علیشا کی شلوار ایک آئینہ ہے!


اماں مجھے ڈر لگ رہا ہے!

اماں تم کہاں ہو؟

اماں مجھے بھوک لگ رہی ہے

اماں کمرے کا دروازہ کھلتا کیوں نہیں؟

اماں تم مجھے اکیلا چھوڑ کے کہاں چلی گئی ہو؟

اماں تم نے تو کہا تھا ہم بہت اچھی جگہ جا رہے ہیں جہاں کھانا ملے گا تم مجھے آئس کریم کھلاؤ گی!

اماں…. اماں.. …

آ جاؤ نا اماں!

دیکھو اب تو رو رو کے میری آواز بیٹھ گئ ہے

مجھے پیاس بھی بہت لگی ہے

اماں دیکھو تو باہر کتے بھونک رہے ہیں، مجھے ڈر لگ رہا ہے، اب آ جاؤ نا!

اماں کھڑکی سے چیخوں کی آواز آ رہی ہے اور آہ وزاری کی…. اماں کیا تم رو رہی ہو ؟

اماں…. اماں….

بولو نا اماں!

اماں. کل ہم دونوں گھر سے چلتے وقت کتنے خوش تھے۔ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا نا کہ بہت جلد مجھے وہ سنہرے بالوں والی گڑیا خرید کے دو گی وہ جو بڑے بازار میں شیشوں والی دوکان کے شو کیس میں رکھی ہے۔ پھر میں بھی اپنی گڑیا گلی میں کھیلنے والی بچیوں کو دکھاؤں گی جو مجھے ہر وقت اپنی گڑیا دکھاتی تو ہیں مگر چھونے نہیں دیتیں۔

اور ہاں تم نے یہ بھی تو کہا تھا کہ مجھے لالی پاپ اور چپس بھی لے کر دیں گی لیکن ہمیں گھر سے دور جانا ہو گا نئی نوکری مل گئی ہے نا، خوب پیسوں والی نوکری!

یا د ہے اماں آپا، گڈو بھائی اور باجی کتنے اداس تھے۔ آپا تو دو روز سے چپ چپ تھی، کچھ بول ہی نہیں رہی تھی۔ بس مجھے اور اماں کو دیکھتی اور منہ پھیر لیتی۔ باجی کی آنکھیں بھی کچھ دنوں سے نم سی تھیں، پتہ نہیں کیوں؟

بس کا سفر طویل تو تھا لیکن بڑا مزا آیا تم نے مجھے ٹھنڈی بوتل پلائی اور ہاں چپس بھی لے کر دیے۔ میں کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی, ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی اور سارے درخت میرے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔

پھر ایک جگہ بس رکی اور ہم نیچے اتر آئے۔ ہمیں راستوں کا علم نہیں تھا لیکن تھوڑی ہی دیر میں ایک موٹے سے انکل لینے آ گئے۔ میں بہت تھکی ہوئی تھی اس لئے راستے میں ہی مجھے نیند آ گئی اور میں اماں کی گود میں سر رکھ کے سو گئی۔

آدھی رات کا وقت تھا جب میری آنکھ کھلی، کمرے میں ہلکی روشنی تھی۔ مجھے بہت پیاس لگ رہی تھی۔ میں نے اماں کو آواز دی، اماں پانی….

پھر میں نے دیکھا کہ میں بستر پہ اکیلی تھی۔ مجھے بہت ڈر لگا میں نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا لیکن اماں نہیں آئی۔ میں بستر سے اتری اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ باہر سے بند تھا۔ روتے روتے نہ جانے کس وقت آنکھ لگ گئی۔

اماں اب تو دن کی روشنی ہو گئی ہے، مجھے بھوک لگ رہی ہے۔

تم کہاں ہو؟

اماں، چلو گھر چلیں

ہمیں یہ پیسے نہیں چاہیں

دروازہ کھلنے کی آواز آئی ہے، میں بستر سے اتر کے دروازے کی طرف جاتی ہوں۔

اماں مجھ سے تو دو قدم بھی نہیں اٹھائے جا رہے، نقاہت سے برا حال ہے۔

اماں دروازہ کھول کے کسی نے ایک روٹی اور پانی کی بوتل اندر کھسکائی ہے۔

اماں تم کہاں ہو؟

اب تو مجھ سے رویا بھی نہیں جا رہا

اماں میں یہ روٹی کیسے کھاؤں؟

یاد ہے تم، آپا اور باجی مجھے گود میں بٹھا کے میرے منہ میں لقمہ ڈالتی تھیں

اماں میں کیا کروں؟

آ جاؤ نا

میں اب کبھی تمہیں تنگ نہیں کروں گی

گڑیا لینے کی ضد بھی نہیں کروں گی

آئس کریم بھی نہیں مانگوں گی

اماں، پھر شام ہو گئی ہے

اندھیرا ہو گیا، مجھے ڈر لگ رہا ہے

کیا یہ تمہارے رونے کی آواز ہے جو کبھی کبھی میرے کانوں تک آ پہنچتی ہے۔

کیا ہوا ہے اماں؟

اگر نوکری نہیں ملی تو روؤ نہیں،

 چلو واپس گھر چلیں!

اماں دروازہ پھر کھلا ہے، مجھے لگا کہ تم آئی ہو

لیکن یہ تو وہی انکل ہیں جو ہمیں لینے آئے تھے۔

“میری اماں کہاں ہیں انکل؟” میں پوچھتی ہوں

“وہ تمہارے لئے گڑیا لینے گئی ہیں”

اماں یہ تم نے کیا کیا؟

اپنی گڑیا کو چھوڑ کے کیوں چلی گئیں؟ مجھے گڑیا نہیں چاہیے

اماں، انکل نے مجھے اٹھایا اور گود میں بٹھا لیا

اماں مجھے ڈر لگ رہا ہے

اماں انکل مجھے چوم رہے ہیں

اماں… اماں

اماں انکل میرے ساتھ گندی حرکتیں کر رہے ہیں

اماں تم نے ہی تو کہا تھا نا کہ کبھی کسی کے سامنے اپنا پاجامہ مت اتارنا۔

اماں دیکھو تو، یہ میرا پاجامہ کھینچ کے اتار رہے ہیں

اماں یہ کیا ہے؟

 مجھے بچا لو

اماں مجھے درد ہو رہا ہے

اماں ، یہ کیا کر رہے ہیں؟

آہ ، آہ، آہ، ہائے، آہ

انکل میں مر رہی ہوں

مجھے چھوڑ دو

کیا آپ کی میرے جتنی بیٹی ہے؟

انکل بہت درد ہے

بہت درد…. بہت درد

نہیں کرو، مجھے چھوڑ دو

میں روتی ہوں ، چیختی چلاتی ہوں،

انکل میری ٹانگیں نہیں چھوڑتے۔

میرا دم گھٹ رہا ہے

ابھی تھوڑی دیر میں میں مر جاؤں گی

اماں، آپ کی علیشا زخمی ہے

اماں شاید میں بے ہوش ہو گئی تھی

درد بہت ہے اماں!

بہت درد!

اماں تم کہاں چلی گئیں؟

اب ایک اور انکل مجھے پانی پلا رہے ہیں، بسکٹ بھی دیا ہے کھانے کو!

“میری اماں کہاں ہیں” میں پوچھتی ہوں

“تمہارے لئے چیزیں لینے گئی ہیں” وہ کہتے ہیں

اماں مجھے کچھ نہیں چاہیے

بس تم آ جاؤ!

اماں بستر کی چادر نہ جانے سرخ کیوں ہو گئی ہے؟

بہت درد ہے اماں!

اب پانی پلانے والے انکل میرا پاجامہ اتار رہے ہیں

انکل نہیں کریں نا،

آپ تو اچھے انکل ہیں، آپ نے مجھے کھانے کو بسکٹ بھی دیا ہے

اف ، ہائے، آہ، آہ

نہیں کرو، چھوڑ دو مجھے

بہت درد ہے!

دیکھو انکل کیا میں ایک ننھی سی گڑیا نہیں ہوں؟

میرے ساتھ گندی حرکتیں نہ کرو

کیا تم میرے باپ جیسے نہیں ہو؟

بستر کی چادر کے سرخ دھبے جگہ جگہ پھیل گئے ہیں۔

اب میں حرکت نہیں کر سکتی

نہ جانے اماں کب آئیں گی؟

آئیں گی بھی کہ نہیں؟

اماں کہتی تھیں، ہم کبھی اکیلے نہیں ہوتے، اللہ میاں ہمیشہ ساتھ ہوتے ہیں !

اللہ میاں، آپ ہی آ جائیں

مجھے آ کر واپس آسمان پہ لے جائیں

پیارے اللہ میاں، آپ تو میری بات مانیں گے نا

پلیز آ جائیں، علیشا مر رہی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).