شارجہ بین الاقوامی کتاب میلہ!


متحدہ عرب امارات کی امارت شارجہ میں عالمی کتب میلے کا 39 واں ایڈیشن 4 سے 14 نومبر 2020 تک جاری رہا جس میں سینکڑوں عرب اور بین الاقوامی پبلشرز نے شرکت کی۔ شارجہ کے ایکسبو سینٹر میں ہر سال کتابوں کی بین الاقوامی نمائش منعقد کی جاتی ہے۔

اس کی ابتداء آج سے 38 سال قبل 19 جنوری 1982 کو شارجہ کے حکمران اور امارات کے سپریم کونسل کے ممبر، شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے فرمائی تھی۔ شروع میں اس کا انتظام وانصرام شارجہ کے محکمہ ثقافت و اطلاعات کے پاس تھا جبکہ اب یہ نمائش شارجہ بک اتھارٹی کے زیر نگرانی منعقد کی جاتی ہے۔

اس سال ایکسپو سینٹر شارجہ میں منعقد ہونے والے اس کتاب میلے میں 73 ممالک کے 1,024 پبلشروں کی 10 لاکھ سے زیادہ کتب کی نمائش کی گئی۔ کووڈ 19 کی وجہ سے شارجہ بک اتھارٹی کے مطابق امارت بھر کے متعلقہ اداروں کے تعاون سے اعلی معیار کے تمام حفاظتی اقدامات اٹھائے گئے تھے اور عوام سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ داخل ہوتے ہی احتیاطی تدبیر پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

شارجہ بک اتھارٹی کے چیئرمین احمد بن رکاض العامری نے کہا کہ ’مشکل حالات میں بھی ثقافتی سرگرمیاں رکنی نہیں چاہئیں کیونکہ پڑھنا اور علم کے ذریعے لوگوں کی زندگی کو تقویت پہنچانا معاشرتی ترقی اور خوشحالی کا ایک اہم محرک ہے۔

نمائش کا ثقافتی پروگرام مکمل طور پر ڈیجیٹل تھا تاہم پبلشرز ایکسپو سنٹر شارجہ میں موجود تھے جو دنیا بھر سے آئے ہوئے کتابوں سے محبت کرنے والے افراد کی کتابوں کی تلاش اور اس کی خریداری میں مدد کر رہے تھے۔ امسال اس بین الاقوامی کتب میلے کے لیے تاریخ میں پہلی مرتبہ منفرد آن لائن، آف لائن ہائبرڈ پروگرام کو ترتیب دیا گیا تھا جس میں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا یادگار مجموعہ پیش کیا گیا۔

متحدہ عرب امارات کی طرف سے کورونا وائرس، کوویڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے حفاظتی اقدامات کے باعث تمام ثقافتی تقریبات کا انعقاد ”شارجہ ریڈز“ پلیٹ فارم کے ذریعے آن لائن کیا گیا تاہم کتاب کے چاہنے والوں کے لیے کتابیں براؤز کر کے ایکسپو سینٹر شارجہ میں خریدادری کے تجربے سے آسانی کے ساتھ لطف اندوز ہونے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی تھی۔ میلے کے لئے چھ ہالوں میں پانچ انفارمیشن ڈیسک قائم کیے گئے تھے تاکہ شائقین کی کتابوں اور ناشرین تک رسائی کو آسان بنایا جاسکے۔

یہ سالانہ نمائش دنیا کے سب سے بڑے کتاب میلوں میں شامل ہے جس میں کتابیں آویزاں کی جاتی ہیں، تربیتی ورکشاپس منعقد کیے جاتے ہیں، بچوں کے لیے مختلف ایکٹیوٹیز ہوتی ہیں اور مصنفین کتابوں پر دستخط کرتے ہیں، جہاں کوئی بھی شخص فری انٹری کے ساتھ روزانہ صبح 09 بجے سے رات 10 بجے تک جبکہ جمعہ کو شام 4 بجے سے رات 10 بجے تک جا سکتا ہے۔

اس بین الاقوامی کتب میلے کا مرکزی کردار اور موجد شارجہ کے حکمران شیخ ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی ہیں۔ آپ بذات خود ایک ممتاز مصنف، ادیب اور مؤرخ ہیں اور ہمیشہ دانشوروں، ادیبوں اور اہل علم کو اکٹھا کر کے تجربات کے تبادلے اور ان کی جدوجہد کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، آپ ان کی شعبہ نشر واشاعت سے محبت اور کتاب دوستی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس سال ان کے حکم پر شارجہ بین الاقوامی کتاب میلے میں شریک تمام پبلشنگ ہاؤسز کو نمائش میں سٹالز لگانے کے کرایے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، خبروں کے مطابق یہ چھوٹ تقریباً 6 ملین درہم سے اوپر تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے شارجہ کے حاکم نے پوری دنیا کو پڑھنے لکھنے، کتاب اور صاحب کتاب سے غیر معمولی محبت کا ایک پیغام بھیجا ہے، اور اس تعاون کی وجہ سے یہ کتاب میلہ پہلا بین الاقوامی کتاب میلہ بن گیا ہے جس میں پبلشرز کو کرایے سے مکمل طور پر مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ شیخ نے اس تعان سے اپنی فیاضی اور فراخ دلی کا ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو کتاب کی حفاظت، اس سے محبت اور نشر و اشاعت کی صنعت کو فروغ دینے کی ضرورت کا پیغام بھیجاہے،

کتاب میلوں کا انعقاد جہاں معاشرے کے بدلتے رجحان کی عکاسی کرتا ہے وہیں کاروباری اور کتابیں پڑھنے والے طبقے کے لیے ایک اچھا موقع ہوتا ہے کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور اپنی پسند کی کتابیں ایک ہی جگہ کم قیمت پر خرید سکیں امید ہے کہ یہ کتاب میلہ اس لحاظ سے بار آور ثابت ہوگا۔

ہو سکتا ہے کہ کتابوں کے اوراق سے نظریں ہٹاکر ہر وقت سکرین پر نظر جمانے والی ہماری نوجوان نسل کے لیے ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں کتاب میلہ حیران کن ہو مگر انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جن ممالک نے جدید ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا وہاں آج بھی کئی منزلہ کتب خانے موجود ہیں، آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں لاکھوں کتابیں پڑھی جاتی ہیں الیکٹرانک میڈیا ترقی کی کتنی ہی منزلیں سر کرلے، کتاب کی اہمیت مسلمہ ہے۔ کتاب سے بہترکوئی رفیق نہیں، زندہ حروف، دھڑکتے لفظوں اور مہکتے جملوں والی کتابیں، مری ہوئی روح میں از سر نو جان ڈالتی ہیں، کتابیں ہنستی بھی ہیں اور ہنساتی بھی ہیں روتی بھی ہیں اور رلاتی بھی ہیں، کروڑوں مالیت سے بنے ہوئے گھر میں بھی اگر کتاب نہیں تو وہ گھر آباد نہیں ویران ہے اور ہزاروں خواہشات کو جگہ دینے والا دل اگر کتاب کی خواہش سے خالی ہے تو وہ دل زندہ نہیں مردہ ہے۔

ہمیں معاشرے میں کتاب کلچر کو فروغ دینا ہوگا، کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا، سوشل میڈیا میں ہمہ تن مصروف نوجوان نسل کو علم وشعور کی طرف راغب کرتے ہوئے انہیں یہ باور کرانا ہوگا کہ یہ نیا جہاں، نئی ٹیکنالوجی، اور نت نئی ایجادات سب کے سب کتاب ہی کے مرہون منت ہے اگر نوجوان نسل کو کتاب کی طرف مائل نہ کیا گیا تو بعید نہیں کہ ہمیں مستقبل میں کتابوں کے ڈھیر سارے ذخیروں کا نوحہ سننا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).