معاشی لٹیروں کی نفسیات


ایک زمانے سے وطن عزیز میں احتساب کے نعرے لگ رہے ہیں اور چھوٹے بڑے معاشی دہشت گرد پکڑے جا رہے ہیں۔ میں نے لفظ ”معاشی دہشت گرد“ جان بوجھ کر استعمال کیا، کیونکہ مجھے احساس ہے کہ اس جملے کو پڑھنے والوں کو لفظ شدید اور غیر منصفانہ معلوم ہو گا۔ آخر کسی ادارے میں خورد برد کرنے والا، تھوڑے پیسے بنا لینے والا شخص دہشت گرد کیوں کہا جائے؟ میں خود اس اصطلاح سے متفق نہیں ہوں، چور کو چور کہا جانا چاہیے، ڈکیت کو ڈکیت اور دہشت گرد کو دہشت گرد۔

جس طرح کوے کو کبوتر نہیں کہنا چاہیے، اسی طرح بدعنوان کو بھی دہشت گرد نہیں کہنا چاہیے۔ لیکن میرا سوال تھوڑا مختلف ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاشی لٹیروں کی نفسیات کیا ہوتی ہے بھلا؟ آخر یہ پانامہ، سرے محل، سوئس اکاؤنٹ سے لے کر یہ KDA، KMC وغیرہ وغیرہ تک ہر ادارے سے جو اتنے سارے لوگ اٹھا لیے گئے ہیں جن میں کچھ ضمانتوں پر باہر ہیں اور کچھ نے راہ فرار اختیار کر لی ہے، یہ سب ہیں کون؟ کیا یہ بے قصور ہیں؟ کیا یہ واقعی کسی جرم میں ملوث ہیں؟

جرائم کو ثابت کرنا تو خیر وکیلوں کا کام ہے اور سزا دینا عدالتوں کا۔ اور یقیناً ہمارے وطن میں کمزور تو سزا پاتا ہے اور طاقتور ہمیشہ ہی انصاف سے بچ جاتا ہے لیکن یہاں یہ بحث بھی نہیں کہ ان کو سزا دی جائے یا جزا دی جائے۔ ہمارا سوال صرف اتنا سا یہ کہ آخر لوگ یہ بدعنوانی کا رستہ اختیار کرتے کیوں ہیں؟ یہ لوگ بھی تو ہمارے بھائی، بہن ہی ہیں، یہ بھی تو انسان ہی ہیں، ان کی تربیت بھی تو آخر اسی معاشرے کی اقدار کے ساتھ ہوئی ہے، تو یہ افراد ایسے غلط افعال کیوں کر گئے؟

منطق کہتی ہے کہ جہاں آگ ہے وہاں دھواں بھی ہے۔ اگر وطن عزیز میں بدعنوانی پر اتنا شور ہے تو کچھ حقیقت تو اس شور میں ضرور ہی ہو گی اور یہ صرف ہمارے وطن کا مسئلہ بھی نہیں۔ سعودی عرب میں تو شہزادے ہی بدعنوانی کے الزام میں دھر لیے گئے تھے۔ چلیے آپ کہہ لیجیے کہ وہ تو سیاسی اقدام تھا اور اس کی وجہ بدعنوانی نہیں تھی، لیکن بات یہ ہے کہ یہ بات تو شرجیل انعام اور ڈاکٹر عاصم بھی کہتے ہیں اور یہی بات نواز شریف صاحب بھی فرماتے ہیں تو کیا آپ کا ذہن یہ بات تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ تینوں ان الزامات سے صریحاً بری الزمہ ہیں جو ان پر دھرے گئے؟

خیر بات پھر کسی دوسری ہی سمت میں جا رہی ہے۔ بات کو سمیٹتے ہیں، سوال یہ ہے کہ لوگ بدعنوانی کیوں کرتے ہیں؟ علم نفسیات کے پاس اس سوال کے کیا کیا جوابات ہیں؟ سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق انسان کے اندر ایک حق و باطل میں امتیاز کرنے والا نفسیاتی حصہ موجود ہوتا ہے جس کو ’فوق الانا‘ یا Super ego کہا جاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے اور انسان کو اس پر مجبور کرتا ہے کہ وہ صحیح کو اختیار کرے اور غلط سے اجتناب برتے۔

غلط افعال کرنے کے بعد یہی حصہ ہمیں احساس گناہ کے کچوکے دیتا ہے۔ جب ایک بچہ کوئی چیز چراتا ہے اور ماں باپ یا استاد کو اس کی خبر ہوتی ہے تو بچے کو سرزنش یا مار پڑتی ہے۔ اس میں معاشرہ احساس جرم پیدا کرتا ہے اور اسے ایسے افعال سے روکنے کی سعی کرتا ہے۔ نفسیاتی علاج کے مراکز میں آئے دن ایسے بچے لائے جاتے ہیں جن میں چوری، بے جا غصہ اور اسی نوع کے سماج سے عدم مطابقت رکھنے والے رویے پائے جاتے ہیں۔ عام طور پر ایسے بچے بھی بڑے ہو کر ایسے رویوں سے باہر آ جاتے ہیں یا یوں کہیے کہ اپنی فطرت کے اس پہلو کو چھپانا سیکھ لیتے ہیں۔

جو افراد کوئی بھی غیر اخلاقی کام کرتے ہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان افراد میں ان معاملات میں احساس جرم نہیں ہوتا۔ اکثر بدعنوان افراد میں ایسا ہر گز بھی نہیں ہوتا کہ ان میں صحیح اور غلط کا تصور ہو ہی نہ۔ وہ افراد بھی کئی امور پر احساس جرم محسوس کرتے ہیں۔ وہ بھی بہت سی سماجی اقدار کے پامال ہونے پر دکھی ہوتے ہیں اور اپنی اولاد کو کچھ نہ کچھ اخلاقیات کی تلقین کرتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ان افراد کا ضمیر کچھ معاملات میں سن ہو جاتا ہے۔

ان کو وہ چیز گناہ یا غلط لگتی ہی نہیں۔ وجہ یہ کہ اس کے لئے ان کے پاس بہت سی تاویلات ہوتی ہیں۔ پولیس کے اہلکاروں کی نفسیاتی تشخیص کے تجربے سے راقم نے یہ اس حوالے سے بہت سی باتیں جانیں مثلاً۔ وہاں اکثر سے سوال کیا کہ کیا انھوں نے رشوت ستانی کبھی کی؟ اور حیرت انگیز طور پر کسی نے کبھی اس بات کا انکار نہیں کیا۔ سب کا ہی جواب ہاں ہی ہوتا۔ عموماً لوگ بتاتے کہ جب وہ ڈسٹرکٹ پولیس میں تھے تو وہاں بہت رشوت لی، پھر اس کے بعد وہ اپنے اس عمل کی تاویلات پیش کرنے لگتے۔

مثلاً ’تنخواہ کم ہے‘ یا یہ کہ ’سب ہی لیتے ہیں‘ یا یہ کہ ’میں کبھی کسی سے خود نہیں مانگتا تھا، کوئی خود ہی دے دے تو الگ بات ہے‘، اس نوع کے جواب دینے والے وہ افراد تھے جو چھوٹے رینک پر پولیس کے ملازم تھے۔ جن کو پولیس کی زبان میں این جی اوز یعنی Non Gazetted Officers کہتے ہیں۔ مجھے ایک مرتبہ اپنے ایک طالب علم سے (جس کے والد DIG تھے ) یہ سوال کرنے کا موقع ملا۔ اس نے ہنستے ہوئے فخر سے کہا ”نہیں سر، وہ رشوت کیوں لیں گے، وہ تو بجٹ سے کھا لیتے ہیں“۔

بس یہیں سے مجھے اپنے اس سوال کا جواب مل گیا کہ معاشی لٹیروں کی نفسیات کیا ہے؟ دراصل ہمارے وطن میں اگر کسی کو کسی بدعنوانی سے تھوڑا سا احساس جرم ہوتا ہے تو وہ ایسی بدعنوانی ہوتی ہے جس میں انھوں نے کسی فرد کو نقصان پہنچایا۔ لیکن جب ریاست کو لوٹا جاتا ہے تو معاملہ رنج یا احساس جرم کا نہیں ہوتا بلکہ فخر کا بن جاتا ہے۔ ایسے لوگ بڑے فخر اور مذہبی جذبے سے عبادات بھی کرتے ہیں۔ موقع ہو تو کسی کی مدد کرتے بھی پائے جاتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ’کسی فرد کو نہیں، ہم تو ریاست کو لوٹ رہے ہیں‘ اور ’ہم فلاں فلاں اچھا کام بھی تو کرتے ہیں۔‘ ایسے بہت سے بدعنوان افراد بہت سے خیراتی اور رفاہی کام کرتے بھی نظر آ سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے اندر ایک نوع کا توازن قائم کر لیتے ہیں۔

بڑی حد تک ہمارے وطن میں لوگوں کی نظر میں بہت سی چیزیں چوری کرنا کوئی جرم یا برائی ہے ہی نہیں مثلاً اس شہر میں بجلی چوری کس قدر عام تھی اور یہ کرنے والوں میں کبھی بھی احساس جرم اس معاملے پر ہوتا ہی نہ تھا۔ مجھے یاد ہے 1994 ء میں ایک گھر میں، میں نے دیکھا کہ 1000 واٹ کے بلب ہر جگہ لٹکے ہوئے تھے، جب اس گھر کے مکینوں سے اس کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ انھوں نے کسی سے اپنا بجلی کا میٹر سست کروایا تو وہ حد سے زیادہ ہی سست ہو گیا۔

اب اچانک بہت کم بجلی کا بل آتا تو بات KESC کی نظر میں آ جاتی، اس لیے انھوں نے بھاری بھاری بلب لا کر لٹکا دیے۔ ہمارے وطن میں جب پیٹرول کے کنٹینر کے الٹ جانے پر لوگ اس سے بہتے پیٹرول کو چوری کرنے جمع ہو جاتے ہیں تو اندازہ لگائیے کہ جب ان افراد کو وزیر بلدیات یا ’ڈی جی۔ کے ڈی اے‘ بنا دیا جائے تو یہ کیا نہیں کریں گے؟

ایک اور ذہنیت جو بدعنوانوں کی نفسیات کا خاصہ ہے وہ وہی ہے جو پیپلز پارٹی کے ایک وزیر نے فرمائی تھی کہ کرپشن میں بھی مساوات چاہیے۔ سب کو کرپشن کا موقع ملتا ہے تو ہم کو کیوں نہیں؟ بدعنوان افراد جب پکڑے جاتے ہیں تو ان میں سے 99 فیصد ”مجھے کیوں پکڑا، اسے کیوں نہیں پکڑا“ کے نعرے لگاتے پائے جاتے ہیں۔ خیر تاویلات سے خدا کو کتنا جلال آتا ہے اس کے لئے وہ قرآنی واقعہ بڑی واضح مثال ہے جب خداوند نے حکم صادر کیا کہ سبت (ہفتہ) کے یوم دریا پر مچھلی پکڑنے نہ جاؤ تو بنی اسرائیل نے اپنے دروازوں کے سامنے سے نہر نکال لی اور دریا پر جائے بنا ہی مچھلی پکڑ لی، لیکن خدا کی لعنت اور جلال سے نہ بچ سکے اور بندر بنا دیے گئے۔

بدعنوانی محض بیرونی سزاؤں یا صرف شرم کا احساس بیرونی طور پر پیدا کرنے کی سعی سے ختم نہیں ہو سکتی۔ پورے ہی سماج کو ایک اندرونی انقلاب سے گزرنا ہو گا جس میں حق و باطل کے تصور کو صرف کہانیوں اور باتوں سے نکال کر عام زندگی میں ایک حقیقی عامل کے طور پر دکھانا ہو گا جو ان حالات میں ناممکن ہے جب حقیقی اخلاقی نمونے سماج سے صریحاً مفقود ہی ہو کر رہ گئے ہوں۔ جب صرف بیرونی خوف کی وجہ سے ہی لوگ کسی کام سے رکتے ہوں اور جیسے ہی بیرونی روک ہٹ جاتی ہو تو ان کے لئے ہر شے حلال اور جائز ہو جاتی ہے۔ یہی آج ہمارے سماج کا حال ہے۔ قانون صرف چھوٹے موٹے قلیوں، کباڑیوں کے لئے ہے اور اخلاقی رکاوٹ اب کوئی محسوس نہیں کرتا اس لیے اس ملک میں بدعنوانی بھی دہشت گردی بن جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).