پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا سے وفات پا گئے


پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا کے باعث وفات پا گئے ہیں۔ ترجمان پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا کے مرض میں مبتلا تھے اور گذشتہ کچھ عرصے سے اسلام آباد کے نجی ہسپتال کلثوم انٹرنیشنل میں زیرعلاج تھے۔

خیبرپختونخوا بار کونسل اور پشاور ہائیکورٹ بار نے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے انتقال پر شدید دکھ و افسوس کا اظہار کیا ہے۔

کورونا کے باعث ان کی ہلاکت پر پاکستان میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے کل یوم سوگ منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل عدالتوں میں صرف ارجنٹ اور انتہائی اہم نوعیت کے امور سرانجام دیے جائے گے جبکہ معمول کی کارروائی بند رہے گی۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘عدلیہ ایک ایسے بہادر جج سے محروم ہو گئی ہے جس نے ملک میں طاقتور ترین ادارے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فیصلے کیے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ان کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کے لیے وکلا تنظیمیں کوششیں کر رہی تھیں۔

واضح رہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایک درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جونیئر جج صاحبان کو سپریم کورٹ کا جج بنا کر ان کی حق تلفی کی گئی ہے۔

چار ماہ سے زائد عرصے سے جمع کروائی گئی ان کی اس درخواست کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

’جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے بولتے ہیں‘

پیرا 66 سے آگے: خصوصی عدالت کے فیصلے میں کیا ہے؟

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ کا شمار خیبر پختونخوا کے ان ججوں میں ہوتا تھا جنھوں نے انتہائی اہم معاملات میں فیصلے دیے ہیں اور پشاور کے وکلا ان فیصلوں کو ‘بولڈ’ فیصلے سمجھتے ہیں۔

سیٹھ وقار احمد کون تھے

چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک متوسط کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن انھوں نے اپنی تعلیم پشاور کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی ہے۔

انھوں نے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی اور لا کالج پشاور یونیورسٹی سے پہلے قانون کی ڈگری حاصل کی اور پھر پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے 1985 میں عملی وکالت کا آغاز کیا۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ 1990 میں ہائی کورٹ اور پھر 2008 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔ انھیں 2011 میں ایڈیشنل سیشن جج تعینات کیا گیا اور اس کے بعد وہ بینکنگ کورٹس سمیت مختلف عدالتوں میں تعینات رہے۔

وقار احمد سیٹھ نے 2018 میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے عہدے کا حلف لیا۔

ان کے والد سیٹھ عبدالواحد سینیئر سیشن جج ریٹائرڈ ہوئے جبکہ ان کے نانا خدا بخش پاکستان بننے سے پہلے 1929 میں بننے والی صوبے کی پہلی اعلیٰ عدالت میں جج رہے تھے۔

لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کے مطابق ‘جسٹس وقار احمد سیٹھ ابتدا سے ہی روشن خیال انسان تھے اور انھوں نے لیبر لاز اور سروس لاز میں مہارت حاصل کی اور ساتھ ساتھ سول اور کریمنل کیسز بھی کرتے تھے۔’

لطیف آفریدی کے مطابق ‘جسٹس وقار احمد سیٹھ اپنی محنت سے اس مقام پر پہنچے اور ان کے فیصلے بولتے ہیں۔’ ‘

سیٹھ وقار احمد کے چند اہم فیصلے

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایسے افراد کے مقدمات کی طرف زیادہ توجہ دی جو مالی حیثیت نہیں رکھتے یا ایسے مقدمات کو ترجیح دیتے رہے جن مقدمات میں عام طور پر عدالتوں میں تاخیر ہوتی رہی ہے۔

یاد رہے ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ 70 سے زیادہ افراد کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف تمام درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

بی بی سی نے گذشتہ برس چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ کے چند اہم فیصلوں کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ سے بات کی تھی اور جسٹس وقار کے فیصلوں کے چند اہم فیصلوں پر انھوں نے اپنے رائے کا اظہار کیا تھا۔

ملٹری کورٹس کے خلاف درخواست گزاروں کے حق میں دیے گئے فیصلے کے بارے میں لطیف آفریدی کہتے ہیں ‘چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ملٹری کورٹس سے موت کی سزا اور عمر قید کی سزا پانے والے افراد کی ان درخواستوں پر فیصلہ دیا ‘جسے لینڈ مارک’ سمجھا جاتا ہے۔’

لطیف آفریدی کے مطابق ایکشن ان ایڈ آف سول پاورز ریگولیشن 2011 فار فاٹا اینڈ پاٹا کے بارے میں چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا اور یہ افراد ملٹری اداروں کے زیرِ حراست رہے۔

‘وقار احمد سیٹھ نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات اور انسپکٹر جنرل پولیس کو ان مراکز کو اپنی تحویل میں لینے کا حکم جاری کیا تھا۔’

یاد رہے کہ جسٹس وقار احمد نے سابق چیف جسٹس دوست محمد خان کے پشاور ہائی کورٹ میں قائم انسانی حقوق سیل کو بحال کر دیا تھا۔ اس سیل میں کسی بھی درخواست پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور سائل کو کوئی اخراجات بھی برداشت نہیں کرنے پڑتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp