1965 میں ریڈیو پاکستان کے جنگی اور ملی نغموں کے پروڈیوسر محمد اعظم خان


مجھے عرصے سے کسی ایسی شخصیت کی تلاش تھی جس نے 1965 کے جنگی نغمے ریڈیو پاکستان سے پروڈیوس کیے ہوں۔ میں جب جب لاہور گیا یہ خواہش بڑھتی ہی گئی۔ اتفاق سے پچھلے دنوں قسمت نے یاوری کی اور گوہر مقصود ہاتھ آیا جب تمغۂ امتیاز یافتہ موسیقار، سجاد طافو نے بتایا کہ وہ ایک ایسے شخص کو جانتے ہیں جو ریڈیو پاکستان لاہور کے انسائکلوپیڈیا ہیں۔ اور۔ انہوں نے ہی 1965 میں لاہور مرکز سے جنگی نغمے پیش کیے۔ وہ جناب محمد اعظم خان ہیں۔

جنگی نغموں کے علاوہ ریڈیو پاکستان لاہور میں کس فنکار نے کیا چیز گائی، اس کا میوزک کمپوزر کون تھا؟ اس کو کس نے لکھا وغیرہ کی معلومات کا ایک نا ختم ہونے والاخزانہ بھی اعظم صاحب کے پاس ہے۔ میں نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر حضرت سے رابطہ کیا اور ان سے ملاقات کر نے جا پہنچا۔ وہاں سوال جواب کی ایک لمبی نشست ہوئی۔ اس کے چیدہ چیدہ اقتبا سات پیش خدمت ہیں :

” اعظم صاحب کچھ اپنے بارے میں بتایئے“ ۔

” میں 15 اکتوبر 1936 کو سیالکوٹ شہر کے محلہ واٹر ورکس میں پیدا ہوا۔ سی بی ( کنٹونمنٹ بورڈ ) اسکول، سیالکوٹ سے میٹرک اور گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجوایشن کیا۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں گانے اور ڈرامے کا آڈیشن دیا۔ میں دونوں میں پاس ہو گیا۔ اس وقت منصور تابش میوزک پروڈیوسر تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ میں کسی ایک شعبے کا انتخاب کروں۔ نیز یہ بھی کہا کہ تم میوزک میں ٹھیک رہو گے۔ پھر میں نے ایسے ہی کیا۔ یہیں پر میں نے جناب اعجاز حسین حضروی کو گاتے سنا تو دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ ان کی شاگردی اختیار کرنا چاہیے“ ۔

” موسیقی کا ذکر ہو رہا ہے ذرا بتایئے کہ آپ کو یہ شوق کیوں اور کیسے ہو ا؟“ ۔

” مجھے موسیقی کا شوق تو شروع سے ہی تھا لیکن باقاعدہ سیکھنے کی طلب اعجاز حسین حضروی کو دیکھ کر اور سن کر پیدا ہوئی۔ وہ کینٹ ( راولپنڈی ) میں ہمدانی شاہ کی ایک بیٹھک میں جاتے تھے۔ میں ان کے پاس سیکھنے جا نے لگا جہاں رات دیر تک نشست ہوتی۔ ایک دن امانت علی خان بھی آئے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے اعجاز حسین حضروی بہت پسند ہیں اور میں ان کا شاگرد ہونا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے کہ میرے سامنے ابھی ہو جاؤ! تو ان کے سامنے میں نے ’گنڈا‘ باندھا۔ اب آپ اندازہ لگا لیں کہ میری اس استادی شاگردی میں کس پائے کی شخصیت موجود تھی ”۔

” گویا حضروی صاحب بہت بڑے فنکار تھے!“ ۔

” جی ہاں وہ بہت بڑے فنکار تھے۔ اور ان جیسا ہارمونیم شاید ہی کوئی بجاتا ہو! کچھ عرصہ بعد جب میں لاہور ریڈیو میں پروڈیوسر ہو گیا تھا تو ایک دفعہ موسیقار جوڑی بخشی وزیر، ماسٹر منظور، نذر حسین وغیرہ کہنے لگے کہ حضروی صاحب ہماری بات تو مانتے نہیں! ذرا ان سے ریکارڈنگ تو کرواؤ وہ تیرے استاد ہیں تمہاری بات مان لیں گے۔ میں نے اعجاز حسین حضروی صاحب کے آگے ان سب حضرات کی فرمائش رکھی۔ انہوں نے کہا کہ اعظم میں تیری بات کیسے ٹالوں! اس طرح میں نے آدھے گھنٹے کی ’پوریا دھناسری‘ ریکارڈ کی۔ ماسٹر صادق حسین جو آنکھوں سے نابینا تھے وہ بھی سن کر کہنے لگے کہ حضروی کی انگلیوں میں تو بجلی بھری ہوئی ہے۔ جب کہ ماسٹر صادق خود پیانو بجانے میں بے نظیر تھے۔ میرے پاس اس آئٹم کی ٹیپ پڑی ہوئی ہے ”۔

” موسیقی سیکھنے کے ساتھ میں نے ریڈیو پاکستان پنڈی میں گانا بھی شروع کر دیا۔ میرے استاد حضروی صاحب یہاں کے اسٹاف آرٹسٹ تھے اس طرح میں بھی اپنے استاد کے ساتھ ہی میوزک سیکشن میں اسٹاف آرٹسٹ بھرتی ہو گیا“ ۔

” پھر آپ ریڈیو پاکستان لاہور میں پروگرام پروڈیوسر کیسے اور کس طرح بنے؟“ ۔

” ریڈیو میں پروڈیوسر کی آسامی نکلی تو اس کے لئے راولپنڈی سے 200 سے 300 افراد میں سے میرا انتخاب ہوا اور میں نے 18 مئی 1962 کو ریڈیو پاکستان لاہور میں اپنی ڈیوٹی سنبھال لی۔ یہاں ریڈیو میں نیاز حسین شامی کمپوزر تھے جن کی موسیقی میں مہدی حسن نے میر تقی میرؔ کی یہ مشہور غزل گائی تھی: ’پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔‘۔ یہی وہ غزل ہے جس کو لتا منگیشکر نے بھارت میں سن کر کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے“ ۔

یہاں اعظم صاحب نے ایک زبردست انکشاف کیا جس نے مجھے بھی حیران کر دیا کہ ہر ایک گیت میں ایک ’کھرج‘ ہوتا ہے لیکن اس غزل میں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین عدد کھرج ہیں! اس میں تین ’سا‘ ہیں۔

” واقعی اعظم صاحب یہ تو کمال کی بات ہے!“ ۔ میں نے بے ساختہ کہا۔ ”اچھا یہ تو بتائیے کہ سرکاری ملازمتوں میں ترقی کے ساتھ تبادلے بھی ہوتے ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کہاں کہاں گئے“ ۔

” میں ریڈیو پاکستان ملتان میں پروگرام منیجر ہو کر گیا۔ وہاں سے ریڈیو پاکستان اسکردو میں ڈپٹی کنٹرولر ہوا، پھر ریڈیو پاکستان لاہور میں بھی اسی حیثیت سے میری تعیناتی ہوئی۔ اس کے بعد فیصل آباد اسٹیشن 1995 میں اسٹیشن ڈائریکٹر ہو کر گیا“ ۔

اب ماحول 1965 کی جنگ ستمبر کے جنگی نغموں پر بات چیت کا بن گیا۔ ان نغمات کا ذکر ہو اور ان کو پیش کرنے والے پر گفتگو نہ ہو یہ کیسے ممکن تھا! میں تو آیا ہی اس موضوع پر بات کرنے تھا۔ میں نے ان سے پوچھا:

” 1965 کی جنگ میں جنگی نغمے ریکارڈ کر کے نشر کرنے کا خیال کسے آیا اور اس کی شروعات کیسے ہوئیں؟“ ۔

” جب 6 ستمبر کو بھارت نے حملہ کیا تو اس وقت ریڈیو پاکستان لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ تھے۔ 8 ستمبر کو میڈم کا فون آیا کہ میں ریڈیو اسٹیشن آ کر کچھ ترانے ریکارڈ کروانا چاہتی ہوں۔ بٹ صاحب نے خیال کیا کہ ایک تو جنگ ہے اوپر سے نہ جانے کون تنگ کر رہا ہے اور فون بند کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر مشہور کمپوزر حسن لطیف کا فون آیا جن کے یہ لازوال گانے ہیں : فلم ’سوال‘ ( 1962 ) میں میڈم کی آواز میں منیرؔ نیازی کا گیت ’جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا۔‘ اور مہدی حسن کی آ ٓواز میں منیرؔ نیازی کی غزل ’کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جا تے ہیں۔‘ ۔ بہرحال انہوں نے کہا : ’بٹ صاحب میں حسن لطیف بول رہا ہوں اور میڈم کے پاس بیٹھا ہوں۔ وہ ریڈیو اسٹیشن آنا چاہتی ہیں‘ ۔ بٹ صاحب نے کہا ضرور۔ میں معافی چاہتا ہوں! ان سے کہو آ جائیں ”۔

”اس وقت لاہور مرکز میں 20۔ 25 پروڈیوسر تھے۔ اللہ کا کرم تھا کہ بٹ صاحب نے کہا کہ اعظم صاحب کو بلائیں۔ اتنی بڑی آرٹسٹ آ رہی ہے جن سے وہی کام لے سکتا ہے۔ تو آدھے گھنٹے کے بعد وہ تشریف لے آئیں۔ ریڈیو پاکستان لاہو ر کے گیٹ پر میں نے ان کا استقبال کیا اور بٹ صاحب کے دفتر لے کر گیا۔ ان کو چائے پلائی۔ اتفاق سے وہاں صوفی تبسم ؔ، ناصرؔ کاظمی اور ایوب روماؔنی بیٹھے ہوئے تھے۔ بٹ صاحب نے مجھ سے کہا : ’چونکہ میڈم نورجہاں یہاں آ چکی ہیں لہٰذا آج کا دن ضائع نہیں جانا چاہیے۔ اعظم تم کوئی ترانہ ریکارڈ کرو‘ ۔ میں نے کہا کہ میرے پاس اس وقت تو کوئی ترانہ موجود نہیں البتہ ڈاک سے کافی آئے ہوئے ہیں مگر مجھے ان میں سے کوئی بھی پسند نہیں“ ۔

” اس وقت سامنے میرے استاد، صوفی تبسمؔ بیٹھے ہوئے تھے میں نے ان سے کہا : ’صوفی صاحب مہربانی کریں! کچھ لکھ کے دیں۔ اللہ کا بڑا کرم ہوا اور انہوں نے مجھے استھائی لکھ کے دی :

میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
تینوں تک دیاں اج سارے جگ دیاں اکھاں

” اس وقت میرے پاس 20۔ 25 میوزیشن موجود تھے۔ میں نے اپنے ذہن کے مطابق ان میں سے 9 کو منتخب کیا۔ سعد کریم مانڈو، سردار لطیف، صابر وغیرہ کو پابند کر دیا کہ وہ اپنی تمام مصروفیات اور ہونے والے پروگراموں کی صدا بندی موقوف کر کے محض میڈم کے نغمے کے لئے تمام وقت موجود رہیں۔ خود مجھے بھی بٹ صاحب نے کہا کہ مشاعرے اور دوسری مصروفیات ایک طرف رکھ دیں اور صرف میڈم کے ساتھ رہیں۔ اب ہر روز میڈم کا ایک گیت ریکارڈ کیا جائے گا۔ ظاہر ہے اس کی ’الف‘ سے ’ے‘ سب یہاں ریڈیو اسٹیشن ہی میں ہونا تھی“ ۔

” بہرحال وہ پہلا دن تھا۔ ہم اسٹوڈیو میں چلے گئے۔ اتفاق سے اس وقت ’سانوں نہر والے پل تے بلا کے، ساڈی اکھیاں وچ نیندراں اڈا کے، خورے ماہی کتھے رہ گیا‘ ، ’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔‘ اور بہت سے مقبول گانوں کی طرزیں بنانے والے موسیقار بھائیوں کی جوڑی سلیم حسین اور اقبال حسین آئے ہوئے تھے۔ یہ دونوں میرے ذاتی دوست بھی تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میڈم آئی ہوئی ہیں ذرا اس استھائی کی دھن تو بنا دو۔ انہوں نے راگ پہاڑی میں اس کی دھن بنا دی۔

اب یہ تو آپ کو پتا ہی ہے کہ ایک نغمہ میں ایک استھائی اور کم از کم تین انترے تو ضرور ہونے چاہئیں۔ تو میں بھاگا بھاگا صوفی صاحب کے پاس آیا کہ اب انترے بھی لکھ دیں۔ تو انہوں نے بے ساختہ کہا: ’پتر! میرے اندر کوئی مشین لگی ہوئی ہے؟ اوپر سے اترے گا تو میں لکھوں گا۔ جاؤ میرے لئے چائے اور سگریٹ بھیجو‘ ۔ اس سب انتظام کروانے کے دو گھنٹے بعد مجھے پیغام آیا : ’آؤ انترا آ گیا ہے‘ ۔ اب سلیم صاحب نے اس انترے کی بھی کمپوزیشن کر لی۔

اب صوفی صاحب کو نغمہ پورا کرنے کے لئے دو انترے اور لکھنا تھے۔ دو گھنٹے کے بعد ایک انترا آیا۔ اس کے ایک گھنٹے بعد ایک اور۔ اس طرح وقت اور محنت لگا کر تقریباً پورے دن میں ایک نغمہ لکھا گیا اور کمپوز ہوا۔ پھر صدا بندی کے لئے تیار ہوا۔ موسیقی میرا شوق اور سبجکٹ تھا۔ پھر میں خود بھی کسی زمانے میں ریڈیو پر پروگرام کرتا تھا۔ بہرحال میں نے ریکارڈنگ کے لئے خود آڈیو بیلنسنگ کروائی۔ یہ نغمہ ریکارڈ کیا۔ مجھے بٹ صاحب کی طرف سے یہ ہدایات تھیں کہ جب گیت تیار ہو جائے تو یاسمین طاہر سے اس نغمے کا اعلان کروا کے چلوائیں“ ۔

” وہ نغمہ جب چلا تو اس کو بہت پذیرائی ملی۔ ہمیں بہت سے ٹیلی فون آئے۔ دوسرے دن ہم نے ریڈیو اسٹیشن پر ایک چھوٹی سی میٹنگ کی تو اللہ بخشے ایوب روماؔنی کو، وہ میرے افسر بھی تھے، کہنے لگے : ’یار اعظم! تم نے سپاہیوں کا گیت چلوایا۔ ان کے پیچھے منصوبہ سازی تو کرنیلوں اور جرنیلوں کی ہوتی ہے لہٰذا ان کے لئے بھی کوئی نغمہ ہونا چاہیے!‘ ۔ میں نے پھر صوفی صاحب سے درخواست کی۔ اس پر انہوں نے یہ نغمہ لکھا: ’ میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی‘ اس کی دھن میڈم نے خود بنائی۔

تالیاں بجاتی جاتی تھیں ساتھ گاتی جاتی تھیں۔ اس طرح بہت اچھی دھن بن گئی۔ وہ گیت ریکارڈ ہوا۔ تیسرے دن جب ہمیں یہ اطلاعات موصول ہونا شروع ہوئیں کہ ہمارے کچھ فوجی زخمی ہو کر کمبائینڈ ملٹری ہاسپٹل ( سی ایم ایچ ) میں آ رہے ہیں تو میں نے صوفی صاحب سے کہا : ’صوفی صاحب! ہمارے جوان اور افسر شہید ہو رہے ہیں اس پر بھی کوئی ملی نغمہ لکھیں‘ ۔ تو جناب! اس پر انہوں نے ایسا نغمہ لکھ کر دیا جس نے پوری قوم کو گرما کے رکھ دیا :

اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
کی لبنی اے وچ بازار کڑے
” اس پراثر نغمہ کی کمپوزیشن میں نے کی“ ۔
” ارے! ! بہت خوب اعظم صاحب“ ۔ فرط جذبات میں میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

” اس نغمے کو میں نے ’بھیرویں‘ میں کمپوز کیا تھا۔ ڈھائی تین گھنٹوں میں یہ گیت ریکارڈ ہو گیا۔ یقین کریں کہ ریکارڈنگ کے بعد میں رو رہا تھا۔ میڈم، میوزیشن اور وہاں موجود دیگر اسٹاف اور صوفی صاحب بھی رو رہے تھے۔ ایک عجیب ماحول بن گیا تھا۔ اسی طرح پھر آگے ’رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔‘ یہ تنویرؔ نقوی نے محاذ جنگ پر خود جا کر لکھا تھا۔ جو میڈم کی بڑی بہن عیدن کے میاں تھے“ ۔

” اس وقت مجھ پر اللہ کا بڑا کرم تھا۔ دھنوں کی آمد بھی ہوتی تھی۔ مجھے میڈم نورجہاں کہتی تھیں کہ میں اور یہ میوزیشن تھک جاتے ہیں لیکن آپ نہیں تھکتے؟ میں نے کہا قوم پر ایسا وقت آن پڑا ہے اور میری ذمہ داریاں کہیں زیادہ بڑھ گئیں ہیں اب تو تھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ تعاون کریں کیوں کہ میں نے تو رواذانہ ایک نغمہ کرنا ہے! میرے پاس اس وقت ریڈیو کی ایک جیپ تھی۔ میں روز ان کے گھر لبرٹی جاتا، گھر سے تیار کروا کر ان کو لے کر آتا اور واپس رات کو چھوڑ کے آتا تھا۔

کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کام میں بہت دیر ہو گئی تو میں براڈکاسٹنگ ہاؤس ہی میں بیسمنٹ میں سو جاتا۔ وہاں بھنے ہوئے چنے اور گڑ رکھا ہوتا تھا اسی سے گزارا ہوتا۔ پھر صبح گھر جا کر تیار ہو کر آتا۔ گھر والوں کو میں نے سیالکوٹ اپنے سسرالی عزیزوں میں بھیج دیا تھا۔ کیوں کہ میرے گھر میں آنے جانے کے تو اب کوئی اوقات مقرر ہی نہیں ہو سکتے تھے“ ۔

” ایک دن میرے پاس کوئی نغمہ نہیں تھا۔ مجھے علامہ اقبال رحمۃ اللہ کی نظم یاد آ گئی:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں، کردار میں اللہ کی برہان
” اس کو کس نے کمپوز کیا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” یہ میری اور میڈم نورجہا ں کی مشترکہ کمپوزیشن ہے۔ استھائی انہوں نے بنائی اور انترے میں نے۔ میڈم بہت بڑی فنکارہ تھیں اور کمپوزیشن کو بہت سمجھتی تھیں۔ تو اس وقت میڈم کے تمام گانوں کی کمپوزیشن میری اور میڈم کی مشترکہ ہوتی تھی“ ۔

” جنگ ستمبر میں میڈم کے پانچویں نغمے :
یہ ہواؤں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی
میرے سر بکف مجاہد میرے صف شکن سپاہی

” کا پس منظر بھی دلچسپ ہے : اس جنگ کے دوران پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح ایک تھی۔ افواج پاکستان ملک کی حفاظت کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار تھیں۔ ایک طرف ریڈیو پاکستان ثقافتی ابلاغ کے محاذ پر مصروف تھا تو دوسری طرف مسلح افواج کے تینوں شعبے : ہوائی، بری اور بحری تمام محاذوں پر کامیابی سے مصروف بہ عمل تھے۔ ہمیں ان کی بہادری کی برابر اطلاعات مل رہی تھیں۔ ان واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایسا نغمہ ریکارڈ کیا جائے جس میں تینوں پاکستانی افواج کا ذکر ہو۔

جس سے پاکستانی فوج کا حوصلہ بلند ہو! میڈم نورجہاں نے مجھے ایک دھن گنگنا کر سنائی جو انہوں نے کہیں کسی بیرونی ملک میں سنی تھی۔ یہ دھن انہیں بہت پسند تھی۔ میں نے اور میڈم نے وہ دھن صوفی صاحب کو دو تین مرتبہ گنگنا کر سنائی۔ پھر ان سے گزارش کی اس دھن پر پاکستان کی تینوں افواج پر مبنی نغمہ لکھ کر دیں۔ صوفی صاحب نے کمال مہارت سے استھائی کا پہلا مصرع لکھ کر دیا : ’یہ ہواؤں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی۔‘ ۔ میڈم اس مصرعے کو سن کر بہت خوش ہوئیں کہ یہ میری دھن پر کیسا فٹ بیٹھا! یہ نغمہ بھی ایک ہی دن میں لکھا اور کمپوز ہو کر ریکارڈ ہوا“ ۔

” اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے احاطے میں ہوائی حملے سے بچاؤ کے لئے خندق کھدی ہوئی تھی۔ جب خطرے کا سائرن بجتا سب اس میں چلے جاتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پر ایک طیارہ شکن توپ بھی نصب تھی۔ ایک دن خطرے کا سائرن ہوا۔ میں نے کہا :

” میڈم خندق میں چلیں کہیں ہوائی حملہ نہ ہو جائے“ ۔
” مریں گے تو یہیں مریں گے۔ کام چھوڑ کر نہیں جا سکتے!“ ۔ میڈم نے جواب دیا۔

” اسی دوران ان کی بیٹی ظل ہما کا فون آیا کہ جلدی گھر آ جائیں۔ ہر طرف ہوائی حملے کے سائرن بج رہے ہیں۔ میڈم نے اپنی بیٹی سے بھی یہی کہا کہ وہ کام چھوڑ کر نہیں آ سکتیں“ ۔

” آپ دیکھیں یہ کتنی بڑی فنکارہ تھیں! اور پھر انہوں نے یہ تمام نغمات بلا معاوضہ گائے“ ۔

” میڈم میری بہت زیادہ عزت کرتی تھیں۔ جب میں ان کے گھر جاتا تو وہ ننگے پاؤں باہر آ تیں۔ میں کہتا کہ میڈم آپ ایسا نہ کریں! تو کہتیں تمہیں کیا پتا یہاں کون آیا ہے! ان کے گیٹ پر پہرہ تھا۔ باہر ضرورت مند خواتین اکثر اوقات امداد کے لئے بیٹھی ہوتی تھیں۔ میڈم انہیں کچھ نہ کچھ دے کر گھر سے نکلتی تھیں۔ گیٹ پر سخت تاکید تھی کہ جوں ہی اعظم صاحب آئیں فوراً مجھے اطلاع دی جائے کیوں کہ میں نہیں چاہتی کہ اعظم صاحب باہر ایک سیکنڈ بھی انتظار کریں۔ میری اتنی عزت کرتی تھیں! کہتی تھیں کہ اعظم صاحب! آپ ان تھک انسان ہیں“ ۔

” اس وقت آپ کی کیا عمر تھی؟“ ۔
” اس وقت میری عمر 27 سال تھی“ ۔ اعظم صاحب نے جواب دیا۔
” اعظم صاحب! 1965 کی جنگی نغموں کے حوالے سے گلوکار سلیم رضا کے بارے میں کچھ بتائیے“ ۔

” سلیم رضا اور منیر حسین کا ایک گروپ بنا تھا اور انہوں نے بھی جنگی نغمے گائے۔ لیکن میڈم نورجہاں کے بڑے کاموں کے سامنے ان کا کام کچھ دب گیا۔ بہرحال انہوں نے بھی بہت ہی اچھا گایا تھا۔ جیسے : ’یہ معرکہ ء کھیم کرن، کھیم کرن ہے۔‘ اور بہت سے دوسرے“ ۔

” ایسے دباؤمیں ملی نغموں کی تیاری اور ریکارڈنگ میں ریڈیو کے میوزیشن کا تعاون کیسا رہا؟“ ۔

” ان دنوں اللہ کا کچھ ایسا کرم تھا کہ تمام میوز یشن ضرورت کے وقت موجود ہوتے تھے۔ ورنہ آپ کو تو پتا ہی ہے کہ عام دنوں میں عین وقت پر کوئی نہ کوئی اہم میوزیشن چائے پینے، پان کھانے چلا جاتا ہے۔ یہی بات ہماری اور کسی بھی گلوکار کے لئے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ لیکن ان دنوں میوزیشن کی جانب سے ہمیں بھر پور تعاون حاصل تھا۔ وہ میرے پاس بیٹھے رہتے تھے اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے جو ریکارڈنگ میں تاخیر کا باعث ہو۔ وہ ویسے بھی، بہ حیثیت میوزک پروڈیوسر میری بہت عزت کرتے تھے۔ میں خود بھی میوزشنوں کو پیار کرتا تھا۔ جب تک گانا ریکارڈ نہیں ہو جاتا ہم سب اکٹھے بیٹھ کر کام کرتے۔ اس کے بعد میں ریڈیو کی جیپ پر میڈم کو چھوڑنے چلا جاتا“ ۔

” سنا ہے کہ جنگ کے دوران ایک نغمہ ’او تیرے باجرے دی راکھی۔‘ میڈم کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا۔ بظاہر اس کا جنگی نغموں سے کوئی تعلق نہیں بنتا، تو اس گیت کو اس خصوصی موقع پر ریکارڈ کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی؟“ ۔

میرا یہ سوال سن کر اعظم صاحب مسکرائے اور کہنے لگے :

” ٹھیک ہے اس گیت کا بظاہر جنگی نغموں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہوا یوں کہ جب لاہور شہر کے اوپر ہمارے مایہ ناز ہوا باز سسل چوہدری کی ٹیم اور بھارتی ہوائی فوج کے جہازوں کی مشہور زمانہ ’ڈاگ فائٹ‘ ہوئی۔ آگے آگے بھارتی فضائیہ اور ان کے پیچھے ہمارے طیارے تھے۔ لاہوریوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر اسے دیکھا اور تالیاں پیٹنا، سیٹیاں بجانا شروع کر دیں۔ اسی وقت سے اہل لاہور کا لقب“ زندہ دلان لاہور ”ہو گیا۔

اس واقعے نے ہم سب کو بھی بہت متاثر کیا تھا۔ اتفاق سے ایک دن ہمارے پاس کوئی گانا تیار نہیں تھا۔ اس وقت میڈم اور میں نے باہم مشورے سے لوک گیت : ’او تیرے باجرے دی راکھی۔‘ منتخب کیا۔ اتفاق سے اس وقت ان کے شوہر، اداکار اعجاز بھی موجود تھے۔ وہ پہلے تو ہمارے اس انتخاب پر حیران ہوئے پھر اس گیت میں جب یہ مصرع آیا : ’جے میں سیٹی مار اڈاواں میری سرخی لیندی وے‘ تو وہ کہنے لگے کہ بھلا یہ کیابات ہوئی؟ ادھر جنگ ہو رہی ہے ادھر یہ ہونٹوں کی سرخی اترنے کی بات ہو رہی ہے۔ اس پر میڈم نے کہا کہ مجھے تو یہ گانا اچھا لگا ہے“ ۔

بات یہ ہے کہ کہنے کو یہ ایک لوک گیت ہے مگر اس گیت کا تاثر بہت ہمہ گیر ہے۔ اس گیت میں گاؤں ( پاکستان ) کی مٹیارن ( عوام ) انتہائی ’مان‘ کے ساتھ اور مکمل بھروسے، اعتماد اور محبت کے ساتھ ا پنے ’ماہیا‘ ( پاک فوج ) سے مخاطب ہے کہ بھئی وہ تو باجرے ( لاہور ) کی راکھی نہیں بنتی اور پھر پورے ناز نخرے کے ساتھ انکار کی وجوہات بتا کر گویا یہ کہہ رہی ہے کہ ماہیا ( پاک فوج ) ان کوؤں چڑیوں ( بھارتی فضائیہ ) کو خود ہی مار بھگائے!

” اعظم صاحب! ہم نے سنا ہے کہ علامہ اقبال رحمۃا اللہ کے شکوہ اور جواب شکوہ کا عربی ترجمہ مصر کی نامور مغنیہ ام کلثوم کی آواز میں ریڈیو پاکستان آیا تھا اس کی کیا کہانی ہے“ ؟

” جی ہاں! نہ صرف ام کلثوم کی آواز میں شکوہ اور جواب شکوہ کی ٹیپ آئی تھی بلکہ یہ احکامات بھی آئے تھے کہ ایک شعر عربی اور دوسرا میڈم نورجہاں کی آواز میں اردو زبان میں ’مکس‘ کر کے نشر کیا جائے۔ میں نے وہ ٹیپ میڈم کو سنوائی۔ انہوں نے سن کر کہا کہ یہ سر اونچا ہے۔ میں نے کہا کہ میڈم میں نے اس میں آپ کی آواز ملانی ہے۔ پہلے ا س کی آواز پھر اس میں سے نکلتی ہوئی آپ کی آواز! لہٰذا سر ایک ہونا چاہیے۔ کچھ رد و کد کے بعد بالآخر وہ تیار ہو گئیں۔

تین راتیں لگ کے میں نے اس کی ریکارڈنگ کی۔ بڑی محنت کی۔ اللہ کا ایسا کرم تھا کہ اتنی بڑی آرٹسٹ کو میں ٹوک دیتا اور وہ بالکل برا نہیں مناتی تھیں۔ جب کہ نورجہاں کو ٹوکنا تو دور کی بات کچھ کہنا بھی بہت مشکل ہوتا تھا۔ کئی جگہوں پر میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک نہیں ہے۔ دوبارہ گائیں۔ وہ دوبارہ گاتیں۔ میں ٹیپ پر نشان لگا دیتا تھا۔ میں اللہ کے فضل سے ایڈیٹنگ میں خوب ماہر تھا، مجھے ایڈیٹنگ کا شوق بھی تھا۔ اس ریکارڈنگ کی ایڈیٹنگ میں نے خود کی۔ اس طرح میڈم کا شکوہ اور جواب شکوہ میں نے مکمل کیا۔ اس کے چیف پروڈیوسر سلیم گیلانی تھے اور میں نے ان کی معاونت کی تھی“ ۔

میڈم کے ذکر کے دوران انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ ہمیشہ جوتے اتار کر اور کرسی پکڑ کر گاتی تھیں۔
” کیا وہ فلم اسٹوڈیوز میں بھی جوتے اتار کر ریکارڈنگ کرتی تھیں؟“ ۔ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
” کوئی بھی ریکارڈنگ ہو، وہ جوتے اتار کر گاتی تھیں!“ ۔
” ریڈیو میں بھی؟“ ۔
” جی ہاں! ریڈیو میں بھی“ ۔

” کمال ہے!“ ۔ میں نے کہا۔ ”اعظم صاحب! گفتگو کے آغاز میں موسیقار نیاز حسین شامی کا ذکر ہوا تھا ذرا ان کے مزید کاموں پر روشنی ڈالیے ؟“

” شامی صاحب نے اور بھی بہت سا کام کیا۔ فیض احمد فیضؔ کی غزلیں جو فریدہ خانم گاتی ہے۔ جیسے : ’شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی، دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی‘ ۔ فریدہ خانم شامی صاحب کو اپنا استاد مانتی تھی۔ شامی صاحب اصل میں ’دھرپت‘ گاتے تھے۔ ریڈیو سے ہر ہفتہ دھرپت کا پروگرام بھی ہوتا تھا جو میری ذمہ داری تھی۔ وہ میری بڑی عزت کرتے تھے“ ۔

” ملکہ ء موسیقی روشن آرا بیگم بھی تو دھرپد کی ماہر تھیں۔ کیا وہ بھی آپ کے پروگرام میں آتی تھیں؟“ ۔

” جی ہاں! وہ بھی میری آرٹسٹ تھیں اور میرے پروگراموں میں شرکت کرتی رہتی تھیں۔ ان کی جتنی بھی ریکارڈنگ ہیں سب میری ہی کی ہوئی ہیں۔ ان کے لئے مجھے خاص احکامات تھے کہ ان کو لینے کے لئے گھر پر گاڑی بھیجی جائے۔ خود تو لالہ موسیٰ میں رہتی تھیں۔ لاہور میں ان کی بیٹی ڈاکٹر قمر رہتی تھی وہ ان کے ہاں ٹھہرتی تھیں۔ میں صبح ان کو لینے کے لئے ڈرائیور بھیجتا۔ وہ ان کو لے کر بھی آتا اور چھوڑ کر بھی۔ ملکہ موسیقی کے خاوند پولیس میں ڈی ایس پی تھے۔ وہ بہت اچھی خاتون تھیں۔ گاتے ہوئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں! گانے کے دوران بالکل حرکت نہیں کرتی تھیں۔ گاتے ہوئے منہ بھی نہیں بناتی تھیں۔ بلکہ ایسا لگتا جیسے ہنس رہی ہوں“ ۔

” ملکہ ء موسیقی کے علاوہ استاد نزاکت اور سلامت، امانت علی فتح علی کو بہت ریکارڈ کیا۔ امانت علی خان نے پہلی مرتبہ غزل بھی میرے پروگرام میں رکارڈ کروائی“ ۔

یہ کام کس طرح ممکن ہوا؟ اس کی بھی دلچسپ اور چونکا دینے والی کہانی اعظم صاحب نے سنائی :
” امانت علی کی ریکارڈ ہونے والی پہلی غزل، حیدر علی آتشؔ کی تھی:
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے

” میں ایک پروگرام ’سفینہ ء غزل‘ کرتا تھا۔ جس میں مختلف شعراء کی غزلیں سنوائی جاتی تھیں۔ اس کا اسکرپٹ ناصرؔ کاظمی (م ) لکھتے اور خود کنڈکٹ کرتے۔ ان کی آوا ز بہت اچھی تھی۔ میرے اس پروگرام میں مہدی حسن، فریدہ خانم اور غلام علی بھی حصہ لے چکے تھے۔ ایک دن ناصرؔ کاظمی کہنے لگے کہ میں تمہیں بڑا پروڈیوسر تب مانوں گا جب تم کلاسیکل گائیک امانت علی خان سے غزل گواؤ! اگلے ہی روز امانت علی خان میرے پاس آئے تو میں نے فرمائش ان کے آگے رکھی۔ فوراً کہنے لگے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ مجھے ’بڈا‘ مارے گا۔ گھر میں فتح علی خان کو بڈا کہتے تھے۔ ان کے والد اختر حسین سے بات ہوئی تو انہوں نے بھی یہ ہی کہا کہ ہم تو کلاسیکل لوگ ہیں ہم غیر کلاسیکی گانے نہیں گاتے۔ میں نے بھی دل میں ٹھان لیا کہ پیچھے ہٹنے والا تو میں بھی نہیں!“ ۔

” وہ گرمیوں کے دن تھے۔ امانت علی میرے دفتر میں آئے اور کہنے لگے کہ بڑی پیاس لگی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آئیں میں آپ کو ’ستو‘ پلاتا ہوں۔ ان دنوں میرے پاس اسکوٹر تھا۔ میں ان کو ’بھاٹی‘ لے گیا۔ ان کا بہت اچھا موڈ تھا۔ میں نے طریقہ ء واردات یہ کیا کہ خاں صاحب کو وہ غزل جیب سے نکال کر دکھائی اور کہا کہ میں نے استھائی کی دھن تو بنا لی ہے لیکن اس کا انترا مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔ حالاں کہ وہ بھی میں نے بنایا ہوا تھا۔

کہنے لگے آؤ اسٹوڈیو میں چلتے ہیں۔ اسٹوڈیو آ کر ہارمونیم پکڑ لیا۔ میں نے انہیں استھائی سنائی۔ کہنے لگے کہ بہت اچھی بنی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ خان صاحب! آپ اس کے انترے بنائیں۔ انہوں نے انترے بنائے تو پوری غزل تیار ہو گئی۔ اسٹوڈیو میں اس وقت عنایتی خان، سردار لطیف، طالب حسین ( میوزیشن ) وغیرہ موجود تھے۔ ان سب کو اکٹھا کر لیا۔ میں نے پہلے ہی انتظام کیا ہوا تھا۔ امانت علی جب غزل کی دھن بنا رہے تھے تو اس وقت ٹیپ ریکارڈر آن ہو چکا تھا۔ اب غزل بنتے بنتے سب کارروائی ریکارڈ ہو گئی“ ۔

” کمال ہی ہو گیا! گویا انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ چوری چھپے صدا بندی کی جا رہی ہے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” ہاں نا! انہیں بالکل نہیں پتا لگا کہ چوری چوری یہ غزل ریکارڈ کر لی گئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس غزل کو باقاعدہ غزل بنانے میں مجھے محنت کرنا پڑی۔ لیکن چوں کہ ایڈیٹنگ میرا شوق بھی تھا اس لئے انتہائی کاوش کے بعد غزل تیار ہو گئی پھر جب وہ بدھ کے روز میرے پروگرام ’سفینہ ء غزل‘ میں نشر ہوئی تو پورے لاہور میں دھوم مچ گئی۔ اعجاز بٹالوی، کوثر نیازی وغیرہ ریڈیو پر آ کر پوچھنے لگے کہ سنا ہے کہ امانت علی نے غزل گائی! اسٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ صاحب کہنے لگے کہ جاؤ وہ ٹیپ لاؤ اور ان کو سناؤ! ۔ پھر وہ ٹیپ ان لوگوں کو سنوائی گئی“ ۔

” اب آپ دیکھ لیں! اگر امانت علی وہ غزل نہ گاتے تو پھر حامد علی خان بھی نہ گاتا۔ بلکہ کوئی بھی نہ گاتا“ ۔

” بے شک! اس رجحان کا آ غاز تو پھر آپ نے کیا! یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ امانت علی لائٹ میوزک کی طرف بھی راغب ہو گئے۔ اس کا سہرا، اعظم صاحب آپ کے سر ہی جاتا ہے“ ۔ میں نے کہا۔

جواب میں انہوں نے انکساری سے سر جھکا لیا۔
” کیا آپ کچھ نغموں کا ذکر کریں گے جو کسی نامور گلوکار کی آواز میں آپ نے ریڈیو سے پیش کیے ؟“ ۔

” جی ہاں میں نے اپنے استاد، صوفیؔ غلام مصطفے ٰ تبسم کی لکھی ہوئی اس غزل کی حسن لطیف سے دھن بنا کرفریدہ خانم کی آواز میں پیش کی:

وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ ا اللھ
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ ا اللھ
” اور پرویز مہدی کی آواز میں ایوب خاورؔ کا گیت :
سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام
ہر سر میں ہے رنگ دھنک کا تیرے نام
” ایو ب خاور ؔ کو پہچان اور شناخت اسی گیت سے ملی۔ وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں“ ۔
” پھر صابرظفر کی یہ غزل :
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگر چہ بولتا کوئی نہیں ہے

” یہ غزل غلام علی نے گائی اور ان ہی کی کمپوزیشن بھی تھی۔ غلام علی سے یاد آیا کہ صوفی تبسمؔ نے غالبؔ کے فارسی کلام کا پنجابی میں ترجمہ کیا اور مجھے دیا کہ اس کو ریکارڈ کرو۔ میرے ذہن میں غلام علی کا نام آیا۔ وہ اچھا آرٹسٹ اور میرا دوست بھی تھا۔ میں نے رابطہ کیا تو علم ہوا کہ اسے تو بخار ہے۔ میں نے 15 دن اس کے ٹھیک ہونے کا انتظار کیا۔ مجھے صوفیؔ صاحب کہنے لگے کہ وہ گانا ابھی تک کیوں نہیں ریکارڈ کیا؟ میں نے کہا کہ غلام علی بیمار ہے۔ کہنے لگے کسی اور سے کروا لو۔ میں نے مودبانہ کہا کہ کرانا ہی غلام علی سے ہے! 15 دن انتظار کے بعد جب غلام علی نے آ کے گانا گایا تو وہ سپر ہٹ ہو گیا۔ یہ ہی وہ پہلا گانا ہے جس سے غلام علی کا نام ہوا : ’میرے شوق دا نہیں اعتبار تینوں آ ویکھ میرا انتظار آ جا۔‘ “ ۔

” اعظم صاحب! یہ بات کہاں تک درست ہے کہ جب غلام علی ر یڈیو میں آڈیشن دینے گئے تو انہیں فیل کر دیا گیا تھا؟“ ۔

” یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ بلقیس خانم اور غلام علی نے ایک ساتھ آڈیشن دیا تھا۔ اللہ بخشے شاد امرتسری کو، وہ ہمارے شعبہ پروگرام کے افسر تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ دیکھو یہ لڑکا کتنا اچھا گاتا ہے۔ اور پھر بلقیس خانم اور غلام علی دونوں کو پاس کر دیا“ ۔

” غلام علی، استاد برکت علی کے شاگرد تھے۔ یہ سعادت بھی مجھے حاصل ہے کہ استاد برکت علی کے آخری دنوں کا پروگرام میں نے کیا۔ استاد صاحب ٹانگے پر آ تے تھے۔ آنکھوں پر پٹی ہوتی کیوں کہ انہوں نے موتیے کا آپریشن کروایا تھا۔ ان دنوں ہمارے پروگرام براہ راست ( لائیو ) ہوتے تھے۔ ایک سوا پانچ بجے، ایک سوا سات بجے ایک نو بجے۔ انہوں نے دو آئٹم کیے تھے تو مجھے ایسے لگا کہ خاں صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ میں اس وقت ڈیوٹی افسر تھا۔ میں نے کہا کہ آپ کا چیک تیار ہے وہ لے کر گھر تشریف لے جائیں کیوں کہ آپ ٹھیک نہیں لگ رہے۔ کہنے لگے :

” پتر! مجھے لوگوں نے سننا ہے۔ میں تو گا کر ہی جاؤں گا!“

” دیکھ لیں کہ یہ کتنے بڑے لوگ تھے! ورنہ چیک تو میں نے پہلے ہی انہیں دے دیا تھا۔ بہر حال میں نے ان کے آخری آئٹم کے بعد انہیں ٹانگہ منگوا دیا اور وہ گھر چلے گئے۔ پھر کچھ ہی عرصہ بعد ان کے انتقال کی خبر آ گئی“ ۔

” اب کچھ گلوکارہ ریشماں کے بارے میں بتائیے کہ وہ ریڈیو پر کیسے متعارف ہوئیں؟“ ۔

” سندھ میں سہون کے مقام پر سالانہ میلہ ہوتا ہے۔ اس وقت سلیم گیلانی جو پروگرام ڈائریکٹر تھے، وہ ایک ٹیم لے کر اس میلے کی خاص خاص چیزیں ریکارڈ کرنے گئے ہوئے تھے۔ وہاں ریشماں گا رہی تھی۔ گیلانی صاحب نے سن کر کہا کہ دیکھو یہ کتنا اچھا گا رہی ہے۔ انہوں نے ریشماں سے کہا کہ یہ میرا کارڈ ہے تم ریڈیو پر آ جانا۔ اس نے معصومیت سے کہا کہ مجھے تو وہاں کوئی آنے نہیں دے گا۔ گیلانی صاحب نے کہا کہ میرا نام لینا کہ سلیم گیلانی نے بلایا ہے۔ بہرحال ان کی آواز میں انہوں نے ایک دو گانے ریکارڈ کیے ۔ پھر ریشماں کہنے لگی کہ میں تو لاہور میں رہتی ہوں۔ پھر وہ لاہور آئی۔ یہاں ریشماں کا جتنا بھی کام ہوا وہ میں نے کیا“ ۔

” پھر جب ملتان میں ریڈیو اسٹیشن کھلا تو لاہور سے شمس الدین بٹ وہاں اسٹیشن ڈائریکٹر ہو کر گئے۔ انہوں نے کہا کہ محمد اعظم خان میرا پسندیدہ پروڈیوسر ہے لہٰذا مجھے وہ اس اسٹیشن پر چاہیے۔ اب جب میں اپنے تبادلے کی تیاری میں تھا تو لاہور ریڈیو میں میرے پاس ریشماں آ گئی۔ میں نے جب اپنے تبادلے کا بتایا تو وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگی۔ کہنے لگی کہ آپ کے بعد تو یہاں کسی نے مجھے پوچھنا ہی نہیں۔ میں نے کہا کہ تم میرے پاس ملتان آؤ میں تمہیں پروگرام دوں گا۔ آپ دیکھیں وہ کتنی سچی فنکارہ تھی اور اپنے محسوسات زبان پر لے آئی کہ آپ کے بعد کسی نے مجھے وہ عزت نہیں دینی جو آپ دے رہے ہیں۔ میں نے ریشماں کے بڑے گانے کیے“ ۔

” اسی طرح نیرہ نور بھی ہے۔ ہمارا ایک پروگرام ’ریڈیو میوزک اسکول‘ کے نام سے ہوتا تھا۔ اس میں جے ا ے فاروق میوزک ٹیچر تھے۔ وہ واپڈا میں اکاؤنٹنٹ تھے لیکن میوزک تھیوری جانتے تھے۔ یہ پروگرام ہر بدھ کو نشر ہوتا تھا۔ اس میں نیرہ نور، پرویز مہدی، عبدالستار تاری، عالم ستار والا اور کئی دوسرے تھے۔ یہ موسیقی کے طلباء تھے۔ ہم ان کو ریکارڈ کرتے تھے۔ نیرہ پانچ چھ سال میری ریڈیو کلاسوں میں باقاعدگی سے آئی۔ بہت ہی دبلی پتلی سی تھی۔ میں اس سے کہا کرتا کہ ابھی ہوا آئی تو تم گر جاؤ گی“ ۔

” جب نیرہ نور کا گولڈن جوبلی فلم ’گھرانا‘ ( 1973 ) میں ایم اشرف کی موسیقی میں کلیم ؔ عثمانی کا گیت: ’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں بچھا دوں۔‘ مقبول ہوا تو وہ خوشی خوشی میرے پاس آئی کہ اس ریڈیو میوزک اسکول اور آپ کی مہربانی سے میرا یہ فلمی گانا ہٹ ہو گیا“ ۔

” اسی طرح پرویز مہدی، غلام علی، بلقیس خانم اور ثریا خانم کو بھی میں نے ہی متعارف کروایا تھا“ ۔

” اعظم صاحب! ہم نے سنا تھا کہ جنگ ستمبر میں میڈم، ان کے جنگی نغمہ نگاروں، میوزشنوں وغیرہ کو صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی دیا گیا۔ لیکن مجھے تو آج پتا چلا کہ ان تمام لوگوں کے پیچھے آپ تھے تو کیا آپ کو بھی یہ تمغہ ملا؟“ ۔

” نہیں!“ ۔ اعظم صاحب کی یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا۔ اتنے لوگوں سے اکیلے کام لینے والا انسان اور کسی شمار میں ہی نہیں؟ میں رہ نہ سکا، پوچھ بیٹھا: ”وہ کیوں؟“ ۔

” میں اس سلسلے میں خود کیا کہہ سکتا ہوں! میرا بھی کیس اس سلسلے میں گیا تھا۔ میری بھی جنگ ستمبر 1965 میں خدمات ہیں۔ ان نغمات کے پیچھے کام کرنے والا میں ہی تو تھا۔ دوران جنگ ثقافتی محاذ پرجس طرح میں نے کام کیا کسی نے بھی نہیں کیا۔ ستمبر 65 کے گیارہ دن اور راتیں میں نے ریڈیو پاکستان لاہور میں گزاریں۔ نہ کھانے کا ہوش، نہ آرام کا خیال۔ بھوک لگی تو دفتر میں بھنے چنے رکھے تھے، وہ پھانک لئے۔ رات کو نیند کا جھونکا آیا تو کرسی یا صوفے پر ہی کمر ٹکا لی۔ گیت نگار سے ترانہ لکھوانا، سازندوں کو جمع رکھنا، میڈم کی ریہرسل کروانا۔ دھن بنانا یا بنوانا۔ ان نغمات کو ریکارڈ کروانے کے بعد تدوین ( ایڈیٹنگ ) کروا کر ریڈیو سے نشر کرنا۔ فی دن ایک ترانہ۔ یہ سب میں اکیلا کرتا تھا“ ۔

” ماشاء اللہ! آج کوئی ہے جو ملازمت کو فرض سمجھ کے کرے! اپنی بھوک نیند قربان کرے!“ ۔ میں نے ستائشی انداز میں کہا۔

اعظم صاحب مسکرائے اور افسردگی سے کہنے لگے :

” خدا جانے اس وقت ریڈیو اور متعلقہ وزارت کے کرتے دھرتے کیسے لوگ تھے جنہوں نے میری نامزدگی روک دی یا رکاوٹیں ڈال دیں۔ پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کا میں بالکل حق دار ہوں“ ۔

” صرف 1965 کے نغمے ہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ جتنا کام میں نے کیا ہے کسی اور نے نہیں کیا۔ میں نے غلام علی کو متعارف کروایا اور اس کے کئی ایک گانے ریکارڈ کئیے جو خاص و عام میں بہت مقبول ہوئے۔ پھر ریشماں کے کئی ہٹ گانے پیش کیے۔ مہدی حسن کا ’رات کا مسافر ہوں میرے راستوں میں تم پھر سے اک سحر رکھ دو۔‘ وہ میری پیشکش ہے۔ پھر فریدہ خانم کی ’وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ۔‘ ۔ آرٹسٹ کے پیچھے پروڈیوسر بولتا ہے۔

میوزک میرا جنون تھا۔ میں پانچ چھ سال پنجاب یونیورسٹی میں میوزک کا ہیڈ ایگزامنر رہا ہوں۔ اس وقت وہاں میوزک پڑھایا جاتا تھا۔ یہ سب موسیقی کی تو خدمات ہیں۔ پھر آپ دیکھیں کتنے لوگوں کو میں نے متعارف کروایا۔ حمیرا ارشد تھی۔ ایک ٹی وی پروگرام میں موسیقار مجاہد حسین نے اس سے میڈم کا گایا ہوا ایک مشہور فلمی گیت ’صدا ہوں اپنے پیار کی۔‘ گوایا۔ میں نے سنا تو کہا کہ اس لڑکی کی تو آواز اچھی ہے۔ میں نے مجاہد حسین سے کہا کہ صبح اس کو لے آنا۔ تو وہ صبح میرے پاس آئی۔ اس کو میں نے پاس کر دیا اور اس کے گانے ریکارڈ کیے ۔ یہ بڑی خوش ہوئی۔ اب بھی کبھی ملتی ہے تو کہتی ہے کہ مجھے صحیح معنوں میں متعارف ہی آپ نے کرایا۔ حمیرا استاد نزاکت علی خان کے عزیزوں میں سے ہے۔ اس کی والد ہ بہت اچھی سوز خواں تھی۔ حمیرا ان کے ساتھ سوز خوانی کے لئے آ تی تھی“ ۔

” قطع کلامی معاف! ابھی آپ نے پنجاب یونیورسٹی کا ذکر کیا۔ تو کیا آپ نے بھی وہاں پڑھایا؟“ ۔

” نہیں! وہاں میں نے پڑھایا نہیں، صرف امتحان لینے جاتا تھا۔ وہاں کا باقاعدہ نصاب تھا۔ وہاں فیروز نظامی کی لکھی ہوئی کتاب پڑھائی جاتی تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے خواجہ خورشید انور اور فیروز نظامی دونوں اپنے وقت کے بہت بڑے ریڈیو پروڈیوسر تھے۔ دونوں نے موسیقی پر کتابیں لکھیں۔ فیروز نظامی تو بہت اچھے کلاسیکل آرٹسٹ تھے۔ میں ہر مہینے باقاعدگی سے فیروز نظامی کو پروگرام دیتا تھا۔ یہ کلاسیکل آئٹم کرتے تھے۔ جتنے اچھے کمپوزر تھے اتنے ہی اچھے کلاسیکل آرٹسٹ بھی تھے“ ۔

” عین عروج کے زمانے میں فیروز نظامی صاحب فلمی دنیا سے کیوں کنارہ کش ہو گئے؟“ ۔

” انڈسٹری ضرور چھوڑی لیکن میوزک کبھی نہیں چھوڑا۔ کیوں کہ فلم انڈسٹری میں وہ بات نہیں رہ گئی تھی جو پہلے تھی۔ اب وہاں گروپ بندیاں شروع ہو گئی تھیں۔ یہ بڑے خود دار قسم کے تھے اور آخر وقت تک اخبارات میں کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ وہ کنارہ کش ہونے کے بعد الحمرا میں موسیقی سکھانے لگے۔ پھر انہوں نے ریڈیو پر بھی کام کیا۔ وہ بہت ہی لائق فائق اور نہایت شریف آدمی تھے۔ جب بھی ریڈیو اسٹیشن آ تے تو میرے کمرے میں ضرور آتے اور کہتے کہ اعظم صاحب چائے منگوائیں۔

چائے کے دوران گپ شپ لگاتے۔ میں نے بھی ان سے سیکھا ہے۔ یہ پڑھے لکھے عالم تھے۔ محمد رفیع بھی فیروز نظامی کے شاگرد تھے۔ یہ اندرو ن لاہور محلہ ’سمیاں‘ میں رہتے تھے۔ اس محلے میں بڑ ی بڑی شخصیات رہتی تھیں۔ ماسٹر عاشق حسین، ماسٹر عنایت حسین، اختر حسین اکھیاں، بخشی وزیر وغیرہ۔ یہیں فیروز نظامی کا گھر تھا۔ یہیں وہ تھڑا تھا جہا ں محمد رفیع بیٹھ کر گانا گاتے تھے۔ بخشی وزیر نے میرے بڑے گانے کیے۔ پھر سلیم حسین اور اقبال حسین دونوں بھائی ( موسیقارسلیم اقبال ) بھی محلہ سمیاں میں رہتے تھے، کمپوزیشن سلیم حسین کرتے اور باقی حساب کتاب، ملنا ملانا اقبال حسین کرتے تھے۔ اقبال صاحب گانے بھی لکھتے تھے۔ فلم ’شیخ چلی‘ ( 1958 ) کے کچھ گانے ان کے لکھے ہوئے ہیں۔ جیسے زبیدہ خانم کی آواز اور سلیم اقبال کی موسیقی میں یہ سپر ہٹ گیت: ’سیو نی میرا دل دھڑکے، دل دھڑکے نالے اکھ پھڑکے۔‘ “ ۔

” ایک متنازعہ سوال کر تا ہوں۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ جب ا ستاد بڑے غلام علی خان آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو پاکستان کراچی ہجرت کر کے آئے توان کے ساتھ ارادتا ناروا سلوک کیا گیا؟“ ۔

” جی ہاں! میں بتاتا ہوں۔ اس وقت بخاری صاحب (ذوالفقار علی بخاری ) ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ بڑے غلام علی خان بہت لاجواب اور درویش آدمی تھے۔ ایک دن انہوں نے پروگرام کیا تو تھوڑی سی اونگھ آ گئی اور وہ اسٹوڈیو ہی میں لیٹ گئے۔ اتفاق سے بخاری صاحب بھی اسٹوڈیو میں آ گئے۔ اور غصے میں کہنے لگے کہ کیا یہ سونے کی جگہ ہے؟“ ۔

” بڑے غلام علی خان نے بخاری صاحب سے دھیمے لہجے میں کہا کہ میری غلطی ہو سکتی ہے کہ مجھے نیند آ گئی اور میں اسٹوڈیو میں سو گیا۔ یہ میرا اپنا اسٹوڈیو ہے میں یہاں پروگرام کرتا ہوں اگر اونگھ آ بھی گئی تو ایسی کون سی قیامت آ گئی کہ یوں بے عزتی کی جائے! اس پر بخاری صاحب مزید گرم ہو گئے کہ یہ سونے کی جگہ نہیں تم نے کیا سمجھ رکھا ہے ریڈیو کو!“ ۔

” بخاری صاحب تو خود فنکار آ دمی تھے۔ کیا ان کو پتا نہیں تھا کہ یہ نامور استاد بڑے غلام علی خان صاحب ہیں؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” بس بد تمیزی کر گئے وہ! خاں صاحب کا بھی سخت رد عمل آیا اور وہ بہت ناراض ہوئے۔ آپ کو تو پتا ہے کہ آرٹسٹ بہت حساس ہوتا ہے۔ انہوں نے جواباً کہا کہ میں تو اب یہاں کوئی پروگرام ہی نہیں کروں گا۔ اس بے عزتی پر ریڈیو پاکستان تو کیا اب پاکستان میں ہی نہیں رہوں گا! اس واقعے کے فوراً بعد وہ بھارت چلے گئے۔ یہ بالکل سچا واقعہ ہے اور مجھے عینی شاہدین نے بتایا تھا۔ انڈیا والوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھا لیا۔ دیکھ لیں کتنے بڑے آرٹسٹ سے ہمارا ملک محروم ہو گیا“ ۔

” میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ فنکار حساس ہوتے ہیں۔ میں اپنے تمام آرٹسٹوں کی عزت کرتا تھا۔ میرے گھر سے میرا کھانا آتا تھا۔ اکثر آرٹسٹ بھی اس میں شریک ہوتے۔ ان میں غلام علی اور افشاں کا نام پیش پیش ہے۔ گلو کارہ افشاں کا تو نام بھی میں نے ہی رکھا تھا“ ۔

” اعظم صاحب! اس کی کیا کہانی ہے؟“ ۔

” وہ قصور سے آئی تھی اور اس کا نام ’لاڈو‘ تھا۔ عالمگیر نام کے میرے دوست ریلوے میں گارڈ تھے۔ ایک رات انہوں نے گھر کھانے کی دعوت میں بلوایا۔ وہاں چھوٹے غلام علی، پرویز مہدی وغیرہ بھی آئے ہوئے تھے۔ مجھے عالمگیر نے کہا کہ ایک لڑکی قصور سے آئی ہے اچھی آواز ہے۔ آپ کو سنوانا چاہتا ہوں! وہاں اس نے فلم ’محل‘ ( 1968 ) میں رشید عطرے کی موسیقی میں نورجہاں کا گایا ہوا گیت: ’جیا را ترسے دیکھن کو، لگی ہے آس ملن کی‘ سنایا۔

مجھے اس کی آواز بہت اچھی لگی میں نے اس سے کہا یہ لو میرا کارڈ۔ وہ بولی کہ مجھے تو ریڈیو میں کوئی آنے ہی نہیں دے گا۔ میں نے اس کو کہا کہ گیٹ پر میرا نام لو اور آ جاؤ۔ میں نے اس کے دو تین گانے ریکارڈ کیے اور شمس الدین بٹ صاحب کو سنوائے۔ وہ میرے کام کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ اس لڑکی کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا کہ۔ ’لاڈو‘ ۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ بھلا یہ کیا نام ہوا؟ ہم لاڈو کے نام سے اناؤنسمنٹ نہیں کر سکتے۔

تم اب اس کا کوئی اور نام رکھو! ان دنوں میں اے آر خاتون کا ناول ’افشاں‘ پڑھ رہا تھا۔ اچانک ذہن میں جھپاکا ہوا اور ’افشاں‘ نام پسند آ گیا۔ اب بھی وہ میرے اس مکان کے قریب ہما بلاک میں رہتی ہے۔ مجھ سے ملنے آتی رہتی ہے۔ پھر تو بہت جلد اس کا بڑا نام ہو گیا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے محفل میں تسلیم کرتی ہے کہ اعظم صاحب مجھے لانے والے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جن جن کو میں نے متعارف کرایا وہ یہ کہتے ہیں کہ اعظم صاحب ہی ہمیں تراشنے اور سامنے لانے والے ہیں۔ الطاف طافو بھی کبھی کبھار میرے پاس آتا ہے۔ اس کا بیٹا سجاد طافو تو برخوردار ہے اپنا“ ۔

” جی اعظم صاحب بے شک! تمغہ ء امتیاز یافتہ سجاد طافو نے ہی تو مجھے آپ کے بارے میں بتلایا تھا“ ۔
۔ جی ہاں وہ بہت اچھا آدمی ہے ”۔ اعظم صاحب نے کہا۔

” ریڈیو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ میوزک اور ڈرامہ آرٹسٹوں کے آڈیشن بس خانہ پوری ہوتی ہے۔ انتخاب تو پہلے ہو چکا ہوتا ہے“ ۔

” نہیں نہیں! ! ریڈیو پاکستان میں بڑی سختی تھی۔ کئی بڑے آ رٹسٹ پہلی دفعہ مسترد ہو گئے۔ جیسے سلیم رضا، اداکار ندیم، طاری طبلے والا۔ میں نے طاری سے کہا تھا تمہارے لئے یہاں جگہ نہیں ہے جاؤ باہر کسی ملک کو نکل جاؤ۔ وہ چلا گیا اب باہر مزے کر رہا ہے۔ اس نے وہاں میوزک اکیڈمی کھولی ہوئی ہے۔ جب پچھلے دنوں وہ یہاں آیا تو اسٹیج پر کھڑے ہو کر اس نے کہا کہ مجھے اس مقام پر لانے والے اعظم صاحب ہیں“ ۔

” آج کل کے گلوکاروں، موسیقاروں، گیت نگاروں کو کوئی پیغام د یجئے!“ ۔

” کوئی کام سیکھے بغیر نہیں آتا۔ جب تک آپ مشق نہ کریں اورکسی استاد کو نہ پکڑیں۔ آج کل لوگوں نے موسیقی کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ گٹار ہاتھ میں پکڑ لیا۔ وہ سر میں بھی نہیں ہوتا لیکن بجا رہے ہیں۔ پھر وہ ڈرم۔ مجھے اس سے سخت نفرت ہے۔ ڈرم کا کوئی سر نہیں ہے۔ ’ٹھن‘ بجتا ہے۔ بھئی کون سے سر سے بجتا ہے؟ محض ایک شور، ایک ہنگامہ ہے۔ آج کل کی نئی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ موسیقی سننے کے بھی آداب ہیں۔ اسے بیٹھ کر گایا اور سنا جاتا ہے اور اب۔ اب تو گایا اور سنا نہیں بلکہ صرف دیکھا جاتا ہے“ ۔

اعظم صاحب نے ریڈیو کے اعلیٰ افسران کی موسیقی سے عدم دلچسپی کی ایک افسوسناک بات بتائی:

” ابھی ریڈیو پاکستان لاہور نئی عمارت میں منتقل نہیں ہوا تھا۔ علامہ سیماب ؔاکبر آبادی کی غزل مہدی حسن کی آواز میں براہ راست نشر ہو رہی تھی جو ساتھ کے ساتھ ریکارڈ بھی ہو رہی تھی۔ :

آیا میری محفل میں غارت گر ہوش آیا
پیمانہ بکف آیا، مے خانہ بدوش آیا

” مہدی حسن اور میوزیشنوں کے سامنے ایوب رومانی، میں، خواجہ خورشید انور اور اداکار علاء الدین بیٹھے تھے۔ مہدی حسن ایسے ڈوب کر گا رہا تھا کہ ہم مدہوش ہو گئے۔ گائیکی کا ایسا پر اثر ماحول تھا کہ ہم بالکل بے سدھ ہو گئے۔ اتنے میں ایک آدمی کنٹرول روم سے بھاگتا ہوا آیا اور کہا:

” ٹرانسمشن کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ کیا یہ آپ کے باپ کا ریڈیو ہے؟“ ۔
” ارے باپ رے! ایسا غضب! افسر شاہی نے ریڈیو کا بھی بیڑا غرق کر دیا“ ۔ میں نے کہا۔

” یہ ہی نہیں! بلکہ مجھے صبح ایک ’میمو‘ بھی مل گیاکہ تم نے ٹرانسمشن ختم ہونے کے بعد بھی 10 : 00 منٹ زائد کیوں لیے ! میں نے جواب دیا کہ مہدی حسن اتنا ڈوب کر گا رہا تھا کہ ہمیں تو اپنا ہی ہوش نہیں تھا یہ کیسے پتا چلتا کہ نشریات کا وقت ختم ہو رہا ہے۔ مہدی حسن جیسا فنکار تو پیدا ہی نہیں ہوا۔ وہ میرا ذاتی دوست بھی تھا۔ یہ چیچا وطنی سے آتا تھا۔ معمولی سا پاجامہ پہنا ہوتا۔ میں اس کو پروگرام کے ساتھ ایک آدھ فیچر بھی دیتا تھا تا کہ اس کو کچھ پیسے مل جائیں۔ میری بڑی عزت کرتا تھا۔ وہ بہت اچھا آدمی تھا“ ۔

” اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت بھی ریڈیو کے اعلیٰ حکام فن اور فنکاروں کی ترقی اور فن کو آگے بڑھانے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے“ ؟

” جی ہاں! بہت کم بیوروکریٹ موسیقی اور فنکاروں کی عزت کرتے اور انہیں سمجھتے تھے۔ سلیم گیلانی صاحب اس قسم کے افسروں سے بالکل مختلف تھے۔ میوزک کو بہت سمجھتے تھے۔ انہوں نے میوزک میں بڑا کام کیا۔ سینٹرل پروڈکشن یونٹ بنایا ہی انہوں نے تھا“ ۔

” اعظم صاحب! اب تو پندرہ بیس سال سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اصل ساز ایک طرف ہو گئے ہیں ان کی جگہ الیکٹرانک سنتھیسائزر سے کام لیا جا رہا ہے۔ ستار، وائلن کی آوازیں بھی انہی سے لی جا رہی ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں“ ؟

” ہمارے بنیادی ساز ستار، سارنگی او ر طبلہ ہیں۔ اب دیکھو کہ جو طبلے کے دائیں اور بائیں میں مزہ ہے وہ ڈرم میں کہاں ہے! میرا بہترین طبلہ نواز شوکت حسین تھا۔ اس کے ہاتھ سے جو طبلہ بجا ویسا بولتا ہو ا دایاں اور بائیاں میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ حالاں کہ اس کے لئے ’مخروطی‘ ( پتلی ) انگلیاں درکار ہوتی ہیں۔ اس کی موٹی انگلیاں تھیں مگر اللہ نے ان میں بھی کیا صلاحیت بخشی تھی۔ پھر میرا ایک سارنگی نواز غلام محمد تھا۔

جب میرے پروگرام میں روشن آرا بیگم آتیں تو کہتیں کہ شوکت حسین اور غلام محمد کو میری سنگت کے لئے بلواؤ! ۔ سارنگی نواز غلام محمد جیسا فنکار میں نے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ سارنگی کو پہلے ملایا جاتا ہے لیکن وہ کبھی بھی نہیں ملاتا تھا۔ فوراً ہی سر باندھ کر شروع ہو جاتا تھا۔ دیکھ لو پھر کیسے کیسے لوگ تھے! وہ چک جھمرے میں رہتا تھا۔ کبھی وہ لیٹ بھی ہو جاتا تو میں اس کا خیال کرتا تھا۔ اس پر وہ ڈھیر ساری دعائیں دیتا تھا۔ اس کو ریڈیو پر متعارف کروانے والے نزاکت علی سلامت علی تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ یہ انڈیا سے آیا ہے اور بہت ا چھا سارنگی نواز ہے۔ میں نے اس کو اسٹاف آرٹسٹ رکھ لیا“ ۔

” یہ بات کہاں تک درست ہے کہ پورے پاکستان کے ریڈیو اسٹیشنوں پر میوزک سیکشن غیر فعال کر دیا گیا ہے؟“ ۔

” جی ہاں! میوزک بالکل غیر فعال ہو گیا ہے۔ ہمارے زمانے میں ریڈیو پاکستان لاہور میں بیس سے پچیس میوزشن ملازم / اسٹاف آرٹسٹ تھے۔ اب وہ سب ماضی کا قصہ ہو گئے۔ کچھ ریٹائر ہو گئے کچھ انتقال کر گئے۔ اب لے دے کے وائلن والا جاوید اور

اشفاق رہ گئے ہیں۔ جاوید کو صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی بھی ملا ہے۔ یہ کوک اسٹوڈیو میں بھی نظر آتا ہے۔ یہاں میرے پاس بھی آتا ہے۔ بڑا تابعدار ہے۔ ان کی ریڈیو پر بھرتی میں نے کروائی تھی۔ ہمارا ایک بورڈ ہوتا تھا جس کے ممبران بابا جی اے چشتی، خواجہ خورشید انور، میں اور شاید ملکہ پکھراج تھیں۔ ہم ان میوزشنوں کو سنتے اور بھرتی کرتے۔ اب بھرتی تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو شعبہ ہی بند کیا جا رہا ہے ”۔

” اس کی کیا وجہ ہے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” اس کی وجہ حکام کی عدم دلچسپی ہے۔ ہمارے تو اندر میوزک ہے۔ ا ور موجودہ اعلیٰ حکام کے اندر میوزک نہیں ہے۔ میں پانچ سال ہیڈ ایگزامنر رہا ہوں۔ پنڈی ریڈیو پر گلوکاری بھی کی ہے۔ میوزک ہی نہیں اب ریڈیو سے ڈرامہ بھی نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں سے کیسے کیسے ڈرامے نشر ہوئے ہیں۔ جیسے رفیع پیر کا پنجابی ڈرامہ ’اکھیاں‘ ، ’مٹھے چاؤل‘ پھر اشفاق صاحب کا ’تلقین شاہ‘ وغیرہ“ ۔

”آخر حکومت نے یہ کیوں کیا؟“ ۔
” یہ تو متعلقہ وزارت کو پتہ ہو گا!“ ۔

سماجی رابطوں کی تیز رفتار ترقی کے باوجود پوری دنیا میں ریڈیو کی حیثیت مسلمہ ہے۔ اور ریڈیو پاکستان تو وہ زرخیز نرسری تھی جس میں لگائی گئی۔ ”پنیریوں“ نے ہی پاکستان فلمی صنعت اور پاکستان ٹیلی وژ ن کو پروان چڑھایا۔ پاکستانی معاشرے کے زوال میں ایک بڑا حصہ اس امر کا بھی ہے کہ ہم نے اپنے مشاہیر کو وہ عزت اور توقیر نہیں دی جس کے وہ حق دار تھے۔ زندگی میں پوچھتے تک نہیں اور بعد از مرگ رسمی باتیں اور ”انعام“ ۔

ہم چڑھتے سورج کے پجاری ہیں اور جو شخص سورج چڑھا رہا ہے اس کا علم ہی نہیں! پھر جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ریڈیو پاکستان نے لا تعداد نابغہ ء روزگار افراد دیے جن کی محنت اور خلوص نے ادارے کو بہترین ساکھ عطا کی۔ ان میں کچھ سورج تھے اور کچھ سورج بنانے والے۔ سورج نکلا تو واہ واہ اسی کی ہوئی اور جس نے اس کو بنایا۔ اس کی خبر ہی نہیں۔

مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے محنتی اور پر خلوص انسان کی قدر صرف پاک فوج نے کی۔ جنگ بندی کے فوراً بعد پاک فوج نے ستمبر 1965 کے حوالے سے ایک ”وار سیکشن“ war section بنایا۔ اس میں جنگ کی مناسبت سے تصاویر لگائیں۔ ان میں تین عدد تصاویر غیر فوجیوں کی ہیں : ملکۂ ترنم نورجہاں، صوفی غلام مصطفے ٰ تبسم ؔ اور محمد اعظم خان! ۔ ستمبر 1965 کے حوالے سے ریڈیو پاکستان سے میڈم نورجہاں، صوفی تبسمؔ اور کئی سازندوں کو صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔

نہیں دیا تو محمد اعظم خان کو جس نے ”ان سب“ سے کام لیا۔ پاکستانی قوم ”مردہ پرست“ ہے۔ مرنے کے بعد قدر کرتے ہیں۔ مضا مین لکھتے، تعزییی پروگرام کرتے اور صدارتی تمغے دیتے اور اس کے گھر جانے والی سڑک کا نام اس کے نام پر رکھ دیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہمارے ”مسرور انور“ ہیں۔ ان کو بعد از مرگ ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے“ پر صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اس وقت کے صدر فاروق لغاری صاحب نے دیا۔ 22 سال تک حکومت پاکستان کو علم ہی نہیں ہوا کہ یہ سدا بہار گیت کس نے لکھا! اور یقیناً آج حکومت یہ بھی نہیں جانتی کہ جنگ ستمبر کے سدا بہار جنگی ترانے کس کی پر خلوص کاوشوں سے منضۂ شہود پر آئے تھے۔ زندگی میں قدر کیجئے! یہ محمد اعظم خان کا حق ہے۔ اسے زندگی میں ہی چکا دیجئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).