کا دورہ نہیں کیا جا سکا تاہم اُنھوں نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ وہ کورونا کی صورت حال بہتر ہونے کے بعد ملک بھر کی جیلوں کا دورہ کریں گے۔

عدالت کے استفسار پر پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب بھر کی جیلوں میں کم عمر قیدیوں اور خواتین قیدیوں کے لیے الگ جگہ مختص کر دی گئی ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الاحسن نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے سپریٹنڈنٹ سے استفسار کیا کہ کتنے عرصے کے بعد جیل کا دورہ کیا جاتا ہے جس پر اڈیالہ جیل کے انچارج کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ جیل کا دورہ کرتے ہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں جیل کے حالات سے آگہی نہیں ہوتی۔ اُنھوں نے کہا کہ کوئی بھی اتھارٹی کسی بھی وقت جیل کا دورہ کر سکتی ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ ضلعی سطح پر جو کمیٹیاں بنائی گئی ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ضلعے میں قائم جیلوں کا دورہ کریں اور اس بارے میں حکام کو رپورٹ جمع کروائیں۔ پنجاب کے تین اضلاع خوشاب، چنیوٹ اور ننکانہ صاحب میں ابھی تک جیلیں تعمیر نہیں کی گئیں ہیں۔

جیلوں میں قید خواتین کے اصل حالات کیا ہیں؟

پاکستان میں خواتین قیدیوں کے حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پیس پراجیکٹ کی لیگل اینڈ پالیسی سپیشلسٹ بیرسٹر سیدہ جگنو کاظمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک بھر میں جیلوں میں قید خواتین کے حالات دیگر مرد قیدیوں سے مختلف نہیں ہیں۔

پشاور اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ذاتی دورے کے تجربات کو بیان کرتے ہوئے جگنو کاظمی کا کہنا تھا کہ ’گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو جیل میں رکھنا تو عام بات ہے لیکن خواتین قیدیوں میں سب سے زیادہ مسئلہ ایسی خواتین کو ہوتا ہے جن کے ساتھ ان کے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’ان میں سے کچھ خواتین کے بچے ان کے ساتھ جیل آتے ہیں اور چند ایک کے جیل میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ان خواتین کو ان کی پرورش، دیکھ بھال، پیپرز، اور دیگر ضرورتوں میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جیل کے دوروں کے دوران انھیں یہ علم ہوا کہ ’دو سال کی عمر تک کے بچوں کو جیل حکام اور فلاحی اداروں کی جانب سے دیے جانے والے عطیات کے ذریعے سوکھا دودھ دیا جاتا ہے لیکن ان کے لیے کھانا یا روزانہ کی خوراک وہ ہی ہوتی ہے جو جیل میں ماں کو ملتا ہے۔‘

جگنو کاظمی نے بتایا کہ ’اگر نومولود بچے یا کسی چھوٹے بچے کی طبیعت خراب ہو جائے تو بھی ان خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیل میں ایک ماہر نفسیات، ایک دندان ساز اور ایک عام ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہوتے ہیں لیکن کوئی ماہر اطفال نہیں ہوتا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میرے اڈیالہ جیل کے دورے کے دوران ایک خاتون کی ڈھائی سال کی بیٹی کی طبیعت گذشتہ چند روز سے خراب تھی لیکن اس نے بتایا کہ ابھی تک اس کے لیے کچھ ہو نہیں سکا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ پشاور جیل اور اڈیالہ جیل میں چھوٹے بچوں کے لیے نرسری موجود تھی۔ جہاں چھوٹے بچوں کے لیے کھلونے وغیرہ موجود تھے۔

بیرسٹر جگنو کا کہنا تھا کہ ’جیلوں کے دورے کے دوران ہم نے خواتین سے جنسی استحصال کے متعلق سوال کیا جس پر انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تاہم اس سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ ایسے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔‘

پاکستان

جیلوں میں صفائی ستھرائی کے حالات اور خصوصاً خواتین کے ماہواری اور دیگر جسمانی مسائل کے پیش نظر جیلوں میں خواتین کے لیے کیا کوئی خصوصی انتظام تھا، اس سوال پر بیرسٹر جگنو کاظمی نے بتایا کہ ’ہمارے جیلوں کے دورے کے دوران انتظامیہ کو علم تھا کہ ہم آ رہے ہیں تو انھوں نے بنیادی صفائی کی ہوئی تھی، تاہم ان کے خیال میں خواتین کو ذاتی استعمال کی اشیا صرف ان کے گھر والوں کی جانب سے فراہم کرنے پر ہی میسر ہیں، جیل انتظامیہ ان کو کچھ فراہم نہیں کرتی۔‘

جیلوں میں زیادہ تر خواتین کن جرائم میں قید ہیں، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر خواتین منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں قید ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر خواتین ایسی ہیں جو کم علمی میں اس کاروبار میں استعمال ہوئی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’چند خواتین کو ان کے شوہر ملنے آتے ہیں جبکہ زیادہ تر کے شوہر ان سے کبھی ملنے نہیں آئے یا وہ خود جرائم پیشہ ہیں اور مفرور ہیں۔‘

بیرسٹر جگنو کاظمی کا کہنا تھا کہ جیلوں میں قید خواتین کا ایک اور سب سے بڑا مسئلہ سرکاری وکیل کا میسر نہ ہونا ہے۔

’سرکاری وکیل نے برسوں سے کبھی ان خواتین کے مقدمات کو عدالتوں میں پیش ہی نہیں کیا۔ وہاں قید خواتین کو اپنے وکلا کا نام تک نہیں پتہ۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جیل اور قانون کا نظام اتنا بوسیدہ ہے کہ ’کچھ خواتین کو صرف دو برس کی قید ہوئی لیکن ان کے پاس ضمانت کے پیسے نہ ہونے کے باعث وہ کئی برسوں سے جیل میں ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ان خواتین کے ساتھ دوہرا ظلم یہ ہے کہ ایک وہ انتہائی غریب ہیں اور دوسرا وہ ان پڑھ ہیں، اس لیے جیل سے آزاد نہیں ہو پاتیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp