مجھے مسز جاوید سے شکست کیسے ہوئی؟


ماما اج کیا بنا رہی ہیں؟

بیٹے اج میں اپنے پیارے بیٹے عفان کے لئے چکن فجیتا، پزا، دم کے کباب مع ہری چٹنی اور میٹھے میں چاکلیٹ پڈنگ بنا رہی ہوں۔ واو ماما زبردست۔ یو ار دا بیسٹ

ھاھا چلو چلو مکھن لگانا بند کرو اور ماما میرے لیے کیا بنایا آپ نے؟ یہ میری لاڈو تھی، جو بارہ سال کی ہونے کے باوجود ٹھنک ٹھنک کر فرمائشیں کیا کرتی ہے۔ نہ مری لاڈو اپ کی پسند کا زنگر چکن پیس ماما بھول سکتی ہیں؟ اور۔ یہ رہا۔ آپ کا منٹ مارگریٹا، میں نے ٹھنڈا ٹھار سیون اپ اور پودینے کے پتوں سے بنا ہو اشربت کا جگ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔

یسسسس ماما! آئی لو یوووو۔

وہ میرا گال چومتے ہوئے لاونج میں چلی گئی۔

دونوں کی من پسند چیزیں بنا کر میں ٹیبل پر لے کر آئی کہ مل بیٹھ کر کھاتے ہیں لیکن دونوں اپنے اپنے رومز میں تھے میں نے بلایا بھی مگر ایک کا کہنا تھا کہ مووی مس ہو جائے گی اور دوسرے کو ٹک ٹاک بنانی تھی۔ پتہ ہے اس پہ بھی وہ میری ڈشز کی تصویر لگا کر لو یو ماما لکھے گا۔

میں تو بس ہمہ وقت واری صدقے ہی جاتی رہتی ہوں اتنے سعادت مند بچے ہیں میرے۔

بس میرا یہی کام تھا اب۔ شادی سے پہلے تو مجھے بس گزارا لائق ہی کوکنگ اتی تھی۔ پھر شادی کے بعد ہاتھ صاف کیا کوکنگ بیکنگ سب پہ، پھر بچوں کے بعد تو جیسے میرا دن رات کچن میں ہی بسر ہوتے ہیں، بچوں کی فرمائش پوری کرنا جیسے میں نے اپنی زندگی کا لازمی جزو ہی بنا لیا تھا۔ چاینیز اٹالین تھائی فوڈ العرض ہر قسم کے کھانے بنانے میں طاق ہو چکی ہوں، ادھر بچوں کے منہ سے کوئی فرمائش نکلی نہیں ادھر اماں جان کا بس نہیں چلتا پلک جھپکتے میں بنا کے لے اتی ہیں

اور کیوں نہ کروں بھلا دنیا میں اولاد سے بڑھ کر اور کون عزیز ہوتا ہے انسان کو۔

اج ہمیں دعوت پہ جانا ہے۔ میرے سرتاج صاحب کے دوست کے گھر ڈنر ہے۔ اور دوست بھی وہ جس کی بیوی میری کلاس فیلو رہ چکی ہے۔ کافی لایق فایق قسم کہ لڑکی ہوا کرتی تھی. میری تو اس سے کم کم ہی بنتی تھی بھئی صاف بات ہے میں کوئی پڑھاکو ٹائپ نہیں تھی۔ سو ہمیشہ کلاس میں اسی کا پلڑا بھاری رہا۔ ہاں یہ اور بات کہ شادی کے بعد سے اپنی کوکنگ سکلز سے میں بہت سی خواتین کو مات دے دیا کرتی تھی۔ سو آج بھی ایسا ہی دن تھا۔

جاوید صاحب کے گھر ان کی بیوی اور چار بچے ہوتے ہیں۔ ، کھانا بھی کوئی خاص نہیں پکانا نہیں اتا مسز جاوید کو، اور بچے بھی کوئی التفات کا مظاہرہ نہیں کرتے ہوئے دیکھے میں نے تو، ہاں بھئی اب سب کو میری طرح سب کچھ تھوڑی ہی ملتا ہے۔

جاوید صاحب کا گھر وہی عام سا تھا۔ بس کچھ خاص نہیں پکایا ہوا تھا ان کی بیگم نے، وہی عام سا چکن کا سالن، ساتھ توے کی سادہ روٹی اور بیف کا پلاو تھا۔ میٹھے میں سوجی کا حلوہ تھا میں نے ایک تفاخرسے اپنے میاں کو دیکھا گویا اج بھی جیت میری ہی ہوی نا۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ ان کے چاروں بچوں نے ان کا ساتھ دیا کھانے کی میز پر۔ با اواز بلند بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا۔ اور انتہائی نفاست سے اپنی ماں کی پلیٹ میں تھوڑی تھوڑی چیزیں ڈال کر پھر اپنی پلیٹ بنائی اور بہت سکون سے کھانا کھایا۔ نہ سامنے ٹی وی لگا ہوا تھا نہ ہی کسی کے یاتھ میں موبائل۔ فون تھا۔ کوئی اپنے کانوں میں ہینڈز فری ٹھونس کر نہیں بیٹھا ہوا تھا اور نہ ہی کوئی پاؤں جھلا رہا تھا۔

کھانا کھانے کے بعد اسی سکون اور اطمینان کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے برتن اٹھائے گیے۔

اور میں سوچتی ہی رہ گئی کہ میں تو انواع و اقسام کے کھانے بنانا ہی سیکھتی رہ گئی، میں تو اپنی کوکنگ سکلز کو پالش کرنے کے چکر میں پڑ کر ایک انتہائی اہم پہلو ہی بھول لبیٹھی تھی۔ سکی۔

آج میں ہار گئی مسز جاوید سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).