تعلیمی ادارے اور فنون لطیفہ


گزشتہ کالم میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہمیں نئی نسل کو فنون لطیفہ کی جانب راغب کرنا چاہیے ’انہیں اردو زبان و ادب سے محبت کا درس دینا چاہیے۔ جو بچے لکھنا چاہتے ہیں یا لکھتے ہیں ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ ان کے لیے علمی و ادبی ورکشاپس‘ تربیتی پروگرامز اور علمی و ادبی سیشنز کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ان کو علم و ادب کے قریب کیا جا سکے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ان کی علمی و ادبی تربیت ہو گی۔

میرا خیال ہے اس کا بہترین راستہ اور طریقہ ہمارے تعلیمی اداروں کے پاس ہے ’وہ اگر اس کام کا بیڑا اٹھا لیں تو یہ کام ممکن ہو سکتا ہے‘ اگر تعلیمی ادارے تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ علمی و ادبی تقریبات ’مقابلہ جات اورادبی ہیروز کی یاد میں مختلف دنوں میں سیشنز رکھنا شروع کر دیں تو بچوں کو ایسے لکھنے والے سے متعارف کروایا جا سکتا ہے جس سے یقیناً ہمارا میڈیا اور ہمارا معاشرہ نہیں کر رہا۔ بین الکلیاتی و بین الجامعاتی مقابلہ جات‘ ادبی مباحثوں کا سلسلہ اورمضمون نگاری کے مقابلہ جات جیسے پروگرامز سے تعلیمی اداروں کو اگرچہ اس قدر مالی فائدہ نہیں ہوتا مگر اس طریقے سے ان اداروں سے کئی ایسے ذہن پیدا ہو سکتے ہیں جو آنے والے دنوں میں قوم کا مستقبل ہو سکتے ہیں سو اس معاملے میں حکومتی سطح پر بھی بہت حد تک کوششیں جاری ہیں مگر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیوں کا شدید فقدان ہے جو ایک قابل افسوس بات ہے۔

کچھ روز قبل ایف جی ڈگری کالج (لاہور کینٹ) میں ہونے والے تقریری مقابلہ جات جس میں پورے پاکستان سے ایف جی آئی انسٹی ٹیوشنزکے بچوں نے شرکت کی اور ”بھوک تہذیب مٹا دیتی ہے“ کے موضوع پر تقاریر کیں ’یہ نہ صرف تقاریر تھیں بلکہ بھوک پر انتہائی پرمغز مکالمہ تھا جس میں بچوں کی زبانی کئی نئے پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ میں ہال میں بطور جج شریک تھا اور بچوں کی تقایر اور جوش و جذبہ دیکھ کر اپنا زمانہ طالب علمی یاد آ گیا جب گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج‘ منڈی بہاؤالدین کا سٹوڈنٹ ہال تھا اور مجھے محسن انسانیتﷺ پر تقریر کرنی تھی۔

پروفیسرمرزا عارف نعیم (مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ) نے حوصلہ بڑھایا اوریوں اس مقابلے میں اول انعام پا کر ڈویژن اور صوبائی سطح تک پہنچا تھا۔ بچوں کی تقاریر نے مجھے دوبارہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ ہال میں لا کھڑا کیا اور مجھے یوں لگا کہ آج ایف جی ملتان ’گوجرانوالہ‘ بہاولپور ’اوکاڑہ اور کراچی کے بچے نہیں بول رہے کہ میں خود ڈائس پر کھڑا اس قوم کو بھوک کے نقصانات بتا رہا ہوں۔ کالج ہذٰا کی پرنسپل فرخندہ حبیب اور یار من ڈاکٹر سلیم سہیل (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو) کی دعوت پر ایف جی کے ان مقابلہ جات (ضلعی‘ صوبائی ’کل پاکستان) میں تینوں دن شریک ہو کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ اگر سرکاری ادارے بچوں کی علمی و ادبی نشو و نما کے لیے ایسی اعلیٰ سطحی تقریبات منعقد کروا سکتے ہیں تو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو اس سے دوگنا کام کر نا چاہیے۔

ڈاکٹرسلیم سہیل چونکہ خود ایک زیرک اور تخلیقی آدمی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایف جی میں ایسے لوگوں کا موجود ہونا‘ ایف جی کے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کیونکہ لکھنے پڑھنے والے لوگ اگر تعلیمی اداروں میں موجود ہوں گے تو ادارے علمی ادبی شناخت بنا لیتے ہیں اور ان کی آواز ایوانوں تک پہنچتی ہے۔ خیر میں واپس آتا ہوں ’افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسی تقریبات سے بچوں کی پڑھائی اور نصاب کا بہت حرج ہوتا ہے لہٰذا زیادہ دھیان نصاب کی تکمیل پر دینا چاہیے، حالانکہ ایسے علمی و ادبی سیمینارز نصابی کتب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

ہمیں اندازہ نہیں کہ ایسی تقریبات سے ہم کئی مستقبل کے لیڈر‘ ادیب ’مفکر اور معاشرے کے نبض شناس پیدا کر رہے ہیں۔ آپ دنیا کے تمام بڑے لیڈرز‘ سیاست دانوں ’ادیبوں اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں‘ ان میں کم از کم بھی اسی فیصد وہ لو گ ہوں گے جن کی تعلیم و تربیت اورلیڈر شپ کے ٹیلنٹ کو کسی نہ کسی استاد یا تعلیمی ادارے نے دریافت کیا ہوگا اور وہ لوگ آج اپنا تحریر و تقریر میں یہ کہنے میں ذرا تامل محسوس نہیں کرتے کہ ان کی تراش خراش تعلیمی اداروں نے کی اور انہیں آگے بڑھنے کا ہنر سکھایا۔

ایک زمانہ تھا کہ ہم سرکاری سطح پر ایسی تقریبات کو ترستے تھے جبکہ اکا دکا پرائیویٹ ادارے یہ کام کر رہے تھے مگر پھر پرائیویٹ اداروں کو سانپ سونگھ یا انہیں کسی نے یہ محسوس کروا دیا کہ ایسے کاموں پر پیسہ خرچ کرنے کی بجائے میوزیکل کنسرٹ کروا لیں ’رقص کی محفل کروا لیں مگر کوئی علمی و ادبی کام نہ کراوائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سرکاری اداروں میں علمی و ادبی مقابلہ جات کا اہتمام زیادہ شدت سے ہونے لگا اور پرائیویٹ سیکٹر میں میوزیکل کنسرٹ ہونے لگے۔

فرق کس قدر آ گیا‘ کبھی کبھی دیکھ کر حیرانی بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی۔ مجھے اس وقت انتہائی خوشی ہوتی ہے جب کسی تعلیمی ادارے میں مقابلہ جات ’کانفرنسیں‘ سیمینارز ’مشاعرے‘ ورکشاپس کا اہتمام دیکھتا ہوں یا شرکت کرتا ہوں۔ کیونکہ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں احمدفرازؔ نے کہا تھاکہ ”اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے“ ، سو یہ لوگ شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں اور یہ کام ہی ان کو ابدی زندگی عطا کرے گا۔

ہمارے سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ’سپورٹس گالے‘ میوزیکل کنسرٹ ’کلچرل شوز‘ فیشن شوز ’کچن شوز اور فلاں فلاں شوز ہم کر لیتے ہیں‘ کرنے بھی چاہیے کیونکہ میں ان کی مخالفت نہیں کر رہا مگر خدارا علمی و ادبی تقریبات کی جانب بھی توجہ دیں ’بچوں کو زبان و ادب سے متعارف کروائیں تاکہ وہ اپنی مٹتی ہوئی شناخت ہو بحال کر سکیں۔ ادبی مقابلہ جات سے نہ صرف بچوں میں بولنے اور لکھنے کی صلاحیت پروان چڑھے گی بلکہ وہ کتاب اور کلچر سے بھی محبت کرنا سیکھ جائیں گے ورنہ تو میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں صرف ”شاہ دولہ کے چوہے“ کی تیار کیے جا رہے ہیں جن کی جسمانی نشو و نما تو رہی ہے مگر ذہنی طور پر وہ ہمیشہ نابلد رہیں گے۔

میں محترمہ فرخندہ حبیب (پرنسپل)‘ ڈاکٹر نگہت جمال (صدر شعبہ) ڈاکٹر سلیم سہیل (اسسٹنٹ پروفیسر) اورڈاکٹر علی عنان (اسسٹنٹ پروفیسر) کا ممنون ہوں کہ انھوں نے مجھے اس خوبصورت علمی و ادبی تقریب میں بچوں کی زبانی کئی اہم تقاریر سننے کا موقع دیا اور مجھے میرا زمانہ طالب علمی یاد کروا دیا کیونکہ میں آج بھی کہتا ہوں کہ میرے اندر لکھنے اور بولنے کی صلاحیت میرے تعلیمی اداروں نے پیدا کی۔ ورنہ ہمارے ہاں کئی اہم اور بڑے تعلیمی اداروں کا یہ رویہ بھی سامنے آ چکا کہ جہاں نہ صرف سوال کی موت ہو چکی بلکہ سوال کرنے اور بولنے والوں کو بھی جیتے جی مار دیا گیا سو ایسے میں اس طرح کے پروگرام بچوں کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ہم آپ کو بولنے کی آزادی دیتے ہیں ’جو محسوس کرتے ہیں وہ بولیں سو کاش باقی تعلیمی ادارے بھی بچوں کو بولنے کی اجازت دے دیں

۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).