راج کرے گا بہنوئی


جس دن یہ قرار پایا کہ عمران خان کو نوجوانوں کی حمایت حاصل ہے، اس روز یہ بھی طے پا گیا کہ خضاب لگانے، فیس بک پر اپنے تعارف سے پیدائش کا سال مٹانے، ظاہری بیماریوں کی دوائیں بھی پوشیدہ امراض کی طرح چھپانے اور جینز اور رنگین قمیصوں میں نظر آنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، ”ابھی تو میں جوان ہوں“ کا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے عمران خان کا پرجوش حامی ہونا لازمی ہے، چاہے اس دعوے کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ثابت ہو جائے!

بس اس دن سے ہم خان صاحب کو اپنا راہ نما مان چکے ہیں اور ان کی ہر بات ماننا خود پر فرض کرچکے ہیں، چناں چہ اکثر ہمیں ”فرض“ کرنا پڑتا ہے کہ جو انھوں نے کہا اس کا وہ مطلب نہیں جو انھوں نے کہا، بلکہ ان کے کلام کی تہہ داری کو لوگ سمجھ نہیں پائے اور مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ خان صاحب کو راہ نما ماننے کی وجہ سے ہمارا ماننا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کہتے اور کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی بلند خیال، وسیع معنی اور اعلیٰ مقصد ہوتا ہے۔ اب بہنوئی کے تذکرے ہی کو لیجیے۔ وزیراعظم نے فرمایا تھا کہ انھوں نے : ”لاہور میں قبضہ مافیا کو لگام دینے کے لیے عمر شیخ کو سی سی پی او لگایا۔ ایک انٹرویو میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آ کر کئی بار آئی جی پنجاب سے اپنے بہنوئی کے پلاٹ سے قبضہ چھڑانے کی بات کی لیکن قبضہ برقرار رہا۔“

اب اس بات پر وزیراعظم کو طعنہ زنی کا نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ بہنوئی کی خاطر سی پی او لگا کر اور اپنا یہ کارنامہ بیان کر کے درحقیقت انھوں نے بہنوئی کی عظمت اور اہمیت اجاگر کی ہے۔ وزیراعظم اس رشتے کے معاملے میں اتنے حساس ہیں کہ انھوں نے صرف بہنوئی بننے کے لیے بار بار شادی کی۔ ہمیں تو یقین ہے کہ خان صاحب بہنوئی کے پلاٹ کی خاطر ہی اتنے پاپڑ بیل کر وزیراعظم بنے، ورنہ ان جیسے درویش صفت انسان کو سیاست اور اقتدار سے کیا مطلب!

اب جب کہ ہم اپنے عظیم لیڈر کا عظمت بہنوئی کے حوالے سے پیغام سمجھ گئے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ بہنوئی کو اس کا کھویا ہوا مقام عطا کریں۔ ہماری تجویز ہے کہ ماں اور باپ کے دنوں کی طرح ہر سال ”یوم دولہا بھائی“ منایا جائے، ”رکشا بندھن“ کی طرح ”منہ بولا بہنوئی“ بنانے کی رسم کا اجراء کیا جائے اور جو حضرات بہن نہ ہونے کی وجہ سے بہنوئی سے محروم ہو کر احساس محرومی کا شکار ہیں، وہ کسی بھی مرد کے ہاتھ میں رسی باندھ کر اسے اپنا منہ بولا بہنوئی بنا لیں، اس موقع پر منہ بولا سالا منہ پھاڑ کر سوگند کھائے کہ وہ اپنے منہ بولے بہنوئی کے پلاٹ کو بچانے کے لیے کچھ بھی کر جائے گا۔

ہمارے ملک میں سیاست دانوں کے ماں باپ اور اولاد کے نام پر سڑکیں اور عمارتیں تو بہت ہیں، جیسے عثمان بزدار صاحب کے والد سے اسپتال منسوب کر دیا گیا، جن کی واحد قومی خدمت عثمان بزدار ہیں، کراچی میں ایک ”قائد“ کے والد اور والدہ سے صرف یہ باور کرانے کے لیے کتنی ہی سڑکیں، عمارتیں اور ادارے موسوم کر دیے گئے کہ ”بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا“ ، چناں چہ بہنوئی کے مقام کا اعتراف کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک بھر میں شاہ راہوں، اداروں، عمارات، محلوں اور شہروں کو حکم رانوں اور سیاسی قائدین کے بہنوئیوں سے منسوب کیا جائے۔

وزیراعظم کے فقروں میں چھپے خفیہ پیغام کی روشنی میں ہم یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ جس طرح وزیراعظم کی اہلیہ خاتون اول قرار پاتی ہیں، اسی طرح وزیراعظم کے سارے بہنوئیوں یا کم ازکم سب سے بڑے بہنوئی کو ”بہنوئی اول“ بلکہ قومی دولہا بھائی قرار دیا جائے۔

ایسے ڈرامے اور فلمیں بنائی جائیں جن میں کہانی اور سالے سالیاں بہنوئی کے گرد گھومتی ہوں۔ پرانی فلموں کو بہنوئی کی تھیم کے ساتھ ری پروڈیوس بھی کیا جاسکتا ہے۔ جیسے ”شعلے“ کا ری میک بنایا جائے، جس میں دکھایا جائے کہ گبر سنگھ نے ٹھاکر کے بہنوئی کے پلاٹ پر قبضہ کر لیا ہے، قبضہ چھڑانے کے لیے ٹھاکر اپنے دو سالوں کو بلاتا ہے، جو اپنے بہنوئی کے حکم پر دوڑے دوڑے رام گڑھ پہنچ جاتے ہیں۔ ”مولا جٹ“ کا ری میک ”سالا جٹ“ کے نام سے بنایا جائے۔ فلم میں کہانی بہنوئی کے پلاٹ، ہیروئن سالے جٹ اور سالا جٹ بہنوئی کے گرد بلکہ آگے پیچھے گھومتا رہے۔

بہنوئیوں کی حیثیت تسلیم کرنے کے لیے اتنا ہی کافی نہیں، ہمارے شاعروں کو چاہیے کہ بہنوئی کے لیے اشعار، نظمیں، غزلیں، نغمے، ترانے اور پورے پورے ”بہنوئی نامے“ لکھیں۔ جب تک ایسی شاعری وجود میں نہیں آتی مختلف شعروں میں رد و بدل کر کے ان میں بہنوئی لا گھسایا اور پھر ان شعروں کو تعلیمی نصاب میں جا گھسایا جائے۔ شعروں میں ترمیم و اضافے کی یہ خدمت ہم انجام دے چکے ہیں تاکہ ”بہنوئی شناسی“ کی تحریک بلاتاخیر شروع کی جاسکے۔ ایسے کچھ اشعار پیش ہیں :

ہے دولہا بھائی سے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
….
”بہنوئی“ کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو
”بہنوئی“ تو ہر دور میں انمول رہا ہے
….
مرا بہنوئی نہیں عرصے سے سویا تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
….
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے ”سالی“ کی طرح میری پذیرائی کی
….
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں ہوں بہنوئی کی بس ایک نظر ہونے تک
…..
ہے بہنوئی، رہا مت کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
کہ ہے تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
….
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
بہنوئی کی تیاری میں یہ ہوتا ہے سامان
….
”ہے تم سے سالے کا رشتہ“ ، یہ دل غریب سہی
تمھارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
….
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پر لکھا ہے
جب سارے جہاں کے بہنوئی
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
گونجے گا ”انا الدولہا بھائی“
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گا ”بہنوئی“
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
…..
وہ تھا بہنوئی، اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
سالے تم اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
….
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب ”سالوں“ سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ ”دولہا بھائی“ گراں مایہ کیا کیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).